پوری قوم آج نواب اکبر بگٹی شہید کی برسی منارہی ہے 26اگست 2006کو نواب بگٹی کو ایک فوجی کارروائی میں شہید کیا گیا تھا واقعہ کی تمام تفصیل حکومت کے پاس ہیں تاہم جو بہت کم اطلاعات عام لوگوں تک پہنچی تھیں ان کے مطابق نواب بگٹی نے ہتھیار ڈالنے سے شہادت کو ترجیح دی اور مزاحمت کا فیصلہ کرلیا۔ نواب بگٹی کی شہات کے بعد ان کی شخصیت ایک قومی شہید کی حیثیت اختیار کرگئی اور بلوچ تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔ پوری بلوچ جدوجہد میں نواب بگٹی کا کردار نمایاں رہا ہے وہ ہمیشہ ہر اول دستے کی حیثیت میں رہنمائی کا کردار ادا کرتے نظر آئے۔
انہوں نے پوری زندگی مراعات کو ہمیشہ ٹھکرایا اور ایک سادہ زندگی بسر کی۔ میری ذاتی شناسائی نواب صاحب سے 1962سے تھی۔ وہ میرے دادا کو ذاتی طور پر جانتے تھے میرے دادا ٗنواب محراب خان بگٹی کے ہم عصر تھے۔ لیکن مجھ سے ایک طالب علم کی حیثیت سے شناسائی تھی میں اس وقت کالج کا طالب علم تھا۔ یہ نواب بگٹی اور میر غوث بخش کی سرپرستی تھی کہ میں 1963میں ایس ایم کالج طلباء یونین کا صدر منتخب ہوا اس طرح سے سیاسی عمل میں ہماری دلچسپی میں اضافہ ہوا 1970کے عام انتخابات میں میں نے نواب بگٹی کو انتہائی قریب سے دیکھا۔
میں ڈان کے نمائندہ کی حیثیت سے 1970کے انتخابات کی خبریں اخبار کو فراہم کرتا رہا۔ تقریباً تین ماہ سے زائد عرصہ تک میں نواب بگٹی کے قریب رہا اور ان کی ذاتی خصوصیات اور شخصیت سے انتہائی متاثر ہوا۔ وہ ایک نیک اور شریف انسان تھے۔ ضرورت مند کی مدد کرتے تھے اور ٹھگ کے سخت مخالف تھے ان کو سیاسی ٹھگوں سے شدید نفرت تھی اور جان بوجھ کر سیاسی ٹھگوں کی سرعام بے عزتی کرتے تھے اور عوام کو واضح الفاظ میں بتاتے تھے کہ وہ یہ کیوں کررہے ہیں سیاسی طور پر ان کو ہمیشہ ہم نے ایک ایماندار شخص پایا۔ اختلاف کی صورت میں ان کا سیاسی اختلاف نمایاں اور شدید ہوتا تھا۔
لیکن ہمیشہ وہ ذاتی تنقید (Self Assessment) پر یقین رکھتے تھے۔جب کبھی ان کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ غلطی پر ہیں توبلا جھجھک اپنی غلطی تسلیم کرتے تھے۔ نواب بگٹی ایک عالم اور فاضل شخص تھے۔ انتہائی پڑھے لکھے تھے درجنوں امور پر وہ اتھارٹی تھے۔ سیاست میں وہ Perfectionistتھے سیاست پر ان کا مکمل کنٹرول تھا۔ بنگال کے واقعات نے ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ بنگال کے واقعات نے ان کی سوچ کو مکمل بدل ڈالا تھا نواب بگٹی کا خیال تھا کہ پاکستان کے بچنے کے آثار نہیں ہیں۔ پنجاب، بنگال اور بنگال کے درمیانہ طبقہ کو اقتدار بھی نہ منتقل کرے گا۔
اور نہ ہی پاکستان کی فوج اور پاکستان کے وسائل پر بنگال کی حکمرانی تسلیم کرے گا اگر بنگال پاکستان کا حصہ نہیں رہتا اور بنگال چھوٹی قوموں اور چھوٹی وفاقی اکائیوں کی پشت پناہی نہیں کرسکتا تو پاکستان کو رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پھر قومی جنگ صرف بنگال کی حد تک محدود نہیں رہنی چاہئے، بلوچستان کو اس میں شامل ہوجانا چاہئے۔ یہ نکتہ اختلاف تھا۔ خصوصاً میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری ایک طرف اور دوسری جانب نواب اکبر بگٹی شہید۔ اس لئے ان کی راہیں صرف چند مہینوں کے لئے الگ ہوگئیں۔ ہم سیاسی کارکن نواب بگٹی کی رائے سے اختلاف رکھتے تھے۔
لہٰذا جب وہ گورنر بنے تو راقم بھی ان کے مخالفین میں شامل تھا۔ ان کے خلاف زور دار مضامین اور خبریں لکھیں جس پر نواب بگٹی صاحب سخت ناراض تھے۔ ہم نے اپنا بنیادی حق استعمال کرتے ہوئے عوامی رائے عامہ نواب بگٹی کے خلاف کردی تھی اور نواب بگٹی شہید سیاسی طور پر تنہا ہوکر رہ گئے تھے۔ اس لئے ان کو احساس ہوا کہ وہ غلطی پر ہیں اور انہوں نے گورنرکے عہدے سے خود استعفیٰ دے دیا۔ اسی دوران نواب مری نے قومی اسمبلی کی نشست جو سبی، مری بگٹی، نصیرآباد، کوئٹہ اور چاغی ضلع پر مشتمل تھا سے استعفیٰ دے دیا اور صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھی۔
قومی اسمبلی کی نشست پر نوابزادہ سلیم اکبر بگٹی امیدوار تھے۔ دوستوں نے غنیمت جانا اور یہ فیصلہ کیا کہ سلیم بگٹی مرحوم کی حمایت کی جائے لہٰذا راقم نے میڈیا کو سنبھالنے کی ذمہ داری قبول کرلی جبکہ انتخابات میں تمام تر ذمہ داری میر احمد نواز بگٹی نے سنبھال لی جبکہ نواب بگٹی الیکشن کے کنٹرول روم کو خود سنبھال رہے تھے۔ سلیم اکبر کے مقابلے میں میر تاج محمد جمالی امیدوار تھے۔ اس سے قبل وہ نواب مری کے ہاتھوں عبرتناک شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ اس بار حکومت اورانتظامیہ نے دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور میر تاج محمد جمالی کو جتوادیا۔ اس الیکشن کے عمل کے بعد نواب بگٹی دوبارہ اپنے دوستوں کے قریب آگئے۔
اس طرح الیکشن نے ایک اہم سیاسی کردار ادا کیا۔ ابتداء سے ہی حکومت انتظامیہ اور سرکاری اہلکاروں کی کوششیں رہیں کہ بلوچ رہنماؤں میں اختلافات پیدا کئے جائیں۔ آئے دن افواہیں پھیلائی جاتی تھیں۔ جھوٹی خبریں ایک دوسرے کو پہنچائی جاتی تھیں تاکہ ان میں اختلاف پیدا ہو حکومت کے پسندیدہ ٹارگٹ نواب بگٹی تھے۔ ان کے خلاف نفرت پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ محکمہ تعلقات عامہ بلوچستان تھا۔ ون یونٹ کے ٹوٹنے سے چند ہفتے بعد محکمہ نے ایک پریس کانفرنس ا نتظام کیا جس میں یہ کہانی گھڑی گئی کہ نواب بگٹی کی ذاتی جیل ہے اور اس میں عام لوگ قید ہیں۔
ان کی ذاتی جیل کی کہانی 17مارچ 2006کے واقعہ تک چلی اور آخر کار ان کی شہادت پرختم ہوگئی۔ ان کے خلاف دوسرا زہریلا پروپیگنڈا یہ تھا کہ ان کو کروڑوں روپے حکومت دیتی تھی تاکہ بگٹی علاقے میں امن و امان بحال رہے۔ یہ زہریلا پروپیگنڈا دانشوروں، اخبار نویسوں اور میڈیا منیجر حضرات کے ذریعے ایک منظم انداز میں پھیلایا جاتا رہا۔ فلاں تاریخ میں اتنے کروڑ ملے اور فلاں شخص اتنے کروڑ کا بریف کیس نواب بگٹی کو فلاں دن حوالے کیاتاہم نواب بگٹی کو گیس کی آمدنی کی مد سے ایک روپیہ بھی کبھی نہیں ملا۔
ان کی زمین ان کی جائیداد اور ان کی پراپرٹی کا کرایہ ان کو ملتا تھا جو کمپنی ادا کرتی تھی البتہ نواب بگٹی نے مقامی بلوچ قبائل کا یہ حق تسلیم کروادیا تھا کہ روزگار کا پہلا حق مقامی قبائل کا ہے۔ اس لئے بگٹی قبائل کو کم تر درجے کی ملازمتیں دی گئیں۔ نصف صدی کے بعد بھی حکومت اور انتظامیہ نے اعلیٰ ترین عہدوں پر کسی بھی بگٹی کو فائز نہیں کیا۔ پی پی ایل پر بلوچ قبائل سے زیادہ مہاجروں کا قبضہ ہے۔ سارے مراعات، وسائل اور اختیارات پر بلوچ نہیں بلکہ مہاجر قابض ہیں۔ بلوچوں کے ساتھ متعصبانہ سلوک جاری رکھا جارہا ہے ان کو کم تر درجہ کی ملازمتیں دی گئیں اور یہ تاثر دیا گیا کہ سوئی گیس کے مالک بلوچ نہیں ہیں۔
اور نہ ہی ان کا کوئی حق بنتا ہے۔ نواب بگٹی آخر تک ان کے حقوق کے لئے لڑتے رہے انہوں نے کبھی بھی گیس کی تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ گزشتہ نصف صدی تک ان کی اپنی جان کی طرح حفاظت کی کیونکہ وہ سوئی گیس اور ان کی تنصیبات کو بلوچوں کا اثاثہ سمجھتے تھے۔ بلکہ اس کے برعکس گیس کی تمام تنصیبات پرحملے سرکاری اہلکاروں اور ان کے ایجنٹوں نے کئے تاکہ بلوچستان میں فوجی کارروائی کا جواز پیدا کیا جائے۔
(معروف بزرگ صحافی مرحوم صدیق بلوچ نے یہ تحریر شہید نواب اکبر خان بگٹی کی برسی پر اپنی زندگی میں تحریر کیا تھا)