خضدار: بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے رکن حفیظ بلوچ،بی ایس او (پجار) کے مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن کریم بلوچ،بی این پی (عوامی) اسٹوڈنٹ ونگ کے صدر نویدمینگل،بی ایس او کے مقامی رہنماوں طارق عزیز بلوچ،حبیب بلوچ،چیف رحمت اللہ بلوچ،شکیل بلوچ،عصمت بلوچ،زکریا بلوچ،آصف بلوچ،فدا بلوچ،ارسلان بلوچ اور سیف جالب بلوچ نے کہا ہے کہ تعلیم ثقافتی,معاشی اور سماجی میدان میں ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے۔
اور تمام سنجیدہ اقوام تعلیمی ترقی کو مرکزیت کا درجہ دیتے ہیں کسی بھی ریاست میں برابر تعلیمی ترقی کیلئے ریاست کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر شہری کو یکساں حصول علم کے لیے مواقع بھی دے مگر بدقسمتی سے بلوچستان و سابقہ فاٹا کے علاقوں میں اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی خدا خدا کر کے پنجاب حکومت نے بلوچستان کے تعلیمی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہو?یکچھ عرصہ پہلے بلوچستان کے طلباء کیلئے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم و ہاسٹل کی سہولیات کا اعلان کیا۔
جس کے بعد کئی طلباء و طالبات نے حصول علم کے لیے پنجاب کے تعلیمی اداروں کا رخ کیاان خیالات کا اظہار انہوں نے خضدار پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر مختلف طلباء تنظیموں کے عہدیداران و کارکنان بڑی تعداد میں موجود تھے مختلف طلباء تنظیموں کے مرکزی عہدیداروں نے اپنے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اہل علم کو اس بات کا بہتر علم ہوگا کہ اس طرح کے تعلیمی اقدامات سے صوبوں کے مابین ایک خلا دیکھنے کوپایا جاتاتھا۔
وہ دور ہونے کیساتھ ساتھ بلوچستان کے نوجوانوں میں حصول علم کے جو پیاس دیکھنے کو ملتا تھا اس علم کی پیاس کوبجھانے کی خاطر پنجاب کے تعلیمی اداروں کے رخ اپنایا۔ایڈمشن کا عمل شروع ہوتے ہی تضادات سے بھرپور اخباری بیانات کی بھرمار نے طلباء کے اندر کنفیوژن پیدا کردی ظاہر ہے پسماندہ صوبہ جو قدرتی نعمتوں سے مالا مال ہے لیکن بدقسمتی سے تعلیمی سہولیات کے فقدان کی شکار ہیں۔
تو اس پسماندہ معاشرہ کے غریب بچے جو شاداں تھے کہ شاید انہیں بھی پڑھنے کا موقعہ ملے گا بہا?لدین و بہاولپور یونیورسٹیوں کی جانب سے اسکالرشپس کے خاتمے کا سن کر تلملائے ہوں گے,آشفتہ حالی نے ان کے روشن مستقبل کا خواب ہے چراغ لالٹین کی مانند تاریک دکھایا ہوگا۔وہ ضرور دکھی ہوں گے وہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ چشم شوق کے ابھرتے دن اتنے ہی جلد بے مہر شاموں میں تبدیل ہونے کیلئے ہی تھے۔
تو وہ حسین خواب دکھائے ہی کیوں گئے۔ جہاں تک اس فیصلے کا تعلق ہے اس میں بہا?لدین زکریا یونیورسٹی نے شروع دن سے اضطراب کی کیفیت برقرار رکھی کبھی وائس چانسلر کی جانب سے کہا گیا میرے اختیار میں نہیں کہ میں سیٹیں ختم کروں تو کبھی بلوچستان و فاٹا کے طلباء کو یونیورسٹی پر بوجھ قرار دیا گیا مگر فیصلے کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کرنے میں بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے ٹال مٹول سے کام لیا۔
محترم وائس چانسلر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اس کا اعتراف کیا کہ اس بار یونیورسٹی نے بلوچستان کے طلباء سے فیسیں وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس میں یہ موقف اختیار کیا کہ ادارے کو مالی مسائل کا سامنا ہے مگر سوال یہ ہے بلوچستان و فاٹا کے طلباء کو کیوں گھسیٹا جارہا ہے اسکالرشپس دینے کا فیصلہ گورنمنٹ نے کیا ہے تو اسکالرشپس پر پڑھنے والے طلباء پر بندشیں سراسر زیادتی و ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔