سال 1989, اگست کی دس اور گیارہ کی درمیانی شب ہم بہت سارے لوگ کلفٹن میں واقع مڈایسٹ ہسپتال کے لان میں غم اور پریشانی کے عالم میں گرفتار تھے جبکہ اوپرآئسولیشن وارڈ میں بابائے بلوچستان، میر غوث بخش بزنجو زندگی کے آخری موڑ پر آخری سانس لے رہے تھے کیونکہ ڈاکٹرز نے میر صاحب کے کینسر کے موذی مرض کو اب لاعلاج قرار دیدیا تھا۔ میری درخواست پر بابا کے داماد، ڈاکٹر یوسف بزنجو نے ازراء مہربانی اندر آنے کی اجازت دی اور یوں مجھے ان کی زندہ حالت میں دیدار کا موقع ملا۔ افسوس اسی رات میر صاحب دار فانی سے کوچ کر گئے۔
گیارہ اگست کو ہم مستی خان لاج میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ نواب محمد اکبر خان بگٹی بھی میر صاحب کی دیدار پر تشریف لائے۔ بعد ازاں ہم ایک بہت بڑے قافلے کی صورت میں میر صاحب کی وصیعت کے مطابق میت کو بذریعہ سڑک لے کر نال روانہ ہوئے۔ آج ایک بار پھر اسی اگست کے مہینے میں میر صاحب کے فرزند اور سیاسی جانشین، میر حاصل خان بزنجو، اسی کینسر کے موذی مرض میں بروز جمعرات، 20 اگست کو کراچی ہی کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے اور ان کے جسد خاکی کو انہی راستوں سے نال لے جایا گیا ہے۔ میر حاصل خان اور میرے درمیان تعلقات لگ بگ چار دہاہیوں پر محیط رہیں۔
ہماری پہلی ملاقات غالباً سن 1976 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے ایک کنونشن میں ہوئی جبکہ دوسری اور نسبتاً تفصیلی ملاقات مستی خان لاج میں رہی جہاں ہم بابا سے ملاقات کیلئے گئے تھے۔یوں ہمارا رابطہ بی ایس او کے پلیٹ فارم سے مستقل اور باقاعدہ جڑا رہا۔ ہم دونوں تنظیم میں فعال رہے اور مجھے یہ اعزاز بھی رہا کہ میں نے کراچی زون میں بطور سینئر جوائنٹ اور جنرل سیکرٹری ذمہ داریاں سر انجام دیں جبکہ بھٹو اور ضیاالحق کی سیاسی لوگوں کے خلاف سخت اقدامات عروج پر تھے۔ ایک وقت وہ بھی جب ہم اکٹھے کراچی یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔
میر حاصل خان ایم اے فلاسفی اور میں پبلک ایدمنسٹریشن میں پوسٹ گریجویٹ کر رہے تھے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب میر حاصل خان بطور وفاقی وزیر جہاز رانی میرے باس بن گئے۔ اس دوران ہم نے اکھٹے یکم دسمبر تا تین دسمبر 2017 کو چابہار ایران کا سرکاری دورہ کیا اور ایرانی صدر کی دعوت پر چابہار بندر گاہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ میں ان دنوں گوادر پورٹ اتھارٹی میں بطور ڈائریکٹر جنرل کام کر رہا تھا۔میر حاصل خان کا بے وقت انتقال میرے لیے انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ میں بہت اچھے دوست کو ہمیشہ کیلئے کھو چکا ہوں۔ بطور فیملی کے ایک فرد کی حیثیت سے ہم اب محروم ہو گئے ہیں۔ان کی وفات نہ صرف ذاتی بلکہ قومی اور سیاسی طور پر بھی ایک سانحہ عظیم ہے۔ بلوچ، بلوچستان اور ملک بھر کیلئے۔ہماری دعا ہے کہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب ہو، آمین۔