گزشتہ دنوں بلوچستان میں بارشوں نے جہاں حکومت کی کارگردگی اور نام نہاد ترقی کو زمین بوس کیا وہاں بلوچستان میں گڈ گورننس کی بھی قلعی عوام کے سامنے کھل گئی۔ بلوچستان کے چند اضلاع مون سون زون میں شامل ہیں اور سالانہ مون سون سیزن میں بارشیں تباہی مچاتی رہتی ہیں لیکن اب تک بلوچستان کی گڈ گورننس کے دعویدار حکمرانوں کی بہترین گورننس ہمیشہ ہی ان بارشوں کی نظر ہوتی رہی ہے۔ گڈ گورننس کا نعرہ عوام کافی عرصے سے سنتے آ رہے ہیں لیکن یہ گورننس اب تک حقیقی معنوں میں صرف خواب اور سرآب ہی ثابت ہوا ہے۔
بلوچستان میں گڈ گورننس کے بجائے گڈ کرپشن نے ہی نے صوبے کو بدحالی اور پسماندگی کی دلدل میں دکھیل دیا ہے بلوچستان میں ہر شعبہ اور ہر محکمے کو کرپشن دیمک کی طرچ چاٹ رہی ہے اور آج تک ان کرپٹ عناصر کبھی بھی کسی قانون یا تحقیقاتی اداروں کی گرفت میں نہیں آ سکے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے یا ان کے پاس کالا جادو کا علم ہے کہ کرپٹ عناصر صوبے اور عوام کے وسائل دیدہ دلیری سے لوٹ کر خود ہی ترقی کی تمام تر منازل طے کر رہے ہیں ان کے بیرون ملک اثاثے اور کاروبار چل رہے ہیں آپ اگر ایمانداری سے تجزیہ کریں کہ بلوچستان کے اراکین قومی اسمبلی، سینٹرز، صوبائی اسمبلی کے ممبران حتیٰ کہ کسی چیف آفیسر، تحصیلدار، بابو،کلرک، اکاونٹ کلرک کو ہی دیکھ لیں ان کی ذاتی ترقی کہاں کہاں تک ہوئی ہے اور ان کے اثاثوں میں سالانہ کی بنیاد پر کتنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
بلوچستان کے ایسے سینکڑوں آفیسران ہیں جن کی جائیدادیں بلوچستان اور ملک کے انتہائی پوش ایریاز میں ہیں کیا کوئی بھی سرکاری آفیسر صرف اپنی تنخواہ سے اتنے اثاثے بنا سکتا ہے؟ بالکل نہیں لیکن شومئی قسمت کہ ملک کا قانون ہی نرالا ہے وہ ایسے چور، کرپٹ طاقتور کا معاون بن جاتا ہے اور انکے خلاف کبھی ایکشن میں آتا ہی نہیں۔ آپ ہمارے قانون ساز عوامی نمائندوں کو دیکھیں کہ وہ کس طرح اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک بن جاتے ہیں شاید اسی وجہ سے ہی بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ سیاست میں آ جاؤ لگ گیا تو امیر نہیں تو فقیر۔
لیکن بلوچستان اسمبلی کے 65 اراکین اسمبلی ہمیشہ ہی امیر سے امیر تر بنتے جا رہے ہیں بلوچستان میں جب تک غیر جانبدارانہ احتساب اور سزا وجزا کا عمل نہ ہوگا اس وقت تک بلوچستان پسماندگی کے خاتمے اور عوام خوشحالی اور ترقی کو قیامت تک ترستے رہیں گے۔ ستر سالوں سے بلوچستان ترقی کے ابجد سے واقف ہی نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی صوبے کے بھوکے اور ننگے عوام جدید ترقی کے ثمرات سے مستفید ہو سکے ہیں بلوچستان میں کرپشن کی روک تھام کیلئے قائم ادارہ اینٹی کرپشن اب صوبے میں کرپشن ختم کرنے کے بجائے کرپشن سپورٹ ادارہ بن چکا ہے۔
اینٹی کرپشن جیسے ادارے کے ہوتے ہوئے بھی کرپشن کا بازار گرم ہوتو پھر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا یے جبکہ نیب سمیت دیگر ادارے بھی کرپشن کے خلاف آنکھیں بند کرکے سب ٹھیک کا راگ الاپ کر بلوچستان کو کاغذی اور نام نہاد ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ دنوں مون سون بارشوں نے حکومتی ترقی اور گڈ گورننس کی قلعی اس وقت کھول دی جب صوبے کے بڑے بڑے شہر بارش کے پانی میں ڈوبنے لگے،شہروں کی گلیاں تالاب کا منظر پیش کر نے لگے۔ صوبے کے شہروں یعنی اربن ایریاز کا جب یہ حال ہو تو دیہاتوں کا کیا حال ہوگا۔
بلوچستان میں میونسپل کمیٹیز اور ڈسٹرکٹ کونسلز کو سالانہ کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں۔ کیا وہ فنڈز ان شہروں کی ترقی پر خرچ ہو رہے ہیں؟ اگر خرچ ہو رہے ہیں تو معمولی بارش میں شہروں کی حالت کیوں انتہائی خراب ہو جاتی ہے اگر یہ فنڈز کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں تو پھر گڈ گورننس کے نعرے لگانے والے ان اداروں میں کرپشن کے خلاف کیوں ایکشن نہیں لیتے؟ پورے بلوچستان میں میونسپل کمیٹیز اور ڈسٹرکٹ کونسلز کا کردار ترقی کے میدان میں نہ ہونے کے برابر ہے ان بنیادی اداروں کا اصل مقصد علاقے کی ترقی کے بجائے بڑوں کی خوشنودی حاصل کرنا اور کرپشن کو فروغ دینا ہے۔
اب ان میونسپل کمیٹیز کا کام شہروں اور اضلاع کی ترقی میں صرف کاغذی منصوبوں تک ہی محدود ہو چکا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یہی ادارے دراصل صوبے میں کرپشن کی نرسریاں ہیں جس سے کرپشن فروغ پارہا ہے۔ کروڑوں روپے کے فنڈز جہاں کاغذوں کی نظر ہونگے وہاں بارشوں میں یقینی طور پر شہر کی گلیاں تالاب کا منظر پیش کرتے رہیں گے۔ بلوچستان میں میونسپل کمیٹی ڈیرہ مراد جمالی،اوستہ محمد،ڈیرہ اللہ یار، حب،اوتھل،سبی،بھاگ و دیگر کی وجہ سے ان مذکورہ بالا شہر آپ کو شہر کم بلکہ گندگی کے ڈھیر اور پانی کے جوھڑ ہی نظر آئیں گے۔
جہاں اب تک ان شہروں کی گلیاں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ شہری روزانہ ان جوھڑوں سے گزر کر اپنا روزمرہ کے امور نمٹا رہے ہیں۔ کیا کبھی بھی کسی وزیر اعلیٰ انسپیکشن ٹیم، کسی اینٹی کرپشن محکمہ، کسی محکمہ کے آفیسر نے ان کروڑوں روپے کے کاغذی منصوبوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے؟ یا پھر وہ بھی اپنا شئیر لیکر سب کچھ ٹھیک کا راگ الاپ کر عوام اور حکومت کو بیوقوف بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں کے اراکین صوبائی اسمبلی کو سب سے زیادہ ترقی فنڈز ملتے ہیں ہر ایم پی اے کو چالیس سے پچاس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز سالانہ کی بنیاد پر ملتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ اور نہ ہی عوام کی محرومیوں کا ازالا ہو رہا ہے آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے روپے خرچ ہونے کے باوجود بلوچستان میں ترقی کا عمل زمین پر نظر نہیں آرہا۔ کیا بلوچستان کا پورا سسٹم کرپٹ ہو چکا ہے؟ کیا تمام محکمے کرپشن کی لعنت میں مبتلا ہو چکے ہیں؟ کیا ایسے کرپٹ عناصر پر تحقیقاتی اداروں کی نظریں نہیں ہیں؟ کیا کرپشن کرنے والوں کے پاس الہ دین کا چراغ یا پھر ایسی کوئی جادو ہے کہ وہ طاقتور اداروں کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہتے ہیں یا پھر ہم سب اس حمام میں ننگے ہیں والا فارمولا کے تحت کرپشن پر مٹی پاؤ کے تحت خاموشی ہے۔
اوراسی وجہ سے ہی ایسے کرپٹ اہلکار ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ اگر بلوچستان میں کرپشن نہیں تو پھر ترقی کا عمل کیوں عوام تک پہنچ نہیں رہا؟ اگر بلوچستان کرپشن جیسے الزامات سے پاک ہے تو پھر ستر سالوں سے بلوچستان اور عوام کی تقدیر کیوں بدل نہیں رہی یا پھر تبدیلی اور ترقی ان چند طاقتور سیاسی قیادت اور آفیسران کیلئے ہی ہے۔ کیا کوئی بھی آفیسر اپنی تنخواہ سے ملک کے نامور تعلیمی اداروں میں بھاری بھر کم فیسز پر اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتا ہے؟ کیا اسی تنخواہ پر بیرون ملک یا اندرون ملک مہنگے پرائیویٹ اسپتالوں سے علاج کروایا جا سکتا ہے؟
کیا آسمان سے باتیں کرنے والے مہنگائی میں امیرانہ طرز زندگی گزارا جا سکتا ہے؟ کیا کوئی بھی اپنی حلال تنخواہ سے ملک کے پوش ایریاز میں پراپرٹی خرید سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کون سی طاقت ہے جو صوبے اور عوام کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ کرکے عوام کو بھوکا پیاسا مرنے مارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کہاں ہیں ہمارے تحقیقاتی ادارے، کہاں ہیں اینٹی کرپشن محکمہ، کہاں گم ہو گیا ہے نیب کا اعلیٰ احتسابی ادارہ؟ یا پھر بلوچستان جیسے غریب صوبے میں ان اداروں کی رسائی نہیں ہے اگر ہے تو پھر ایک خاص حکمت عملی کے تحت بلوچستان میں کرپٹ عناصر کو آزادی حاصل ہے۔
وہ جو چاہیں کریں ان سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتا ہے۔ کیا جمہوریت،کرپشن،لوٹو پھوٹو اور سب کچھ ہضم کرنے کا نام ہے؟ کیا ملک میں جمہوریت کی آڑ میں جو چاہے کرپشن کرے یا ڈاکے ڈالے کوئی اس سے پوچھنے کی ہمت نہ کرے؟ کہاں ہیں ملک کی آزاد عدالتیں جو بلوچستان میں ترقی کے نام پر کرپشن کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں لیکن ان کو کبھی کسی عدالت نے قانون کی گرفت میں لایا ہو۔ کیا کبھی کسی کرپٹ اہلکار یا چور کو سزا ہوئی ہے۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی کرپٹ اہلکار کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔ کسی کرپشن کرنے والے کو سزائے موت یا عمر قید ہوئی یا پھر یہ سزائیں ملک کے غریب عوام ہی کیلئے ہیں۔
کیا ملک کے غریب عوام ہی جیلوں میں سڑنے کیلئے ہیں۔ جس معاشرے میں انصاف امیروں کیلئے ہی ہو وہاں معاشرہ ترقی نہیں بلکہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔ کیا کوئی بھی فرد بلوچستان میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق جیسا حکمران نہیں بن سکتا؟ کیا ان کی طرح کوئی حکمران یہ نہیں کہہ سکتا کہ فرات کے کنارے اگر کتا مر جائے تو روز محشر مجھ سے پوچھا جائیگا۔ کیا بلوچستان میں سب سے زیادہ غربت نہیں؟ موجودہ ریاست مدینہ کے کسی وزیر مشیر یا پھر ریاست مدینہ کے بلوچستان صوبے کے خلیفہ نے کسی کرپٹ کو سزا دی ہے۔
کسی کو جیل و زندان میں قید کیا ہو۔ آج تک ایسی کوئی مثال موجود نہیں تاہم آپ کو ایسی ہزاروں مثالیں ملیں گی کہ بھوک سے تنگ آگر کر روٹی چوری کرنے والا، مرغی چوری کرنے والے سمیت معمولی چور جیل میں سڑ رہے ہیں ان کیلئے قانون طاقتور ہے لیکن بڑے بڑے چور اس ملک کی تقدیر سے کھیل کر عوام کو پسماندہ اور تباہ حالی کا شکار کرکے دبئی لندن نیو یارک سوئیزر لینڈ جیسے ممالک میں پراپرٹیز بنا کر ملک اور عوام سے کس طرح کی مخلصی اور وفاداری کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں بلاامتیاز پسند اور ناپسند کے فارمولے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سخت احتساب کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
جس میں احتساب سب کیلئے برابر ہو چاہے ملک کا جج ہو،جنرلسٹ ہو،جنرل ہو،سیاستدان ہو، بیورو کریسی ہو، کلرک یا کوئی اور،انصاف سب کے لئے برابر ہو تو پھر بلوچستان ملک اوردنیا پر راج کر سکتا ہے اور اقوام عالم کا بیتاج بادشاہ بھی بن سکتا ہے بصورت دیگر اگر حسب سابق طریقہ کار جاری رہا تو بلوچستان اور ملک پسماندگی اور محرومیوں کا شکار ہوتے رہیں گے اور اس سے ملک ترقی کے بجائے معاشرتی تنزلی کا شکار ہوتا رہیگا۔