برطانوی دور کی ایک کہاوت ہے فرنگیوں نے دو چور دوستوں ایک ہندو اور مسلمان کو گرفتار کیا، بیس بیس کوڑے مارنے کا حکم ہوا، کوڑے مارنے سے پہلے قیدیوں سے خواہش معلوم کی گئی ہندو قیدی نے کہا کہ مجھے کوڑے لگاتے وقت قمیض نہ اتاری جائے تاکہ درد کی شدت میں کمی ہو،پانچ کوڑے کم لگائے جائیں ایسا ہوا۔ جب مسلمان قیدی سے خواہش پوچھی گئی تو کہا مجھے 25 کوڑے لگائیں،فرنگی پریشان ہو گیا ہندو قیدی نے کم کی درخواست کی توزیادہ کا خواہشمند ہے تو مسلمان قیدی نے کہاکہ میری پیٹھ پر ہندو قیدی کو باندھاجائے۔ فرنگیوں نے وعدے کے مطابق آخری خواہش کا احترام کیا۔
یوں اپنی ذہانت ہوشیاری چالاکی سے تمام کوڑے ہندو قیدی کو لگے۔مسلمان قیدی بچ گیا، ہندو قیدی نے دوست سے شکوہ کیا دوست نے کہاکہ وقت کا فائدہ اٹھانا سیکھو۔بالکل اسی طرح خاص کر بلوچستان کی بیوروکریسی منتخب عوامی نمائندوں کے ساتھ کھیل رہی ہے اگر مان بھی لیں اس گندے مکرو کھیل میں اراکین اسمبلی کی رضامندی شامل ہوتی ہے،منصوبوں پر رائلٹی لیتے ہیں لیکن یہ رائلٹی محکمہ کا ہی آفیسر ٹھیکیدار سے لیکر دیتا ہے۔ بلوچستان میں 73سالوں سے اراکین اسمبلی کو نالی روڈ بلڈنگ بنانے کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے حالانکہ اراکین اسمبلی کا مرکزی کام قانون سازی کرنا ہے۔
عوام کو سہولیات دینے کے لیے قانون ساز اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام کی فلاح بہبود،اداروں کی سالمیت اور بقاء کے لیے قانون بنا کر اداروں کو دینے ہیں جن پر وہ عمل کرکے عوام کو ریلیف دیں،ان ذمہ داریوروں کی ادائیگی کے لیے قومی خزانہ سے عوام کے ٹیکس سے تنخواہ ودیگر مراعات اس لیے دی جاتی ہیں تاکہ انہیں ہر پل عوام کے ملازم اور نوکر ہونے کا احساس رہے لیکن بیوروکریسی اور منتخب عوامی نمائندوں کے گٹھ جوڑ نے عوام کو نوکر بنا کر رکھ دیا ہے اورجو نوکر ہیں وہ حکام بن گئے ہیں۔جس معاشرے میں نوکر حکام بن کر 22کروڑ مالکوں پر حکمرانی کریں گے۔
تو اس معاشرے میں کرپشن لوٹ مار لاقانونیت نا انصافیوں کے ساتھ عدل وانصاف کا بھی فقدان ہو گا۔ حالیہ بارشوں نے ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن لوٹ مار کی کتاب کو کھول رکھ دی ہے۔بارشوں کے پانی سے بلوچستان کی قومی شاہراوں کو غیر معیاری کام، نا تجربہ کار انجینئروں کی وجہ سے اربوں کا نقصان ہوا ہے۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صدر آصف علی زرداری نے بلوچوں سے معافی مانگی، این ایف سی ایوارڈ رقبہ کے لحاظ سے اور گیس رائلٹی کے آٹھ سو ارب روپے دیئے، بلوچ ناراض بلوچ بھائیوں کو راضی کرنے قومی دھارے میں لانے کے نام پر کھربوں روپے اقتدار میں رہنے والوں سرداروں نوابوں۔
اراکین اسمبلی وزراء نے ہضم کئے لیکن بلوچستان کا عام بلوچ آج بھی صحت تعلیم پینے کے پانی بجلی گیس کی سہولت ترس رہا ہے۔ بلوچستان میں نہ قومی شاہراہ کو ڈبل کیا گیا نہ موٹر وے بنائی گئی، اندرون ملک بیرون ملک کاروبار اور جائیدادیں بنائی گئیں، کوئی تو اراکین اسمبلی سے پوچھے کہ ملنے والے فنڈز کہاں جا رہے ہیں۔ ڈیرہ مراد جمالی نصیرآباد ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر ہے جہاں کمشنر سمیت ڈویژن آفیسروں کے دفاترہیں ڈیرہ مرادجمالی کا مین بازار قومی شاہراہ پر جگہ جگہ گڑھے پڑ چکے ہیں، عوام تاجر پریشان ہیں تعفن پھیلا ہوا ہے۔
بلوچستان میں ناقص منصوبوں میں محکمہ مواصلات وتعمیرات، محکمہ ایری گیشن، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی سمیت خاص کر بلوچستان کے ایم این اے، سینیٹروں نے کرپشن کو چھپانے کے لیے گمنام ادارے تلاش کئے ہیں جن کے علاقائی دفتر تک موجودنہیں ہیں جیسے پاک پی ڈبیلو،اربن ڈویلپمنٹ وغیرہ وغیرہ ان اداروں کو بھی اراکین اسمبلی کے ساتھ لوٹ مار کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
کیونکہ اراکین اسمبلی فنڈز لاتے ہیں لیکن بھاری کمیشن محکمے کھاجاتے ہیں،بد نامی اراکین اسمبلی کی ہوتی ہے۔ کیا اراکین اسمبلی حکومتی خزانے سے پیسے نکالنے کے لیے سرکاری بل پر دستخط کرتے ہیں ہر گز نہیں، غیر معیاری بلوں پر دستخط سرکاری آفیسر کرتے ہیں بد نامی،پیشیاں منتخب عوامی نمائندوں کو بھگتنی پڑتی ہیں۔ اب اراکین اسمبلی کو مسلمان قیدی کا طریقہ اپنانا ہو گااپنی پیٹھ پر سرکاری آفیسروں کو باندھنے پر زور دینا ہو گا پھرشاید بلوچستان میں معیاری منصوبے بنیں۔