|

وقتِ اشاعت :   November 29 – 2014

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں مخلوط حکومت میں شامل مسلم لیگ نواز نے صوبائی حکومت سے علیحدگی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت صوبے میں امن وامان قائم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت کی تبدیلی کی حمایت کے فیصلے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک کا کہنا ہے کہ انہیں ایوان کا اعتماد حاصل ہے۔ مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کی جانب سے ریکوزیشن پر بلائے گئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں شروع ہوا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد مسلم لیگ ن کی نو منتخب اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی انیتہ عرفان نے اپنی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے جمعیت کے رہنماء ڈاکٹر خالد سومرو کے سکھر میں قتل کے خلاف قرارداد پیش کی گئی جس میں ترمیم کرتے ہوئے کوئٹہ میں پولیو رضا کاروں کے قتل اور مولانا فضل الرحمان پر حملے کی مذمت کے نکات بھی ڈالے گئے جس کے بعد قرارداد کو مشترکہ قرار دیتے ہوئے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر ،پارلیمانی لیڈر اورسینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں ،حکومتی ارکان کی جانب سے حالات میں اسی فیصد بہتری کی باتیں غلط ہیں، یہ بڑے دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ ہم حقائق کو چھپارہے ہیں ،وزیراعلیٰ بلوچستان اور ڈپٹی اسپیکر اپنے آبائی علاقوں میں نہیں جاسکتے ، حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ، صوبے میں امن وامان کی صورتحال ایسی رہی ہے تو بہت مشکل ہوگا کہ ہم مخلوط حکومت کے ساتھ چل سکیں ۔اپوزیشن لیڈر اور جمعیت علمائے سلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ بلوچستان میں اقلیت کے ہاتھوں میں اقتدار ہے ،وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ وزیراعظم کے دیئے ہوئے مینڈیٹ پر پورا نہیں اترے، وزیراعلیٰ نے اعتماد کھونے پر گھر جانے کی بات کی تھی لیکن اعتماد کھونے کے باوجود وزیراعلیٰ اسمبلی میں بیٹھے ہیں، حکومت کی اپنی صفوں سے بدامنی کی نشاندہی ہورہی ہے ۔ اپوزیشن جماعت انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی تو حمایت کریں گے۔صوبائی حکومت میں شامل جماعت ق لیگ کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر جعفر مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان کا پراسکیوشن سسٹم خراب ہے ، ہماری تجاویز کو حکومت اہمیت نہیں دیتی ، آج کے دور سے اچھا مشروف کا دور تھا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے اتحادی جماعت مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کے ارکان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اب بھی ایوان کا اعتماد حاصل ہے ، با وقار طریقے سے حکومت کرنا چاہتے ہیں، جس دن سمجھا کہ میں کمزور ہوگیا ہوں تو خود حکومت چھوڑ وں گا۔ امن وامان کی خرابی سے متعلق سب کی رائے کا احترام کرتے ہیں ۔ آئندہ اجلاس میں امن وامان کی بہتری سے متعلق حقائق اور مکمل اعداد و شمار ایوان کے سامنے پیش کروں گا۔اس سے قبل پہلی قرارداد اپوزیشن ارکان سردار عبدالرحمن کھیتران ، حاجی گل محمد دمڑ ، مولوی معاذ اللہ ، حاجی عبدالمالک کاکڑ، مفتی گلاب ، محترمہ رؤف، حسن بانو کی جانب سے قائد حزب اختلاف مولانا عبدالواسع نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہفتے کی صبح نماز فجر کے موقع پر ممتاز عالم دین اور جے یو آئی سندھ کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر خالد سومرو کو مسجد کے اندر شہید کیا گیا جبکہ اس سے قبل 23 اکتوبر کو کوئٹہ میں مفتی محمود کانفرنس کے اختتام پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملہ کیا گیا اس سے پہلے بھی ملک کے کئی معروف اور ممتاز علماء کو ٹارگٹ کیا گیا ہے یہ ایوان اس بزدلانہ اور انسانیت سوز واقعات کی مذمت کرتا ہے اور نیز ملک میں انتشار پھیلانے کی اس سازش میں ملوث ملزمان کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچانے کا بھی مطالبہ کرتا ہے ۔ قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا عبدالواسع نے کہا کہ اس وقت ملک میں ہر طرف دہشت گردی ہے بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے علماء سمیت سیاستدانوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے مولانا فضل الرحمن پر کوئٹہ میں خودکش حملہ کیا گیا اس وقت سیکورٹی کے انتظامات انتہائی ناقص تھے اور حملے کے بعد اب تک ملزمان کا بھی پتہ نہیں چلایا جاسکا ذمہ داری لینے والوں کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو ملک بہت بڑے سانحہ سے دوچار ہوسکتا ہے لہذا عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر خالد سومرو کا قتل ایک سانحہ ہے 6 سال تک وہ سینٹ میں میرے ساتھ رہے وہ ایک جمہوری اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان تھے ان پر حملہ ہم سب کے لئے تکلیف دہ ہے حکومتی ارکان اپوزیشن کے اس دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں سیاسی کارکنوں کی قتل سے جمہوریت اور ملک کو نقصان پہنچا ہے ۔ وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات قابل مذمت ہے انہوں نے تجویز پیش کی کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں حفاظتی ٹیکہ جات لگانے والے ایک مرد اور تین لیڈی ہیلتھ ورکروں کو جس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا وہ قابل مذمت ہے جنہوں نے یہ عمل کیا وہ انسانیت اور اس صوبے کے عوام کی دشمن ہیںیہ لوگ ہمارے صوبے کو اپاہج کرنے پر تلے ہوئے ہیں پولیو سے بچے معذور ہورہے ہیں جو ملک ، معاشرے اور خاندان کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں ہم سب نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ایسے معاملات کو کنٹرول کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ اس مذمتی قرارداد میں لیڈی ہیلتھ ورکر پر حملے سے متعلق مذمت بھی شامل کی جائے ۔ صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال نے مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملے اورڈاکٹر خالد سومرو کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر خالد سومرو ایک سیاسی کارکن کے علاوہ سینیٹ کے ممبر بھی رہے جس بے دردی سے شہید کیا گیا یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ان کی شہادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور یہ ایوان اس دکھ درد میں ان کی پارٹی اور خاندان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جس مشکل وقت میں ہم جہاں پناہ لیتے ہیں وہ بھی محفوظ نہیں رہے مقدس مقامات خون سے رنگے ہوئے ہیں پتہ نہیں ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں دہشت گرد کسی رحم کے قابل نہیں پورا ملک کو دہشت گردی کے ان واقعات کا نوٹس لینا چاہیے اور ان کی روک تھام کے لئے کردارا دا کرنا چاہیے اگر دہشت گردی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ملک اور معاشرے کا چلنا مشکل ہوجائے گا ۔ پولیو ٹیم پر حملے سے متعلق انہوں نے کہا کہ بے گناہ اور غریب بچیوں کو جس بہیمانہ انداز سے قتل کیا گیا وہ قابل مذمت ہے غریب بچیاں گھر گھر جاکر ہمار ے بچوں کو اپاہج سے بچانے کے لئے کام کررہی تھی جنہیں نشانہ بنایا گیا انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم دہشت گردوں کے ساتھ نہیں بلکہ امن کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ سردار اسلم بزنجو نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جس روز جے یو آئی کے سربراہ پر خود کش حملہ ہوا اس روز جے یو آئی کے کارکنوں کی قیادت اور ورکروں نے تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو کنٹرول میں رکھا اور شہر کو خون خرابے سے بچایا ۔ انہوں نے کہاکہ خالد سومرو پر حملہ گہری سازش ہے اسی طرح کوئٹہ میں بھی ایک ورکر پر حملہ المیہ سے کم نہیں ۔ انٹیلی جنس ادارے اور پولیس کو ہر لحاظ سے چوکس رہنا چاہیے کیونکہ دہشت گرد عوام کو دست وگریباں کرنا چاہتے ہیں ۔ شیخ جعفر خان مندوخیل نے خود کش اور قاتلانہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد کا کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی لیڈر کو مار کر عوام کو آپس میں دست وگریباں کرنا ہے ۔ خالد سومرو ایک عالم اور سیاسی رہنماء تھے ان کی شہادت سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے ملک میں کافی عرصے سے سیاسی قیادت اور علماء کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ان معاملات کی ہمیں سختی سے نوٹس لینا چاہیے ۔ پورا ملک دہشت گردوں کا گڑھ بن چکا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اسی طرح کوئٹہ میں پولیو ورکرز بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچانے کے لئے کام کررہی تھیں کہ دہشت گردوں نے انہیں بھی نہیں بخشا پتہ نہیں وہ غریب عورتوں اور لوگوں کو مار کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ کسی مذہب میں خواتین ، بچوں یا عام لوگوں کو مارنے کا حکم نہیں ، اسلام کے نام پر اس طرح کی کارروائیاں کرنے والے دراصل خود اسلام کو بدنام کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات کی دہشت گردی ہماری ماضی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس آج ہمارے گھروں تک پہنچ گئی ہے ۔ سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ جس دن مولانا فضل الرحمن پر حملہ ہوا اور وہ میرے گھر آئے تو ا س وقت ان کی حالت قابل دید تھی ، وزیر داخلہ ، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس سب سے پہلے مولانا صاحب کے پہنچے اور اپنی بلٹ پروف گاڑی پیش کی جس پر میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر خالد سومرو ایک بڑے عالم تھے جنہیں آج صبح شہید کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے اورملک میں امن وامان کی صورحال خراب ہے دہشت گردوں کے خلاف اقدامات نہیں کئے جارہے ہمارے صوبے میں حکومت بعض لوگوں کے لئے سخت جبکہ بعض لوگوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں ، دعوے کئے جارہے ہیں کہ صوبے میں امن وامان کی حالت بہتر ہوگئی ہے لیکن سرعام سیاسی رہنماؤں اور پولیو ورکرز کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ایک بیوہ نے غربت کی حالت میں اپنی 2 بیٹیوں کو قربان کیا ۔ انہوں نے کہاکہ ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی ایک بیٹی جو اپاہج تھیں انہوں نے بڑے محفل میں کہا تھا کہ جس گھر میں اپاہج بچہ ہو تو حالت ان کے والدین سے پوچھا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ ضیاء الحق جیسا بندہ بھی اپاہج بچی کے لئے پریشان تھا ۔ شاہدہ رؤف نے کہا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت علماء کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں کوئی شخص محفوظ نہیں مگر اب تو علماء بھی کسی کی شر سے محفوظ نہیں رہے افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈاکٹر خالد سومرو کو مسجد میں شہید کیا گیا ۔ ہم سب کو پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر دہشت گردی کو روکنے کے لئے سوچنا چاہیے ، پولیو ورکرز پر حملے سے متعلق شاہدہ رؤف نے کہاکہ واقعہ کے وقت پولیس اہلکار موقع پر موجود رہے لیکن انہوں نے کوئی مدد نہیں ، حکومت انکوائری کرے اگر ایسا ہوا ہے تو ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ۔ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر زمرک اچکزئی نے کہا ہے کہ ڈاکٹر خالد سومرو کی شہادت ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کراچی میں ہمارے پارٹی کارکن ضیاء الحسن کی شہادت کی بھی مذمت کرنی چاہیے بعض عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لئے حالات خراب کررہے ہیں ملک کو اندورنی وبیرونی چیلنجز کا سامناہے نادیدہ قوتیں ناپاک عزائم کے لئے دہشت گردی پر اتر آئے ہیں جس کو ہم نے ناکام بنانا ہے ۔ ثناء اللہ زہری کے گھر ، خانوزئی میں لیویز اہلکاروں پر حملے اور ہزار گنجی میں عام شہریوں کے قتل جیسے واقعات کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ دہشت گردی گزشتہ 30 سالوں سے ہورہی ہے جنرل ضیاء الحق ، کرنل امام ، اختر عبدالرحمن نے عرب ، چائنا اور جاپان کے ساتھ مل کر خطے میں دہشت گردی کو پروان چڑھایا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی یہ لہر سٹیٹ کی جانب سے مسلط کی گئی ہے 7 اکتوبر 1983 کو پہلا دہشت گردانہ حملہ محمود خان اچکزئی پر ہوا اور اس دوران اولس یار شہید ہوا پھر دوسرا ریموٹ کنٹرول حملہ ایف سی کے دو چیک پوسٹوں کے درمیان ہی محمود خان اچکزئی پر ہوا اس کے بعد اسفند یار خان ، شیر پاؤ ، مولانا فضل الرحمن اور ڈاکٹر خالد سومرو کو ٹارگٹ کیا گیا اسی طرح صوبے میں نواب مگسی ، اسلم رئیسانی ، ثناء اللہ زہری سمیت تمام لیڈر کسی نہ کسی شکل میں دہشت گردی کا شکار بنے ہیں ۔ یہ ریاستی دہشت گر دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل کو روکنے کے لئے سرجوڑ کر سوچنا ہوگا اور تمام پارٹیوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہوگا ۔ پشتونخوا میپ ہر قسم کی دہشت گردی چاہے وہ فرقہ وارانہ ، قوم پرستی، آزادی یا دوسرے ناموں سے ہو کی بھر پور مذمت کرتی ہے اگر افغانستان پر قبضہ نہیں ہوا تو ہمیں توبہ گار ہونا پڑے گا ۔ پولیو ورکر زپر حملہ غیر انسانی عمل ہے وہ نہ سیاسی تھے اور ان ہی ان کا کوئی نظریہ تھا بس صرف بچوں کو معذوری سے بچانے کے لئے کام کررہے تھے ۔ عاصم کرد گیلو نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملہ اور ڈاکٹر خالد سومرو کا قتل سیاست کے لئے لمحہ فکریہ ہے ، صوبے میں امن وامان کی صورتحال خراب ہے ہم سب کو سر جوڑ کر سوچنا ہوگا اس دوران قائمقام سپیکر عبدالقدوس بزنجو نے قرارداد کو ترمیم کے ساتھ ایوان میں پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ، دوسری قردار دادپشتونخوا میپ کے اقلیتی رکن ولیم جان برکت نے پیش کی اور کہا کہ امن وامان کی حالت ملک بھر میں اطمینان بخش نہیں لیکن جس بربریت اور درندگی کا مظاہرہ صوبہ پنجاب میں کوٹ رادھا کشن میں مسیحی میاں بیوی کے ساتھ کیا گیا اس میں نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی نظر آتی ہے بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کی مذہبی انتہاء پسندوں کے ذاتی مقاصد کے سامنے بے بسی اور بے حسی عیاں ہے ، معاشرے میں کمزور بے بس مذہبی اقلیت کو بے بنیاد جھوٹے الزامات لگا کر جو وحشیانہ کاروائیاں کی جاہری ہیں اس سے پاکستانیت کی سوچ کو بڑا دھچکا لگ رہا ہے لہذا یہ ایوان اس غیر انسانی ظالمانہ سانحہ کی نہ صرف بھر پور مذمت کرتا ہے بلکہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھاتے ہوئے مذکورہ واقعہ میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے ۔ اجلاس میں مسیحی جوڑے کی ظالمانہ قتل پر ایوان میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی قائد و سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اللہ زہری نے پوائنٹ آف آرڈر پر انیتہ عرفان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے وہ پارٹی اصولوں پر کاربند ہوتے ہوئے کام کرے گی جب تک لوگ اداروں میں رہ کر کام کریں گے اس وقت تک جمہوریت مضبوط ہوگی اور اگر غیر جمہوری راہ اپنائیں گے تو جمہوریت نہیں پنپ سکے گی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے اور میری پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے اس پر خاموش نہیں رہ سکتے ہم نے اقتدار کی قربانی اس لئے نہیں دی کہ ہمیں دیوار سے لگایا جائے ہمارے کارکنوں کو فنڈ زاور مراعات دے کر خریدا جارہا ہے یہ ہماری پارٹی میں سراسر مداخلت ہے اگر اس طرح کے طریقے اپنائے جاتے ہیں تو پھر حکومت کا چلنا مشکل ہوگا میں کمزور آدمی نہیں کہ پارٹی نہیں سنبھال سکتا میں نے پارٹی چلائی ہے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ساتھ ایک پارٹی میں سینئر نائب صدر بھی رہا ہوں ، پارٹی کے اندر اختلافات ہوتے رہتے ہیں وہ اختلافات پارٹی کے اندر ہی حل ہوجائیں گے کسی اور کو دوسروں کے پارٹی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے ۔ مذمتی قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملہ اور ڈاکٹر خالد سومرو کا قتل قابل مذمت ہے یہ معاملات تو قومی سطح کے ہے لیکن ہمارے صوبے میں حالت کہاں پہنچی ہے ڈیڑھ سال قبل میرے بچوں اورمجھ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں میرے 3 بچے شہید ہوئے آج تک ان کا کوئی مداواں نہیں ہوا اگر اس طرح معاملات دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑے جائیں گے تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مسائل کو سنجیدگی سے لینا چاہیے صوبے کے 80 فیصد معاملات درست نہیں اور کوئی شخص محفوظ نہیں ، لفاظی باتوں سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے ، مولانا فضل الرحمن کو اللہ کے بعد بلٹ پروف گاڑی نے بچایا ہے جس دن ہم نے حکومت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے حوالے کیا اس دن ہمارا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں امن وامان کے سوا کچھ نہیں چاہیے لیکن دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ امن وامان کے حوالے سے ہماری کارکردگی بیانات تک محدود ہے ۔ امن وامان کسی کی کنٹرول میں نہیں ، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ بولان میں معصوم بچوں اور خواتین کو قتل کیا گیا قاتل آج بھی بولان کے شاہراہ پر بیٹھے ہوئے ہیں جن سے پوچھنے والا کوئی نہیں میں اجلاس کے بعد وزیرداخلہ سے اس بات کی وضاحت چاہوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ میرے بچوں کے قاتل گرفتار نہیں کئے جارہے الٹا میرے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جو کام حکومت کو کرنا چاہیے وہ نہیں ہورہی دہشت گردوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹا جارہا ، انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہو مگر امن وامان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اگر امن وامان کی صورتحال ٹھیک نہیں کیا جائے گا ڈاکٹر عبدالمالک کے ساتھ ہمارے راستے الگ ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران کوئٹہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا جو سلسلہ شروع ہواہے وہ انتہائی افسوسناک ہے غریب لوگ مارے جارہے ہیں میرے بچوں کے قاتل ڈی پی او اور ڈی سی جھل مگسی کے ساتھ آئے روز چائے پی رہے ہیں عدالتوں سے اشتہاری ہونے کے باوجود کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ، مجھے انصاف نہیں ملے گا تو عام آدمی کو کس طرح انصاف ملے گا ۔ صوبے میں کوئی گڈ گورننس نہیں ہمیں اپنی بچوں کا مستقبل چاہیے صوبے کی حالات ٹھیک نہیں بہتری کے دعوے محض جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر عبدالمالک جو بھی نام دے لیکن میں کہتا ہوں کہ چند چوکرے آکر کبھی ڈی سی تو کبھی ڈی پی او کو تیس تیس اہلکاروں سمیت اغواء کر لے جاتے ہیں عبدالقدوس بزنجو کے حلقے میں کئی بار مالخانوں کو لوٹا گیا تمپ میں ڈی پی او 50 آدمیوں کے ساتھ چند چوکروں نے محصور رکھا ایف سی نے جا کر ان کی جان چھڑائی ۔ انہوں نے کہاکہ ا سطرح کوئٹہ میں سرعام پولیو ورکرز مارے گئے غریب لوگ ہمارے بچوں کو اپاہج سے بچانے کے لئے دردر جاتے ہیں لیکن دہشت گرد انہیں ٹارگٹ کرتے ہیں اس طرح صورتحال نہیں چلے گی امن وامان کو ہر حال میں درست بنانا ہوگا اور دہشت گردوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا ۔ اجلاس میں امن وامان کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے لیڈرمولاناعبدالواسع نے کہا کہ کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بلوچستان سے محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اکثریتی پارٹی کی بجائے قوم پرستوں کو موقع دیا کہ صوبہ میں امن وامان کی مجموعی صورتحال بہتر بنانے اور ناراض بلوچوں کو مظاہرہ میں آمادہ کرنے اور صوبے کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے موقع دیا لیکن اب صورتحال یہ رہی کہ حکومت میں شامل سب سے بڑی اتحادی جماعت حکومت سے ناراض ہے اور وہ بھی اپنے ناکامی کا اعتراف کرتی ہے ،انہوں نے کہا کہ حکومتی نمائندوں نے بھی عوام کے دکھ درداورمشکلات کومحسوس کیاہے یہی جمہوریت کاحسن ہے اگریہی بات حزب اختلاف کرے تواس پرانگلیاں اٹھائی جاتی ہے کہ وہ حکومت پر تنقید کررہے ہیں ہمیں خوشی ہے کہ حکومت کے اتحادیوں نے صوبے میں بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورتحال محسوس کرتے ہوئے ریکوزیشن پراجلاس بلایاہے تاکہ عوام کودرپیش مشکلات کے ازالے کیلئے ہم اس پر بات چیت کرسکیں حکومتی اکثریتی پارٹی کے نمائندوں نے عوام کے دکھ محسوس کرتے ہوئے اپنے اقتدارکرسی کی پرواہ کئے بغیران مسائل پر آواز اٹھانے کیلئے جوکام کیاہے وہ عوام کیلئے ہے اگرحکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے صوبے میں امن کے قیام کویقینی بناتے ہوئے ترقیاتی کاموں کوپوراکیاجاتاتوشائدحکومتی اراکین کواجلاس بلانے کیلئے ریکوزیشن جمع کرانے کی ضرورت نہ پڑتی اگرہم لوگ واویلا کرتے ہوئے پھرہم پرانگلیاں اٹھائی جاتی حکومت میں رہتے ہوئے ان مسائل کی نشاندہی کررہے ہیں کیونکہ وہ عوام کے دکھ درد کوجانتے ہے حکومت کتنے عرصے سے اسمبلی کااجلاس نہیں بلارہی تھی اگراپوزیشن حکومت پرتنقید کرتی ہے تووزیراعلیٰ کے ترجمان اوروزیراعلیٰ کی جانب سے ہمیں اپنے دوراقتدارکے طعنے دئیے جاتے ہیں ہمارادورختم ہوچکاہے اس وقت امن وامان کی صورتحال گھمبیرتھی ہم نے کبھی بھی دعویٰ نہیں کیااورنہ ہی ہمارے دورمیں کبھی حکومتی اراکین کو ریکوزیشن پراجلاس بلانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے انہوں نے کہاکہ ہماری کسی سے زاتی دشمنی نہیں لیکن ہم جمہوریت پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے اقتدارمیںآنے سے قبل حکمرانوں نے کرپشن کے خاتمے امن وامان کی بہتری سمیت ترقیاتی کاموں کاجال بچانے کے ساتھ ساتھ تعلیم صحت کے شعبوں کی زبوں حالی کوبہتربنانے کے دعوے کئے تھے لیکن آج تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ چکے ہیں انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن نے اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے ناراض بلوچوں سے بات چیت کیلئے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کو جوذمہ داری سونپی تھی اس کو وہ نبھانہیں سکے جس کی وجہ سے آج بھی حالات جوں کے توں ہے اغواء کاری ،دہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ اوربدامنی جاری ہے حکومت کوچاہئے کہ وہ ان وارداتوں کاسراغ لگائےٍ مسخ شدہ نعشوں کاسدباب کرے حکومتی اراکین کی جانب سے ریکوزیشن اجلاس بلاکروزیراعلیٰ پر اپنااعتماد ختم کیاہے اب اس معاملے کو جس طرح سیاسی اورجمہوری قوتوں نے اٹھایاہے وہ صحیح ہے انہوں نے کہاکہ ترقیاتی کاموں کابیڑہ غرق کردیاہے اس لئے حکومت کو دوسروں پرتنقید کی بجائے اپنی کارکردگی کوبہتربنانا ہوگاتاکہ عوام کو اس کے ثمرات مل سکے قائم مقام سپیکرعبدالقدوس بزنجونے اپوزیشن لیڈرمولاناعبدالواسع کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جولوگ بے گناہ لوگوں کوقتل کرتے ہیں انہیں اب کیاکہیں گے ناراض یادہشت گردتواس پر مولاناعبدالواسع نے کہاکہ وہ دہشت گرد ہیں۔مولانا عبدالواسع نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے فلور پر کہا تھا کہ ہمیں صوبے کے حالات کو بہتر بناؤ گا اگر حالات کو بہتر اور قیام امن کو یقینی نہ بنا سکا تو خود گھر چلاجاؤ ں گا حکومتی اراکین کی جانب سے ریکوزیشن اجلاس بلانا ان پر اعتماد کے فقدان کی نشاندہی کررہا ہے عوامی نیشنل پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی اورڈپٹی اپوزیشن لیڈرانجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہاکہ موجودہ حکومت امن امان کوقائم رکھنے میں مکمل طورپرناکام ہوچکی ہے سابقہ دورحکومت کونیچادیکھانے والے وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے نعشیں رکھ کراحتجاج کرتے تھے آج حکومت میںآکرامن وامان کوبحال رکھنے میں ناکامی پرکیوں خاموش ہے انہوں نے کہاکہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں ایک باروزیراعلیٰ ہاؤس گیاہوں ہمیں وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کاکوئی شوق نہیں ہمارے صوبے کے اضلاع چمن ،قلعہ عبداللہ ،گلستان میںآباد تمام قبائل کی آپس میں دشمنیاں ہیں جب تک ان دشمنیوں کوختم نہیں کیاجاتااس وقت تک صوبے میں امن قائم نہیں ہوسکتا اس لئے ہمیں اچھے انتظامی آفیسر کو تعینات کرکے امن قیام کریں جب تک ہم نے انتظامی افسران کی تعیناتی میں سیاسی مداخلت بند نہ کی تو مسائل حل نہیں ہونگے کیونکہ بلوچستان ایک قبائلی علاقہ ہے جو بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے ہمیں تمام قبائلی کی دشمنیوں کو ختم کرنا ہوگا اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک قبائلی جرگہ تشکیل دیا جائے جس میں خان ملک اور ایسے قبائلی عمائدین کو شامل کیا جائے جو بلوچی پشتون روایات کے مطابق ان کے گھروں کے سامنے بیٹھ جائیں جب تک معاملات حل نہ ہوں وہ وہاں سے نہ اٹھیں ان اقدامات کیلئے حکومت اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لے اور انہیں ساتھ لیکر چلے تاکہ قبائلی تنازعات کا خاتمہ یقینی بنایاجاسکے انہوں نے کہا کہ ہمیں فنڈز کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں امن کی ضرورت ہے حکومت اس کیلئے اقدامات کرے موجودہ حکومت تعلیم صحت اور روڈ بنانے میں مشغول ہے جبکہ ہمیں امن کی ضرورت ہے امن ہوگا تو تمام معاملات حل ہونگے اور وزیراعلیٰ بلوچستان کیساتھ جو لوگ ہیں وہ ان کے خیرخواہ نہیں وہ انہیں بند گلی کی جانب لے جارہے ہیں اس لئے انہیں پوزیشن کو بھی اعتماد میں لینا چاہئے مسلم لیگ (ق) کے پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا ہے کہ ہم تھک چکے ہیں کہ پہلے رئیسانی اور اب موجودہ حکومت میں امن وامان پر بحث کرتے رہیں صوبہ کے اکثریت لوگوں نے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور قوم پرستوں کو موقع دیا کہ وہ صوبہ میں نفرتیں ختم کرکے امن وامان کی صورتحال میں بہتری اور صوبے کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر لانے کیلئے اہم کردار ادا کرے گی انہوں نے کہا کہ مشرف کے دور میں ترقیاتی کام ضرور ہوئے لیکن بدقسمتی سے امن وامان کے حوالے سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ صوبہ بارود کا ڈھیر بن چکا ہے انہوں نے کہا کہ جو لوگ ایک کارروائیاں کررہے ہیں ان سے مذاکرات کیلئے گدھا گاڑی میں جاتے تو بھی مذاکرات کامیاب ہو جاتے انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک پالیسی مرتب کرنی چاہئے کہ صوبہ میں امن وامان کو کیسے بہتر کرنا ہے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 6 دسمبر تک ملتوی کر دیا گیا ۔