|

وقتِ اشاعت :   November 30 – 2014

اسلام آباد : گزشتہ برس کے عام انتخابات کے دوران 15 لاکھ ووٹوں کو مسترد کیا گیا تھا اور یہ تعداد 2002 اور 2008 میں ہونے والے الیکشنز کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ یہ بات الیکشن کمیشن آف پاکستان(ای سی پی) کی ایک دستاویز میں سامنے آئی ہے۔ پندرہ لاکھ سے زائد ووٹوں کو 266 انتخابی حلقوں میں مسترد کیا گیا تھا اور اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ملکی تاریخ میں کسی بھی انتخابی عمل کے دوران مسترد کیے جانے والے ووٹوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے تیرہ حلقوں میں دس ہزار سے زائد ووٹوں کو مسترد کیا گیا، جبکہ ڈیڑھ سو نشستوں میں یہ تعداد پانچ سے دس ہزار کے درمیان رہی۔ دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ سندھ کے چھ ،پنجاب کے پانچ جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ایک، ایک انتخابی حلقے سے دس ہزار سے زائد ووٹ مسترد ہوئے۔ سب سے زیادہ تعداد میں ووٹ بلوچستان کے حلقہ این اے 266(نصیرآباد و جعفرآباد) میں مسترد ہوئے جن کی تعداد 25 ہزار 562 رہی، اس حلقے سے سابق وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تھے اور انہیں ایک دوسرے آزاد امیدوار میرسلیم احمد کھوسہ کے ہاتھوں 5891 ووٹوں کے فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ان حلقوں میں سے ایک ہے جن کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے حکمران جماعت پر ” 35 پنکچرز” کے الزامات عائد کیے ہیں۔ دستاویز کے مطابق 2008 کے عام انتخابات میں اس حلقے میں 6314 جبکہ 2002 کے الیکشن میں 6635 ووٹ مسترد کیے گئے تھے۔ اسی طرح این اے 221 حیدرآباد تھری میں 24 ہزار 516 ووٹ مسترد کیے گئے، یہ تعداد 2008 میں 1492 اور 2002 میں 1466 تھی۔یہاں سے پیپلزپارٹی کے امیر علی شاہ جاموٹ کامیاب ہوئے تھے۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 175 راجن پور ٹو میں 14ہزار 58 ووٹوں کو مسترد کیا گیا، 2008 میں تعداد 5573 اور 2002 میں 3504 تھی، اس حلقے سے نواز لیگ کے امیدوار حفیظ الرحمان نے کامیابی حاصل کی تھی۔ کراچی کے حلقہ این اے 244 میں 13 ہزار 905 ووٹوں کو مسترد کیا گیا یہ تعداد 2008 میں 1492 اور 2002 میں صرف 27 تھی، یہاں سے ایم کیو ایم کے امیدوار شیخ صلاح الدین کامیاب ہوئے تھے۔ کراچی کے ہی حلقہ این اے 245 جہاں سے ایم کیو ایم کے ریحان ہاشمی کامیاب قرار پائے، وہاں 12 ہزار چھ ووٹ مسترد ہوئے، جبکہ 2008 میں یہ تعداد 841 اور 2002 میں 1106 تھی۔ نبیل گبول نے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر کراچی کے حلقہ این اے 246 سے کامیابی حاصل کی اور یہاں 15 ہزار 946 ووٹ مسترد ہوئے، 2008 میں یہ تعداد 1281 اور 2002 میں 837 تھی۔ اسی طرح کراچی کے ایک اور حلقے این اے 253، جہاں سے بھی ایم کیو ایم کے رہنماءمزمل قریشی کامیاب ہوئے، میں 10 ہزار 956 ووٹ مسترد ہوئے، جبکہ 2008 اور 2002 میں تعداد بالترتیب 2744 اور 1101 تھی۔ بھکر سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 73 میں گزشتہ سال کے انتخابات کے دوران تیرہ ہزار 256 ووٹ مسترد ہوئے جبکہ 2008 میں یہ تعداد 6317 اور 2002 میں 3800 تھی، یہاں سے مسلم لیگ ن کے عبدالمجید خان نے کامیابی حاصل کی تھی۔ بھکر کی ہی ایک اور نشست این اے 74 میں انتخابات کے موقع پر بارہ ہزار 216 ووٹ مسترد ہوئے، 2008 میں یہ تعداد 6885 اور 2002 میں 3539 تھی۔ این اے 78 فیصل آباد فور میں 12 ہزار 488 ووٹ مسترد ہوئے، 2008 اور 2002 کے انتخابات میں یہ تعداد پانچ ہزار سے زیادہ تھی۔ میرپور خاص و عمرکوٹ میں پھیلے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 227 میں دس ہزار 549 ووٹ مسترد ہوئے، یہ نشست سابق صدر آصف علی زرداری کے بردار نسبتی میر منور تالپور نے جیتی۔ جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ڈیرہ اسمعیل خان سے قومی اسبملی کے حلقہ این اے 24 سے کامیابی حاصل کی ، یہاں گزشتہ عام انتخابات میں ساڑھے دس ہزار سے زائد ووٹ مسترد ہوئے، جبکہ 2008 اور 2002 میں یہ تعداد بالترتیب 4287 اور 2445 تھی۔ این اے 174 راجن پور میں دس ہزار 187 ووٹوں کو مسترد کیا گیا جبکہ 2008 میں تعداد پانچ ہزار سے کچھ زیادہ اور 2002 میں تین ہزار سے کچھ زیادہ تھی، یہاں سے مسلم لیگ ن کے سردار جعفر خان لغاری کامیاب قرار پائے تھے۔ اس دستاویز سے واضح ہوتا ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز ان 35 حلقوں میں ووٹوں کے مسترد ہونے سے فائدہ اٹھانے والے واحد جماعت نہیں تھی جہاں کامیاب امیدوار کے ووٹوں کا مارجن مسترد ووٹوں سے کم تھا،ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتوں نے ان حلقوں سے کامیابی حاصل کی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے حصے میں بارہ نشستیں آئیں، سات میں آزاد امیدوار کامیاب رہے جبکہ چار حلقوں میں پیپلزپارٹی اور دو میں جے یو آئی ایف نے کامیابی حاصل کی۔ پی ٹی آئی، کیو ڈبلیو پی، اے این پی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ قائداعظم، این پی پی، پی ایم ایل ڈی، پی کے میپ اور بی این پی نے بھی ایک، ایک حلقے میں کامیابی حاصل کی۔