واقعہ کربلا حق اور باطل کے درمیان معرکہ تھا، یزید نے جب اپنی خلافت کا اعلان کیا تو کوفہ و دیگر علاقوں کے مسلمانوں نے امام عالی مقام حضرت امام حسین کو پیغام بھیجا کہ ہم یزید کی خلافت کے بجائے آپ کو خلیفہ اور امیر المومنین تسلیم کریں گے، آپ کوفہ آجائیں ہم آپ کی امارت اور خلیفہ ہونے کا آپ کی ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اللہ کی طرف سے شہدا ء کربلا کی قربانیں ازل سے طے تھیں اوراس طرح کی مثالی قربانی سے ہی اسلام میں حق وباطل کو عیاں کرنا مقصود تھا اورساتھ ہی اہل کوفہ کی داستاں غداری کوعیاں کرنا کہ ایسے غداروں کوتاقیامت لعنت وملامت کیا جائے گا۔
تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ یہ وہ قوم تھی جو ظالم کے سامنے اس کی تعریف اور مظلوم کے سامنے اس کی حمایت کرنے کے وعدے وعید کرتے تھے۔ امام حسین نے یزیدیت کے خلاف کربلا کا رخ کیا اور حق و باطل کے درمیان معرکہ شروع ہوا تو اہل کوفہ نے کہا کہ ہماری تلواریں ظالم یزید کے ساتھ ہیں اور ہمارے دل امام حسین عالی مقام کے ساتھ ہیں لیکن اس کے باوجود اہل رسول کے جگر گوشوں نے یذیریت کو للکارا اور حق کیلئے اپنی جانوں کا عظیم نذرانہ پیش کرکے رہتی دنیا تک ایک ایسی قربانی و ایثار کی مثال قائم کی کہ حق کیلئے جانیں تو قربان کی جا سکتی ہیں لیکن ظالم کے ظلم کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
غداری اور ملک و قوم دشمنی قبل از اسلام سے جاری ہے اور اس طرح کی سازشیں حضرت محمد صلی اللہ و آلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے خلاف بھی ہوئیں تھیں۔ آج یزیدیت کیخلاف امام حسین و اہل بیت کی قربانیوں کو امت مسلمہ اپنے لئے مشعل راہ سمجھتی ہے ہمارے پیارے ملک کے لوگ بھی اہل کوفہ کا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں جبکہ ہمارے سیاستدان بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ سمیت دیگر طاقتور طبقات مکمل طور یزیدیت کی راہ پر چل رہے ہیں۔آپ پاکستان کے پارلیمانی نظام عدالتی نظام اور بیوروکریسی کے نظام کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو آپ کو حقیقی یزید سے زیادہ موجودہ یزید خطرناک لگیں گے آپ ان کے کردار سے واقفیت حاصل کریں۔
تو ان موجودہ یزیدوں کے مقابلے میں آپ کو شاید وہ یزید کم ظالم محسوس ہونے لگے۔ اْس یزید نے اہل رسول کے خلاف بغاوت کرکے اپنی آخرت غارت کی اور اپنے محبوب پیغمبر کے پیارے نواسے و اہل بیت و عظام کو شہید کرکے زبردستی حکمران بن گئے بالکل اسی طرح آج بھی پاکستانی قوم پر ایسے ظلم کرپٹ اور چوروں کو حاکم اعلیٰ بنا کر مسلط کیا گیا ہے جس کے باعث پاکستان بدحالی عدم ترقی پسماندگی اور غربت کا شکار ہے جہاں حکمران ستر سالوں سے لیکر اب تک ملک میں نہ تو عدالتی نظام بہتر کر سکے ہیں اور نہ ہی پولیس و بیوروکریسی کے نظام میں تبدیلی لاسکے ہیں اور نہ ہی احتساب کا کوئی بہترین نظام رائج ہے۔
آج پیارے ملک پاکستان میں چور کرپٹ اور راشی لوگوں کو عزت و احترام مل رہا ہے جبکہ ایماندار کو گستاخ پاگل ناسمجھ اور حالات کے مطابق کمپرومائز نہ کرنے والے گردانتے ہیں۔جس ملک میں یدیذیت کا عالم یہ ہو کہ مظلوم کو انصاف تین نسلوں تک نہ ملے بلکہ ظالم کے سامنے عدالت اور قانون اس کی دلالی کریں بلاشبہ یزید ظالم تھا لیکن موجودہ یزید بھی ان سے کئی گنا زیادہ ظالم ہیں۔عوام کے حقوق غصب کرکے والے، قانون کو مکڑی کا جالا سمجھنے والے اور ملکی دولت کو شیر مادر کی طرح ہڑپ کرنے والے سیاست دانوں اور کرپٹ بیورو کریسی کو آخر کون لگام دے گا؟
پاکستان کے بائیس کروڑ عوام تو کوفیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں اگر اس طرح کہا جائے کہ اہل پاکستان تو کوفیوں سے دو قدم بھی آگے ہیں بے جا نہ ہو گا۔ پاکستانی واحد قوم ہیں جو ظالم کرپٹ طاقتور کے سامنے اس کی مدح سرائی کا ریکارڈ تجربہ رکھتے ہیں۔تعریف وتوصیف میں اس طرح کی مہارت رکھتے ہیں کہ ظالم خود ان کی باتوں سے اپنے آپ کو ایماندار وفرشتہ سمجھنے لگتا ہے۔ پاکستان کی عدم ترقی پسماندگی اور بدحالی کا ذمہ دار پاکستانی قوم ہے واقعہ کربلا کو ہر سال یاد کرنے اور امام حسین کی شہادت اورایثار و قربانی کو اپنا ایمان قرار دینے والی قوم پاکستان کے ان ظالموں اور یزیدوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی جسارت تک نہیں رکھتے۔
پنجاب سندھ خیبر پختون خواہ میں کہیں نہ کہیں کچھ ترقی کے آثار ملتے ہیں لیکن آپ بلوچستان میں آنکھوں دیکھا حال اور ان طاقتورسیاسی نمائندوں بیورو کریسی آفیسر شاہی اور کلرکس کی جاری یزیدیت کو دیکھیں تو آپ حیران ہو جائیں گے۔ہر اراکین صوبائی اسمبلی کو سالانہ پچاس کروڑ سے زائد ترقیاتی فنڈز ملنے کے باوجود بلوچستان کربلا کا منظر پیش کررہا ہے وہاں دریائے فرات اور دریائے دجلہ کے کنارے پر ہونے کے باوجود پیاسے تھے یہاں بھی پٹ فیڈر کینال،کھیر تھر کینال, کچھی کینال،دریائے بولان، دریائے مولاو دیگر بہتے چشموں کے باوجود بلوچستان کے اب بھی کئی علاقے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔
جہاں زرعی پانی طاقتور زمینداروں کو غیر قانونی طور پر بھی وافر مقدار میں دستیاب ہے جبکہ غریب اور بے کس کاشتکاروں کو ان کے قانونی طور پر پانی کا حصہ تک نہیں ملتا۔ صوبے میں صحت عامہ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ہسپتالوں میں علاج کے بجائے موت کا رقص جاری ہے غریب عوام اب تک تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور نہ ہی صحت عامہ کی بہترین سہولیات کی فراہمی کیلئے حکومتی سطح پر سنجیدہ اقدامات کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ دراصل بلوچستان کے طاقتور سیاسی و بیورو کریسی کے یزید صوبے کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں جہاں ترقی آپ کو کاغذوں میں بہت ملے گی لیکن گراؤنڈ پر ان ترقیاتی منصوبوں کا نام و نشان تک نہ ہوگا۔
اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ان منصوبوں کا معائنہ اور مانیٹرنگ بھی کاغذوں میں ہوتی ہے۔ وزیر اعلیٰ انسپیکشن ٹیم، سیکرٹریز،ڈائریکٹرز وغیرہ ماشاء اللہ تواتر سے ان گھوسٹ منصوبوں کا معائنہ کرتے رہتے ہیں اور سلام ہے کرپشن کے خلاف جنگی بنیادوں پر جہاد کرنے والا ادارہ قومی احتساب بیورو کو جس نے آج تک نہ تو کوئی بدعنوانی پکڑا ہے اور نہ ہی کسی گھوسٹ منصوبے کا سراغ لگایا ہے اسی وجہ سے بلوچستان ستر سالوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نہ تو ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور نہ ہی عوام کی حقیقی معنوں میں تقدیر بدل رہی ہے۔
تاہم ترقی کے فوائد آپ کو سیاستدانوں بیورو کریسی کلرکس میں ہی نظر آئیگا،ان کے بینک بیلنس اور اثاثوں میں اضافہ ہوتا رہے گا وہ دن دگنی ترقی کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ لیکن اہل بلوچستان اہل کوفہ کی طرح صرف چائے کی پیالی یا چاول کے ایک پلیٹ پر مدح سرائی کرکے ان یزیدوں کو مزید ظلم کرنے کا حوصلہ فراہم کرتے رہیں گے۔ بلوچستانی عوام کی خاموشی کی بدولت ہی صوبے پر اس طرح کے یزید نما ظالم مسلط ہیں اور ان کی یزیدیت کی بدولت صوبہ مزید پسماندگی اور بدحالی کا شکار ہوتا رہے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوں اور ان سیاسی اور بیورو کریسی جیسے یزیدوں کا قلع قمع کریں۔
اور ساتھ ہی پاک فوج بلوچستان پر خصوصی توجہ دے ان اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز جو صوبے میں خرچ ہو رہے ہیں کی سخت مانیٹرنگ کریں تاکہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے زمین پر نظرآئیں اور ساتھ ہی ان کرپٹ نمائندوں اور اہلکاروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی اس طرح قومی خزانے پر ڈاکے نہ ڈالے۔اور ساتھ ایک چھوٹی سی گزارش کہ مرے ہوئے یزید کو گالی دینے کے بجائے موجودہ اور زندہ یزیدوں کے خلاف کھڑے ہوجائیں یہی اصل پیغام کربلا ہے۔