واشنگٹن: پاکستان اور افغناستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ڈین فیلڈمین نے کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف پاکستانی مفادات کے بہترین ترجمان ہیں۔
امریکی سفیر فیلڈمین نے کہا کہ افغانستان میں 2014 کے بعد قیام کرنے والے امریکی دستے صرف اسی وقت طالبان سے لڑیں گے جب ان کے لیے براہ راست خطرہ بنیں گے، القاعدہ کی مدد کریں یا افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے لیے اسٹریٹیجک خطرہ بنیں۔
انہوں نے سفیر رابن رافیل کے خلاف ایف بی آئی کی کارروائی پر اس تاثر کو بھی کیا کہ امریکا یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ پاکستان امریکا کے لیے زیادہ عرصے تک دوست نہیں رہے گا۔
فیلڈمین نے پاکستانی آرمی چیف کے دورہ امریکا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف پاکستانی مفادات کے بہترین ترجمان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کے خلاف مہم پر انہیں واشنگٹن میں وسیع پیمانے پر حمایت ملی۔
اپنے دورے کے دوران آرمی چیف نے دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدتی شراکت کی ازسرنو تعمیر کے لیے سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت بڑے پیمانے پر امریکی حکام سے ملاقات کی۔
فیلڈمین نے راحیل شریف کے دورے کے دوران حاصل ہونے والے مقاصد کا جواب دیتے ہوئے ہماری حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کی ضرورت کے حوالے سے انتہائی دوٹوک اور تعمیری گفتگو ہوئی تاکہ دہشت گردوں کے تمام محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن پر ان کا کہنا تھا کہ ہم مانتے ہیں کہ انتہائی اہم پیشرفت ہو چکی ہے۔
تاہم انہوں نے ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ بھی ماننا چاہیے کہ اس سلسلے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور جنرل شریف ایسا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ راحیل شریف کے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے عزم سے امریکی بہت خوش ہیں۔
امریکی سفیر نے باور کرایا کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان طویل المدتی شراکت کیازسرنو تعمیر کی کوششیں کئی سال پہلے ہی شروع کردی گئی تھیں اور مزید کہا کہ اس دورے سے وہ عمل جاری رہا جس سے تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔
‘یہ انتہائی اہم دوروں میں سے ایک تھا’۔
امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے افغانستان میں موجود امریکی افواج کو طالبان سے مقابلے کی اجازت دینے کے حوالے سے فیلڈمین نے کہا کہ یہ افغانستانستان کی نئی حکومت سے ستمبر میں سائن کیے گئے دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں امریکی افواج ضرورت پڑنے پر طالبان کے خلاف کارروائی کریں گی لیکن ان کا اصل مقصد افغان نیشنل سیکیورٹی کو ٹریننگ فراہم کرنا ہے۔
اس موقع پر سفیر نے امید ظاہر کی کہ افغانستان میں نئی حکومت پاکستان سے دوستانہ مراسم رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف بہتر انداز میں جگ لڑ سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری میری نظر میں ایک قانونی کوشش ہے اور اس سے سے دونوں پڑوسی ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔