|

وقتِ اشاعت :   August 12 – 2020

اگست آزادی کا مہینہ ہے جشن آزادی ہر سال کی طرح اس بار بھی جوش سے منائیں گے جہاں توپوں کی سلامی ہو گی، تقاریب ہونگی، سیمینار ہونگے، گلی گلی قریہ قریہ قومی پرچم، جھنڈا، برقی قمقمے سجے ہونگے لیکن بے انصافی، ظلم، جبر، حقوق کی پامالی اور ان دیکھی بندشوں سے آزادی کا جشن کب منائیں گے، نہیں معلوم۔ اگست آتے ہی جہاں قومی دن کی تقریبات کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں وہیں ذرائع ابلاغ کے ذرائع ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے جشن آزادی کی تیاریاں، لوگوں کا جوش و جذبہ اور ساتھ ہی کبھی کبھار علیحدہ وطن کے اغراض و مقاصد، تحریک آزادی اور دو قومی نظریے پر بھی روشنی ڈال دیتے ہیں۔

ایسے میں تحریک آزادی کے سب سے معروف نعرے کی بات کریں تو ایک ہی نعرہ ذہن میں ابھرتا ہے پاکستان کا مطلب کیا لا الا الااللہ،،،، لیکن کیا یہ محض نعرہ ہے یا دو قومی نظریے کی اساس؟ دو قومی نظریہ کیا تھا؟ یہی کہ بر صغیر میں مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں ان کے رسم و رواج، مذہب اور ثقافت علیحدہ ہیں اور ان کا ایک ساتھ چلنا محال ہی نہیں ناممکن بھی تھا اور آج وقت نے ثابت کر دیا کہ ہندوستان کی تقسیم دراصل دو قومی نظریے کی بنیا د پر رکھی گئی تھی جو درست تھی۔اکثر اگست میں بحث چھڑ جاتی ہے پاکستان سیکیولر ملک ہے یا اسے مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا، اس سے ذیلی بحثیں چھڑ جاتی ہیں۔

11 اگست کی تقریر کیا تھی یا 15 اگست کا اعلان کیا ہوا تھا اور بحث برائے بحث معاملہ طول ہی پکڑتا ہے دائیں والے بائیں والوں کو اور بائیں والے دائیں جانب والوں کو نیچا دکھانے کو تاریخی حوالے نکالتے رہتے ہیں لیکن یہ حتمی اور طے ہے کہ آئین پاکستان میں پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اسلام مملکتی مذہب درج ہے جہاں ہر اقلیت کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ تحریک آزادی کا سفر اور اسلامی جمہوری ملک اور قائد اعظم کی خواہشات تو آج قصہ پارینہ بن گئیں لیکن سال 2018 میں برسر اقتدار آئی تحریک انصاف نے ریاست مدینہ کا خواب دکھایا اور اس مدینے کی ریاست کے خدوخال نا صرف بار بار دہرائے گئے۔

بلکہ صبح وشام ریاست مدینہ کا نام استعمال کیا گیا جس نے پاکستانیوں کو پر امید کر دیا۔ لیکن اس ماہ اگست کے ابتدائی 12 دنوں میں تین مختلف واقعات ہمیں ہمارا دوہرا اور سیاسی چہرہ دکھا رہے ہیں اور بتا رہے ہیں بطور ریاست ہم کہاں کھڑے ہیں اور بطور عوام، ہم کس پستی میں اترتے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے ٹیکسلا کا ذکر جہاں ہم جنس پرستی کی شادی ہوئی، لڑکی نے لڑکی سے شادی کر لی، میڈیا پر خبریں چلیں قانون میں حرکت ہوئی اور دلہن بننے والی لڑکی نیہا علی کو پولیس نے تحویل میں لے لیا جبکہ دلہا بننے والی مبینہ لڑکی عاصمہ بی بی عرف علی آکاش تاحال روپوش اور اس کی تلاش جا ری ہے۔

واضح رہے کہ ٹیکسلا میں لڑکی کے مبینہ طور پر لڑکا بن کر لڑکی سے شادی کرنے کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں زیر سماعت ہے اور عدالت نے بار بار طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر جوڑے کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ یہاں ایک ملزم شیلٹر ہوم میں ہے دوسری فرار ہے کیا اسلامی ریاست ایسے قبیح عمل کی اجازت دیتا ہے ریاست کو اس کیس کے ذریعے اپنی رٹ کو ثابت کرنا ہو گا۔ آگے پڑھیے نیب یعنی قومی احتساب بیورو نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو 12 اگست کو طلب کیا تھا اور ان پرالزام ہے۔

ریاست مدینہ کے اہم عہددار وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے قریبی عزیزکو ایک ہوٹل کے غیر قانونی طور پر شراب لائسنس جاری کروانے میں اپنا اثروروخ استعمال کیا جبکہ کہا گیا کہ یہ لائسنس جاری کرنا ڈی جی ایکسائز کا کام تھا۔ انصاف و اسلام کے ناصح سے سوال ہے کہ آخر ریاست مدینہ میں شراب لائسنس کا اجراء ہی کیوں؟ پھر وزیر اعلیٰ اجازت دے یا کوئی اور محکمہ،ام الخبائث قرار دئیے گئے مشروب کا کاروبار ریاست مدینہ میں تو نہیں ہو سکتا؟ یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے پی ٹی آئی کے سندھ سے منتخب ہندو رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون میں شراب پر پابندی سے متعلق آئینی ترمیم بل 2019 پیش کیا تھا۔

جسے سوائے جے یو آئی ف کے کسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی جبکہ سعد رفیق نے بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تجویز دی جس کو مسترد کردیا گیا۔ یہ وہ اسمبلی ہے جہاں اپوزیشن حکومتی بل کی حمایت کرنے پر مجبور ہے جہاں راتوں رات آرڈیننس آتے ہیں بل منظور ہوتے ہیں لیکن اسلامی قوانین کے لیے قانون سازی تاحال خام خیالی ہے۔ تیسرا واقع بھی چند دن پہلے سامنے آیا معروف اداکاروں کی فلم کا ایک کلپ وائرل ہوا جس میں لاہور کی ایک مسجد میں رقص کیا جا رہا تھا۔سوشل میڈیا پر شور ہوا اداکاروں نے معافی مانگ لی ایک مینجرکو برطرف کیا۔

ایک ایف آئی آر بھی ہو گئی، اللہ اللہ خیر صلا لیکن ریاست مدینہ کا محکمہ اوقاف کہاں ہے مساجد کا تقدس بحال رکھنا کس کی ذمہ د اری ہے؟ کورونا کے دنوں میں مساجد کی بندش اور نمازیوں کی پکڑ دھکڑ کے معاملے میں سرگرم مفکرین خاموش کیوں ہیں؟ اور اگر کہیں یہ واقعہ پڑوسی ملک میں ہوا ہوتا یا پھر کسی اقلیتی پاکستانی نے یہ کیا ہوتا تو اب تک پیالی میں طوفان اٹھ چکا ہوتا، مساجد کے تقدس کو قائم رکھنا کس کا کام ہے کیونکہ یہ عمل خلافِ قانون اور آئین کے منافی ہے۔ ریاست جو انصاف اور ریاست مدینہ کی داعی ہے وہ خاموش کیوں ہے یا ریاست صرف نوٹس لینے تک محدود ہے؟ یا تو آپ ریاست مدینہ کا راگ الاپنا بند کر دیں یا ہم جنس پرستی کی شادی، مے نوشی کے لائسنس کا اجرا ء اور مسجد کی بے حرمتی جیسے واقعات پر ایکشن لیتے نظر آئیں کیونکہ جہاں یہ سب ہو وہ ریاست مدینہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔