|

وقتِ اشاعت :   August 27 – 2020

بطور سیاسی کارکن کے میرے میر حاصل خان بزنجو صاحب سے زندگی کے بہت ہی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ وہ مجھ سمیت بے شمار سیاسی کارکنوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، اور مجھے فخر ہے کہ میں اس کے عہد میں اْسکے کاروان کا ساتھی رہا ہوں۔ وہ ایک جرات مند مدبر سیاسی لیڈر تھے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو ہم میر صاحب کو آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے ایک بہادر جمہوری لیڈر کے طورپر جانتے ہیں وہ بدترین آمریت کے دور میں بحالی جمہوریت کے لیے قید وبند کی صْعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جب مشرف دور میں وہ جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوکر آمریت کو للکارتے تھے۔

تو انہیں اس پاداش میں جیل میں ڈالا گیا مگر انکے حوصلے کبھی بھی پست نہیں ہوئے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی پارلیمان کی بالادستی کی خاطر جمہوری قوتوں کو منظم و متحرک کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ میر صاحب کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ اگر فیڈریشن کی مضبوطی چاہتے ہو تو قوموں کو برابری کی بنیاد پر انکے حقوق دیئے جائیں، انہیں قریب لانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگا۔ میر صاحب عمر بھر اپنے اصولوں پہ زندگی گزارتے رہے اور وہ اپنی انٹی اسٹیبلشمنٹ موقف کی وجہ سے، اسٹیبلشمنٹ کا ناپسندیدہ تھے۔

وہ ہمیشہ کھل کر اسٹیبلشمنٹ کی اْن پالیسیوں کی مخالفت کیا کرتے تھے جن کو وہ جمہوریت اور اس فیڈریشن کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ میر صاحب کو نا مال کمانے کا شوق تھا اور نا شہرت کا، وہ کبھی بھی لالچ و مراعات کے چکر میں نہ آئے، اگر وہ چاہتے تو ایک لگژری لائف گزارتے مگر وہ ایک درویش قسم کا انسان تھا۔ سینیٹ الیکشن اور بعد میں جب 2019 میں چئیرمین سینیٹ کے لیے عدم اعتماد لایا گیا تھا تو میر صاحب کو متحدہ اپوزیشن کا پسندیدہ اور مشترکہ امیدوار نامزد کیا گیا مگر چونکہ انکی جماعت کا جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے حوالے سے ایک اصولی بیانیہ تھا تو چند قوتوں کو برداشت نہیں ہوپا رہا تھا انہیں (ہارس ٹریڈنگ) کروا کر ہرایا گیا۔ بلکہ ابھی حال ہی میں میر صاحب کے خاندان اور انکی پارٹی سے تعزیت کرتے ہوئے مسلم لیگ کے سینئر رہنما سینیٹر پرویز رشید نے خود اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ”ہم نے میر صاحب کو ووٹ نہ دے کربہت بڑی غلطی کی “

جب 2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں شہید غلام محمد اور ساتھیوں کے مسخ شدہ لاش ملے تو اْس وقت کے پیپلز پارٹی وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سینیٹ میں انکے خلاف بات کی تو اْس وقت، میر صاحب اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے احتجاج کی، تو آج یہی “رحمان ملک میر صاحب کے انتقال کے بعد اسی اسمبلی میں تعزیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، میر حاصل بزنجو بلوچستان کے عوام کے لیے ایک آواز تھے۔”

میر صاحب ایک دوراندیش اور مستقل مزاج سیاسی لیڈر تھے وہ اپنی جماعت اور کارکنوں کوقطعی ایسی پالیسی نہیں دیتے جو ناقابل عمل اور محض نعرہ بازی ہوں۔میر صاحب آپ نے ہمیں جو درس دیا ہم عمر بھر آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مظلوم بلوچستان کے مظلوم عوام کے لیے جدوجہد کے میدان میں آپکی جماعت کا علم بلند کریں گے، ہم آپ کے احسان مند ہیں آپ نے ہمیں ایک پہچان دیا۔

جب میر صاحب کے جنازے کے لیے انکے آبائی گاؤں نال میں ہم گئے اوروہاں قیام کے دوران جس کو ملا وہ انتہائی رنجیدہ اور افسردہ تھا۔ میر صاحب کے وفات کے اگلے روز جب میں نال بازار میں ایک کام سے کسی دوست کیساتھ گیا تو پورا شہر سنسان تھا تو میرا دوست مجھے بتا رہے تھے کہ جس دن میر حب کا انتقال ہواہے تو یہاں کی اقلیتی برادری انتہائی غمزدہ ہے اور یہاں جتنے بھی بڑے بڑے کاروبار ہیں یہ اقلیتی برادری کے ہیں اور یہ تین دن کے لیے میر صاحب کے لیے سوگ منا رہے ہیں۔ یہ میر صاحب کی عوام دوستی کی ایک صرف ایک مثال ہے۔