|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2020

میر حاصل خان بزنجو میرے بھائیوں کی طرح تھے، ان سے فیملی رشتہ کے بغیر انہوں نے زندگی جینے کا ڈھنگ سکھایا وہ مجھے ہرموڑ پر سمجھاتے، سیاست سکھاتے کہ عوام کے ساتھ اپنا تعلق کیسے بناناہے اپنا رویہ کیسے رکھنا ہے،ان کی سیاسی رہنمائی کی وجہ سے مختصر وقت میں مجھے بہت بڑی عزت ملی، میں ضلع کونسل کیچ کا چیئرمین بنا، وہ ہروقت تاکید کرتے کہ آپ اپنی پارٹی اور وہاں کے عوام کا خیال رکھیں، ان کے مسائل کوحلکریں جتنے بھی دستیاب وسائل ہوں ان سے ان کی مددکریں کیونکہ یہ موقع ہروقت نہیں ملتا۔

میرصاحب کے ساتھ میں نے اندرون ملک اوربیرون ملک بہت سے سفرکئے، انسان سفرمیں جانا پہچانا جاتاہے، میر صاحب کے ساتھ سفرکا اور مزا ہوتا، مجھے سیکھنے کوبہت کچھ ملتا، میر صاحب جہاں بھی جاتے ان کے اپنے تعلقات کی وجہ سے بہت عزت ملتی۔میر صاحب ایک بہادر، نڈر انسان تھے، بلوچستان کے حالات خراب تھے جب ہم سفرپر بذریعہ گاڑی نکلتے، کبھی نہیں کہتے کہ کوئی بندوق یاگارڈ ساتھ لیں، سب دوست مجھے ڈانٹتے کہ میر صاحب اگرمنع کریں لیکن آپ خود احساس کریں۔ 2013ء کے الیکشن مہم کے دوران ہم ایسے علاقوں میں بھی گئے جونوگوایریا تھے۔

میر صاحب کی بہادری کومیں سلام پیش کرتا ہوں وہ سیاسی میدان میں بہادر تھے انہوں نے کبھی کسی چیز کو اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ جب بیماری کاپتہ چلا توخودکہتاتھا کہ موت برحق ہے اس سے کیوں ڈروں؟ ہم منع کرتے کہ میر صاحب اب سگریٹ نہیں پینا وہ کہتے ابھی وقت گزر گیا مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہو منع نہیں کرو، میں اس بیماری سے مقابلہ کروں گا۔ہم نے بحیثیت بلوچ قوم ان کے وزن اور قد کو نہیں پہچانا وہ کون ہیں؟ نوازشریف، بلاول بھٹو زرداری، فضل الرحمن کے بعد قومی سطح کا جولیڈر تھا وہ میر حاصل خان بزنجو تھے۔

وہ تینوں مصلحت پسندی کاشکارہوتے، سودے بازی کرتے مگر میر حاصل خان نے ہروقت اسٹیبلشمنٹ کوآڑے ہاتھوں لیا، وہ جمہوریت کومضبوط دیکھنا چاہتے تھے، مظلوموں کے ساتھ اداروں کے ناروا سلوک اورظالموں کے خلاف وہ ایک موثر آواز تھے، پاکستان میں مظلوم اقوام خاص کر بلوچ کی ہرجگہ نمائندگی کی۔ ہرفورم پر جو بات رکھتے سیدھا اور صاف رکھتے، توہم کبھی کبھی میر صاحب کوکہتے کہ میرصاحب آپ اس بات کو دوسرے طریقے سے بھی بیان کرسکتے تھے۔ میر صاحب کہتے کہ مجھ سے یہ امیدنہ رکھیں کہ کسی سے ڈرکر اپنا موقف پیش کروں گا۔

میرا میر صاحب کا ایسا رشتہ تھا میں ان سے لڑتا تھا ناراض ہوتا وہ مجھے خود مناتے، میرے ہربات کوبرداشت کرتے۔پھر مجھے سمجھاتے کہ جذباتی پن سے سیاست نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا یا کہیں اور کوئی میر صاحب پر تنقیدکرتا تو میں سخت جواب دیتا۔ میر صاحب مجھے منع کرتے کہ چھوڑیں یہ ان کی رائے ہے لیکن میں جوکام جو سیاست بلوچ کیلئے کررہاہوں میرا دل صاف ہے،میرا ضمیر مطمئن ہے۔ وہ بلوچ اورمظلوم اقوام کی آوازتھے افسوس بہت سے لوگوں نے میر کا قد نہیں جانا۔ آج ان کومعلوم ہے کہ ایک ہیرا ہم سے جداہوا۔ ابھی اورہیرا تراشنے کیلئے بہت وقت چاہیے۔

میر صاحب کو دولت کی لالچ نہ تھی جب وفاقی وزیرتھے لوگ آکرہمیں بولتے کہ یہ کام کرائیں ہم آپ لوگوں کوبہت کچھ دیں گے میر صاحب کہتاکہ اگر دولت کی خاطر یہ کام کروں تومیں اپنی قوم کوکیا جواب دوں گا، مجھے جو عزت ملی ہے میر غوث بخش بزنجو کی وجہ سے، ان کا نام نہیں بیچ سکتا، زندگی فقیرانہ گزارتے۔ کسی کے اوپر بوجھ نہیں بنے۔ ان میں ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ پارٹی دوستوں کو ہرپروگرام میں لے جاتے، لوگوں سے ملاتے، تعارف کراتے یہ بڑی خوبی تھی کہ دوستوں کے تعلقات ہوں۔ ان سے آخری ملاقات 9اگست2020کو کراچی میں ان کے گھر پرہوئی، وہ بڑے خوشگوار موڈمیں تھے، شاوس بزنجو اورمیرا بیٹا جنید بھی ساتھ تھے۔

بہت حال حوال ہوا وہ سردار حمید اللہ ایران والے کیلئے پریشان تھے کہ ان کی طبیعت خراب ہوئی تھی کرونا کی وجہ سے تہران ہسپتال میں بے ہوش تھے۔وہ بھی بڑے ہستی تھے ایرانی بلوچوں کیلئے سردار صاحب میر صاحب کے رشتہ داربھی تھے اور اسی رات کو وہ فوت ہوگئے۔پھرمیں ایران گیا،واپسی تک میر صاحب سے حال حوال نہیں ہوا، ڈاکٹریوسف بزنجو سے میر صاحب کا حال حوال معلوم کیا انہوں نے کہاکہ وہ خیریت سے ہیں، 20اگست کی شام کے خبرنے مجھے حیران کردیا کہ اتنی جلدی کیسے ہوا۔ یقین نہیں آرہا تھاکہ میر صاحب کا سفریہاں ختم ہوا۔ ان کی وفات کے بعد ہم نیشنل پارٹی کے تمام لیڈر شپ اور ورکروں کو میر صاحب کے کاروان کومنزل تک پہنچانا ہے تکلیفیں بہت آئیں گی لیکن منزل قریب ہے۔

مرکزی فنانس سیکرٹری نیشنل پارٹی