میر حاصل خان بزنجو کا شمار بلوچستان کی اہم قد آور سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق بلوچستان کے اہم سیاسی گھرانے بزنجو خاندان سے ہے۔ میر حاصل خان بزنجو کو سیاسی وجدان اپنے والد اور عالمی پایہ کے سیاست دان بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو سے ملا۔میر حاصل خان بزنجو گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی سیاست پر چھائے رہے۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کیا۔ اس کے بعد اپنے والد کی سیاسی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی میں بھی سرگرم رہے۔ کہتے ہیں کہ میر حاصل خان بزنجو نے سیاست میں جو اپنا مقام بنایا۔
اس میں وہ اپنے عظیم باپ اور بلوچستان کے ہر دل عزیز قومی رہبر بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کا نام استعمال کرنے کی بجائے اپنا مقام خود بنانے کے فلسفہ پر قائل دکھائی دیتے رہے۔میر حاصل خان بزنجو کا تعلق ایک سردار خیل گھرانے سے تھا لیکن میر حاصل خان بزنجو سے لے کر اس قبیلے میں شامل ان کے دیگر اقربا ء نے کبھی قبائلیت کا تاثر دینے کی کوشش نہیں کی۔ یہ یقیناً بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی پرورش کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے جب سیاست میں قدم رکھا تو ان کا تعلق بلوچستان کے پسے ہوئے طبقات سے زیادہ مستحکم تھا۔
وہ قبائلیت کہ بجائے انسانی آزادی اور احترام کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ میرِ کاروان بن کر گزرے۔یہی وجہ ہے کہ بابا بزنجو آج بھی بولان سے لے کر گوادر تک ہر طبقہ فکر بالخصوص عام لوگوں کے رہبر کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح میر حاصل خان بزنجو بھی ہمیشہ اپنے سیاسی دوستوں اور کارکنوں کے جھرمٹ میں دکھائی دیتے رہے۔ بقول وسعت اللہ خان”میر حاصل خان طبعاً ملنگ تھے اور ان کو فائیو اسٹار ہوٹل سے لے کر فٹ پاتھ تک بیٹھنے میں کبھی بھی کوئی عار نہ تھا“۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میر حاصل خان بطور وفاقی وزیر پورٹ گوادر تشریف لائے تھے۔
تو انھوں نے سرکاری پروٹوکول میں قیام کو ترجیح دینے کے بجائے اپنی پارٹی کے رہنماء و دوست حاجی فدا حسین دشتی کے گھر میں اپنا پڑاؤ ڈالا۔ جب دوستوں نے اصرار کیا کہ آپ وفاقی وزیر ہیں اور سرکاری پروٹوکول آپ کا حق بنتا ہے تو ان کا یہی جواب تھا، “یہ وزیری ایک دن ختم ہو جائے گی لیکن میں رشتوں کو نبھانے پر یقین رکھتا ہوں“۔اس ملک میں جب کوئی بندہ کسی معمولی عہدہ پر فائز ہوتا ہے تو وہ پروٹوکول کا دلدادہ بن جاتا ہے، اس کے تیور بدل جاتے ہیں اور وہ پورے طمطراق سے رہنا پسند کرتا ہے مگر میر حاصل نے وزیری میں بھی فقیرانہ زندگی گزاری۔
سب سے بڑھ کر وہ وفاقی وزیر کا عہدہ ملنے کے باوجود سیاسی کارکنوں سے جڑے رہے اور ان کے مزاج میں بدلاؤ کی معمولی سی بھی جھلک تک دکھائی نہ دی۔میر حاصل خان بزنجو بلوچستان کے علاوہ ملکی سیاست کے اہم کردار رہے ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی اپنے سیاسی اصول اور عقائد پر گزری ہے۔ پاکستانی سیاست میں سیاسی پرندے گھونسلے تبدیل کرنے یا مصلحتوں کا شکار بننے کے بعد اپنے نظریہ کو بدلتے دیر نہیں کرتے لیکن ہم میر حاصل خان بزنجو کے نظریہ اور ان کی سیاست سے چاہے لاکھ اختلاف کریں مگر وہ اس پر ثابت قدم رہے۔
اگست کا مہینہ ہمیشہ اہلِ بلوچستان پر گراں گزرا ہے۔ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو اور نواب اکبر خان بگٹی کی رحلت اور دیگر واقعات نے بلوچستان کی دھرتی پر رہنے والوں کو ہمیشہ دکھ اور رنج و الم دیا ہے۔ اب میر حاصل خان بزنجو بھی اسی مہینے چل بسے۔ یوں بلوچستان کی سیاست کا اہم باب بھی بند ہوا۔میر حاصل خان بلوچستان کے ایک معتدل، روشن فکر، ترقی پسند اور قوم پرست رہنما تھے۔ وہ بلوچستان کے حقوق کے لیے عدم تشدد کا راستہ اختیار کر کے اس کے حصول کی جدو جہد کے داعی رہے۔ وہ ملک میں جمہوریت، جمہوری نظام کی مضبوطی اور عوام کے حقِ حکمرانی کی جدوجہد میں نمایاں کردار اداکرتے رہے۔
میر حاصل خان بزنجو کی رحلت سے ملک بالخصوص بلوچستان اور ان کی جماعت نیشنل پارٹی ایک اہم سیاسی رہنما سے محروم ہوگئی ہے۔ جب بھی ملک میں جمہوریت، جمہوری نظام، آئین کی بالادستی، روشن خیالی اور لبرل و ترقی پسند سیاست کی بات ہوگی، اس میں میر حاصل خان بزنجو کا تذکرہ ضرور ہوگا۔