صو با ئی دا ر الحکومت کو ئٹہ میں نا معلو م مو ٹر سا ئیکل سوا ر و ں نے پو لیو مہم پر جا نے والی ٹیم کی گا ڑ ی پر فا ئرنگ کر کے 3خوا تین سمیت 4افرا د کو قتل اور 3خوا تین کو ز خمی کر کے فرا ر ہو گئے۔صو با ئی دا رالحکومت کو ئٹہ سمیت بلو چستان کے 8اضلا ع میں پو لیو مہم کے تیسر ے ر و ز کو ئٹہ کے نوا حی علا قے بکر ا منڈ ی اور گر د و نو اح میں پو لیو کے قطر ے پلا نے کے لئے 9خوا تین اور1مر د پر مشتمل ٹیم گا ڑ ی میں جا ر ہی تھی کہ سر یا ب کے علا قے گنج بکر ا منڈ ی مینگل آ با د کے قریب دونا معلو م مو ٹرسائیکل سوا ر و ں نے گا ڑ ی کو رو کنے کی کوشش کی پھرپولیوٹیم کی گاڑی پرفا ئر نگ کر دی جس کے نتیجے میں 3خوا تین سمیت 4 افرادہلا ک، 3 خواتین ز خمی ہو گئیں،حسب معمول واقعہ کے بعد پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیکر ملزمان کی تلاش شروع کر دی جبکہ متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیاہے۔ صو با ئی سیکر ٹر ی داخلہ اکبرحسین درا نی کاکہنا ہے کہ پولیوورکرز پرحملے کے واقعہ کاہرپہلوسے جائزہ لیاجائے گا اوراس میں اگرکہیں بھی ناقص سیکورٹی کے شواہد ملے تواس کیخلاف سخت اقدامات اٹھائے جائینگے۔ واقعہ کے بعد مذکورہ حلقے میں پولیومہم معطل کردی گئی ہے تاہم صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت جہاں کہیں بھی پولیومہم جاری ہے وہ اپنے مقررہ شیڈول کے تحت جاری رہے گی ۔ پولیو ٹیم پر یہ پہلا حملہ نہیں اس سے قبل بھی پولیو مہم کے دوران انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ،اس بات سے قطعاََ انکار نہیں کیاجاسکتا کہ حالیہ واقعے کے بعد پولیومہم شدید متاثر ہوسکتی ہے اور پولیوٹیم اس ماحول میں ذہنی کوفت میں مبتلا ہوگی۔ سیکیورٹی حکام اس سے قبل بارہایہ کہہ چکے ہیں پولیومہم کے دوران سیکیورٹی کے فل پروف انتظامات کیے جاتے ہیں مگر حملوں کے واقعات ان دعووں کی نفی کرتے ہیں جومسلسل جاری ہیں۔ اب بھی کوئٹہ کے مختلف علاقوں سمیت اندرون بلوچستان ایسے علاقے ہیں جہاں پولیو ٹیمیں جانے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ ان علاقوں میں نہ صرف پولیومہم کے خلاف کمپیئن چلائی جاتی ہے بلکہ پولیوٹیم پر حملے بھی کیے جاتے ہیں جس سے پولیو ورکرز کی جانیں جاتی ہیں، مگر اب تک اس کے تدارک کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہیں اٹھائے جارہے، بلوچستان میں پولیو سمیت دیگر مہلک بیماریوں کے وائرس سامنے آرہے ہیں جو آگے چل کر گمبھیر صورت بھی اختیار کرسکتی ہیں۔ اگر موجودہ صوبائی حکومت صوبیمیں مہلک بیماریوں کی روک تھام کو سنجیدگی سے لے رہی ہے تو اسی طرح سیکیورٹی معاملات کا بھی سختی سے نوٹس لیتے ہوئے سخت سے سخت اقدامات اٹھائے تاکہ جو عناصر ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کی سرکوبی کیلئے کسی بھی ایکشن سے گریز نہ کیا جائے جو ان کی اولین ذمہ داری میں شامل ہے تاکہ صوبے میں خطرناک بیماریوں کے پھیلنے کے جو خدشات موجود ہیں اس کا تدارک کیا جاسکے۔اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت اس اہم پہلو پر بھی غور کرے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز جو پولیومہم میں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اس فرض کو انجام دیتے ہیں انہیں کئی ماہ تک وظیفہ بھی نہیں دیاجاتامگر اس کے باوجودوہ پولیومہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وظیفہ سے زیادہ ان کی جان بے شک اہمیت رکھتی ہیں مگر ان کی اس پریشانی پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے مالی مشکلات حل ہوجائیں اور وہ بہتر طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔
پولیومہم کی ناقص سیکورٹی کا ذمہ دار کون؟
وقتِ اشاعت : November 28 – 2014