|

وقتِ اشاعت :   December 1 – 2014

وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان کے زمینداروں کو بجلی کی مد میں ملنے والی سبسڈ ی کو مزید جاری رکھنے کیلئے وفاق سے رابطہ کر نے کا اعلان کرتے ہوئے زمینداروں کو یقین دلایا ہے کہ بجلی کی سبسڈی کو جاری رکھنے سمیت زراعت کی ترقی اور فروغ کیلئے اقدامات کئے جائیں گے جبکہ وزیر اعلیٰ نے بلوچستا ن کے زمینداروں کو درپیش دیگر مسائل کے حل سے متعلق ٹھوس اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی ہے جن میں ایران سے سیب اور پیاز کی بر آمد پر پابندی کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔بلوچستان میں لوگوں کا ذریعہ معاش اکثر زراعت سے ہی وابستہ ہے جس کا انحصار ٹیوب ویلوں کے ذریعے حاصل کردہ پانی ہے اس غر ض سے بلوچستان میں بجلی کی اہمیت نہ صرف گھریلو بلکہ معاشی نکتہ نظر سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ بلوچستان جس کی آبادی کا زیادہ تر حصہ دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے اور پیشہ کے حوالے سے زراعت سے وابستہ ہیں انکو پینے اور دیگر ضروریات کیلئے پانی صرف انہی ٹیوب ویلوں سے ہی دستیاب ہوتاہے جس کے باعث ان زمیندار وں کایہ فلاحی عمل ایک طرف تو خود روزگار منصوبہ اور دوسری جانب عوام کو بڑھے پیمانے پر پانی فراہمی کے طور پر بھی ہے ۔بلوچستان میں زراعت کو حکومتی سطح پر کبھی بھی خاطر خواہ رہنمائی اور سہولیات کی فراہمی نہیں کی جاسکی ہے جبکہ زمینداروں کی جانب سے سالانہ اربو ں روپے ریونیو ملنے سمیت بڑھے پیمانے پر لوگو ں کو روزگا ر کی فراہمی پانی کی فراہمی کے طورپر حکومت و ملک کو خاطرخواہ فائدہ ملتا رہا ہے ۔اس حوالے سے پچھلے ادوار میں سردار ختر مینگل کے دور حکومت میں زراعت کی اہمیت کے پیش نظر زمینداروں کو بجلی کی مد میں سبسڈ ی دی گئی جو کہ انتہائی بہترین اقدام کے طو رپر زمینداروں کو معاونت فراہم کرتی آئی ہے۔ اس منصوبے کے تحت زمینداروں کے مالی مشکلات کو مد نظر رکھ کر فی ٹیوب ویل چار ہزار روپے ماہانہ فکس ریٹ جبکہ باقی رقم صوبائی حکومت نے اپنے ذمے لے لی تاہم اس منصوبے سے متعلق وقتاً فوقتاً حکمرانو ں کی جا نب سے ختم کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن زمینداروں کی جانب سے اپنے اس حق کیلئے ہمیشہ بے پناہ قربانی کی حامل جد وجہد نے حکمرانوں کے اس زراعت دشمن منصوبے کو ناکامی سے دوچاربنایا ۔بلوچستا ن میں جہا ں پسماندگی ایک نا قابل تردید حقیقت بن چکی ہے جس کا اعتراف ہمیشہ ہر حکمران نے کھل کر کیا ہے وہاں اس پسماندگی کے خاتمے کیلئے محض دعوے کے علاوہ کوئی عملی اور ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ۔بلوچستان میں صنعتیں، فیکٹریاں او ردوسرے روزگار کے ذرائع نہیں ہیں صرف زراعت ہی ہے جو کہ بڑپے پیمانے پر عوام کو روزگار کی فراہمی کا باعث ہے لیکن پھر بھی حکمرانوں کی جانب سے اس کے فروغ اور اس بابت زمینداروں کی حوصلہ افزائی کیلئے کوئی منصوبہ آج تک سامنے نہیں آسکا ہے ۔بجلی کی سبسڈی سے متعلق اس منصوبے پر نہ صرف وفاق ہمیشہ اپنی تحفظات کا اظہار کرتا آیا ہے بلکہ وزارت پانی و بجلی اس منصوبے کی مدمیں ہمیشہ سے واجبات کے عدم ادائیگی کارونا رو کر اس منصوبے کے خاتمے کی سفارش کی ہے حالانکہ اس منصوبے سے متعلق نہ صر ف خود واپڈا کی کئی خامیاں ہیں بلکہ مقامی سطح پر بجلی فراہم کرنے والے حکام اور اہلکار بھی اس مد میں اپنی کرپشن او ر بدعنوانیوں کا بازار گرم کر کے اس منصوبے کی ناکامی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ۔بلوچستا ن میں بجلی کی ضرورت تقریباً 1600سو میگاواٹ ہے جبکہ پورے صوبے کو اس وقت صرف 420 میگا واٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے جسکازیادہ ترحصہ کوئٹہ شہر کو ہی دیا جاتاہے جبکہ اس کے علاوہ دیہی علاقوں کو کہ جہاں بجلی کی ضرورت نہ صرف زراعت بلکہ لوگوں کو پانی کی فراہمی کیلئے از حد ضروری ہوتا ہے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ آج کل دیہی علاقوں میں بجلی کی فراہمی 24 گھنٹے میں صرف 4سے 5گھنٹے کی جاتی ہے جس سے نہ صرف زراعت تبا ہ ہو رہی ہے بلکہ عوام کو پینے کی پانی کی فراہمی میں بھی کافی مشکلات کا سامنا ہے ۔اس بحرانی کیفیت میں زمینداروں کو بجلی کی سبسڈی کے ذریعے سہولت کی فراہمی سمیت حکومت کو مزید اقدامات اٹھانے ہونگے ۔حکومت اس منصوبے کی خامیو ں جو کہ مقامی سطح پر ٹیوب ویلوں پر میڑ ز کی عد م تنصیب ،بجلی کی فروخت ،غیرقانونی ٹیوب ویلوں کو بجلی کی بے پنا فراہمی اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی صورت میں درپیش ہے کے خاتمے کیلئے ایک ٹھوس طریقہ وضع کر کے اس سے متعلق حکومت کو درپیش نقصان میں کمی جبکہ اس منصوبے سے زمینداروں کو ملنے والی ریلیف کو برقرار رکھ کر صوبے میں زراعت کے فروغ کو ممکن بنا یا جاسکتا ہے جبکہ لوگوں کو روزگار کی فراہمی سمیت زراعت کی افادیت کے پیش نظر حکومت کی مخلصانہ کاوشوں کو وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک جاری رکھ کر مزیداس ضمن میں اقداما ت کو یقینی بنا کرعوام کی پسماندگی اور احساس محرومی کے خاتمے میں ممکن حد تک پیشرفت کرسکتے ہیں ۔