حال ہی میں عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے امت مسلمہ کے جگر میں خنجر پیوست کیا ہے جس سے امت مسلمہ کے احساسات اور جذبات کو سخت ٹھیس پہنچاہے۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اب یہ زمین مسلمانوں کی نہ رہی اور اس کے جملہ مالکانہ حقوق یہود ہی کے پاس رہیں گے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے، ایک گز زمین سے دستبرداری کتنی گران گزرتی ہے چہ جائیکہ ایک بڑے مملکت اور وہ بھی ارض مقدس ہو، انبیاء اور رسل کا مسکن رہاہو اور جس کو پاک قدموں نے پامال کیا ہو۔یہ تو غیرت ایمانی کے بالکل برعکس چیز ہے جو ناقابل برداشت ہے۔
امت مسلمہ خاص کر پاکستانی قوم اور حکمرانوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قائد اعظم آزاد اور خود مختار فلسطین کے حامی تھے اور انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنا نقطہ نظر بیان کردیا تھا۔قائد اعظم کے پیروکاورں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قائد اعظم کیا چاہتے تھے۔قائد اعظم نے کہا تھا:”یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا“
قائداعظم محمد علی جناح نے 1937ء میں ہی فلسطین کو درپیش خطرات کو محسوس کرتے ہوئے ممکنہ یہودی ریاست کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی تھی اور غالباً برصغیر میں وہ اس وقت سب سے طاقتور آواز تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں قائداعظم نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کی کوشش کرنے پر امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ”یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے اور اس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے“۔
شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کا فکر ونظر یہ تھا کہ فلسطین کا قضیہ صرف عربوں کا مسئلہ نہیں ہے،بلکہ یہ تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔اقبال کو کہاگیاتھا کہ چونکہ یہودی کسی قدیم زمانے میں سالہاں سال سرزمین فلسطین میں رہائش رکھتے تھے اور پھر مدتوں پہلے اسے ترک کردیا تھا،اس لئے اس سرزمین پر ان کا تاریخی حق بنتاہے اور ان کو اجازت دی جانی چاہئے کہ فلسطینی مسلمانوں کی زمینوں کو خریدے بغیر ان کے مالک بن جائیں اور وہاں رہائش اختیار کرلیں۔حضرت اقبال نے جواب میں کہا کہ اگر سابقہ سکونت اور ملکیت کی بنیاد پر یہ حق بن سکتاہے۔
تو پھر مسلمانوں کو اندلس کی سرزمین پر حق حاکمیت کیوں حاصل نہیں ہے، انہیں وہاں سے بے رحمی سے نکال دیاگیا تھا، جبکہ یہودیوں نے صدیوں پہلے فلسطین کو خود ترک کردیا تھا مگر مسلمانوں نے نکالے جانے سے پہلے سپین کو ترک نہیں کیاتھا، پھر شعر میں کہا
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
جو بھی غلط کام یا ناجائز دعویٰ کرتاہے تو اس کے لئے خواہ مخواہ کوئی دلیل یا بہانہ ڈھونڈ تاہے۔یہود نے بھی اس ناجائز قبضہ کے لئے کیا کیا دلیلیں نہیں گھڑی ہیں۔ایک مفروضہ تو یہ پیش کرتے ہیں کہ یہود ہی فلسطین کے سب سے پہلے ملوک ہیں یہ دوسرے لوگ بہت بعد میں آئے ہیں اس لئے ہمیں فلسطین پر قبضہ کرنے کا حق حاصل ہے۔یہ بہت کمزور دلیل ہے، بنی اسرائیل نے جب یہود سٹیٹ بنایا تو اس سے پہلے کنعان والوں نے اسی سر زمین کو ان سے 1500 سال پہلے آباد کیاتھا، اور اس پر مزید یہ کہ یہود نے فلسطین کے کچھ حصوں پر حکمرانی کی ہیں سب پر نہیں اور وہ بھی تقریبا ً400 سال بنتاہے، اس کے بعد ان کی حکمرانی ختم ہوگی تھی جس طرح ایران والوں، فرعونوں،آشوری اور دیگر اقوام کی حکمرانی فلسطین سے ختم ہوگئی تھی۔
جبکہ مسلمانوں کے دور حکمرانی کا عرصہ بہت زیادہ لمبا تھا (636-1917م) جو کہ 1200 سال تک تھی۔یہود کا تعلق فلسطین سے 1800 سال تک منقطع رہاتھا اسی دور میں یہود کا فلسطین سے کسی بھی تعلق نہیں رہاتھا وہ بالکل اسی سر زمین لاتعلق رہے۔اسی لئے یہ بات تاریخی طور پر غلط ہے کہ یہود زیادہ عرصے تک حکمران رہے ہیں۔ایک اور دلیل یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ہم ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اصل اولاد ہیں اس لئے تورات کا وعدہ ہے کہ فلسطین پر حق اولاد ابراہیم ہی کا ہے اس لئے ہمیں حق ہے کہ اوروں کو یہاں سے بھگادیں۔
یہ بھی گزشتہ کی طرح ایک کمزور دلیل ہے،کیا موجودہ یہود واقعی ابراہیم علیہ السلام کے اصل نسبی اولاد ہیں؟تاریخ اقوام کے بیشتر سپیشلسٹ کی رائے یہ ہے کہ موجودہ یہود ان بنی اسرائیل کے اولاد اور نواسے نہیں ہے جس کی طرف موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا گیاتھا، اسی رائے کا اظہار فریڈریک ہیٹریس نے اپنی کتاب (الجنس والحضارہ) اور ریپلی نے اپنی کتاب (یورپ کے اجناس) میں کیاہے۔قرآن کریم نے ان کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف نسبت پر پر زور تردید کی ہے۔فرمایا اللہ نے:ابراہیم نہ یہودی تھے نہ عیسائی بلکہ سب سے بے تعلق ہوکر ایک(اللہ) کے ہورہے تھے۔
اور اسی کے فرمانبردار تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے(آل عمران۔67) دوسری جگہ فرمایا: ابراہیم سے قرب رکھنے والے لوگ تو وہ ہیں جو انکی پیروی کرتے ہیں اور پیغمبر (آخر الزماں)اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں (آل عمران۔68).
سورہ بقرہ میں ہے کہ:کیا تم اس بات کے قائل ہو کہ ابراہیم، اسمٰعیل،اور اسحق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی ہے، اے محمد کہو کہ بھلا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی شہادت جو اس کے پاس (کتاب میں موجود)ہے چھپائے۔(آیت 140)۔
انجیل کی کتاب اصحاح ثامن میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہا کرتے تھے:اگر تم ابراہیم کے اولاد ہوتے تو تم ان کے نقش قدم پر چلتے۔سورہ بقرہ میں ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اولاد کے لئے زمین کی امامت مانگی تو اللہ نے جواب میں فرمایا:کہ ہمارا وعدہ امامت ظالموں کیلئے نہیں ہوا کرتا(بقرہ۔124)۔اللہ نے خبر دی کہ ابراہیم کے دین توحید سے باغی بچوں کیلئے زمین کی خلافت نہیں دی جائے گی کیونکہ بات اللہ کے دین سے تعلق کی ہے نسل اور نسب کی نہیں ہے۔جب تک بنی اسرائیل دین توحید پر قائم رہیں تب تک امامت ان کے پاس ان کے انبیاء اور رسل کی قیادت کی تحت رہی، لیکن جب انہوں نے دین میں تحریف اور تبدیل شروع کی، انبیاء کو قتل کیا۔
زمین میں فساد برپاکی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ عہدہ اور یہ شرف واپس کردیا اور یوں وہ امامت کے اہل نہیں رہے۔اللہ نے فرمایا:اور ہم نے نصیحت(کی کتاب یعنی تورات)کے بعد زبور میں لکھ دیاتھا کہ میرے نیکوکار بندے ملک کے وارث ہونگے(سورہ انبیاء۔ 105). ان کے سوالات کا حل تو تاریخ نے بھی اور قرآن مجید نے بھی بہتر انداز میں پیش کیا ہے۔اب اگر ان سے یہ سوالات پوچھا جائے تو مشکل ہے کہ وہ جواب دے سکیں،مثلا:(1)فلسطین پر سب سے پہلے آباد قوم عرب ہے یا یہود؟.(2).یہاں زیادہ سکونت عرب نے اختیار کیا تھا یا یہود نے؟۔(3).سب سے پہلی مسجد اقصی بنی ہے یا ہیکل سلیمانی؟ (4).اسی سر زمین سے عرب نے دفاع کی ہے یا یہود نے، کس نے نو صلیبی حملوں کا منہ توڑ جواب دیاتھا۔
عرب نے یا یہود نے؟.(5).انبیاء بنی اسرائیل کی دعوت اسلام کی طرف تھی یا یہودیت کی طرف؟.(6).تمام انبیاء کا دین کیاتھا؟.(7).کیا آج بنی اسرائیل اللہ سے کئے ہوئے وعدوں پر قائم ودائم ہیں، کیا وہ اللہ کے نیک بندے ہیں تاکہ ان کو خلافت کے مستحق قرار پایاجائے؟.(8). کیا عرب نے یہاں یہود کی کوئی مستقل حکومت گرائی ہے، جس کے نتیجے میں عرب نے یہود سے حکومت چھین لی ہو؟.(9).یہود نے تو یورپ کے بھی بہت سے وطنوں کی طرف ہجرت کی ہے اور وہاں کئے صدیوں تک رہے ہیں تو یہ وہاں کیوں ملک وامامت کا مطالبہ نہیں کرتے؟
اسی طرح اور بھی بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب یہ لوگ تا قیامت نہیں دے سکتے.اب جب صورت حال یہ ہے تو امت مسلمہ کا فرض بنتاہے کہ وہ ڈٹ کر مقابلہ کے لئے تیار رہیں، اسی حوالے سے معمولی غفلت بہت بڑی نقصان دہ ثابت ہوگی، پھر ہمیں حق حاصل ہوگا کہ ہم برملا کہہ سکیں:
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہے ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا