کراچی: سیاسی رہنماؤں ادیب دانشوروں،اورصحافیوں نے مرحوم میرحاصل بزنجو کی ناگہانی رحلت کوبلوچستان کے لیے ناقابل تلافی نقصان قراردیا ہے اورکہاہے کہ بلوچستان حقوق کی توانا آوازسے محروم ہوگیا ہے،ایک نادر سیاستدان بلوچستان کوچھوڑگیا ہے،میرحاصل بزنجونے جمہوریت کی خاطرمراعات کوٹھکرادیا۔
ان خیالات کا اظہارنیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری جان محمد بلیدی،پروفیسرڈاکٹرجعفراحمد،نیشنل پارٹی کے سینیٹرمیرکبیراحمد محمدشہی، کراچی پریس کلب کے صدرامتیازفاران،سینئرصحافی دانشورپروفیسرتوصیف احمد،سینئرصحافیوں سہیل سانگی،شاہد جتوئی،سعید سربازی عزیز سنگھورنے کراچی پریس کلب میں میرحاصل بزنجوکی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر عبدالمالک نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میر حاصل ہمارا لیڈر تھا کارکن بھی تھا۔
میں اس کے ساتھ ڈگری کالج میں پڑھتا تھا،میں بولان کالج کوئٹہ چلاگیا وہ کراچی چلا گیا،حیدر آباد سازش کیس کے بعد ہم بکھر گئے،پھر 2002میں ملاقات ہوئی،ہمیں کہا گیا کہ جنرل مشرف حکومت کی حمایت کی جائے،ہم نے کہاکہ سوچ کر جواب دینگے ہم نے دونوں پارٹیوں کو اکھٹا کیا اور نیشنل پارٹی بنائی،ہم پر الزم لگایا گیا کہ ہم نے اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بنائی ہے،حاصل بزنجو اور ہم اپنے قائدین کے نقشے قدم پر چلتے رہے حاصل بزنجو نے مولانافضل الرحمن شہبازشریف بلاول بھٹو کو ایک پیج پر لاتے تھے بائیں بازو کے سیاستدان بکھرے ہوئے ہیں۔
مشرف دور میں ایک صاحب نے بلایا اور مشرف کی حمایت کیلئے دباو ڈالا،ہم نے بتادیا کہ پارٹی عوام کیلئے ہے اور اسی وقت حاصل بزنجو سے اتحاد کیا،ہم نے نیک نیتی سے اتحاد کیا تھا،اس لئے بہت سی مشکلات کے باوجود متحد رہے۔انہوں نے کہاکہ ہم نے گذشتہ پندرہ سال مشکل میں گزارے ہیں،ہمارے چالیس پچاس دوست مارے گئے لیکن انتہا پسندی کا راستہ اختیار نہیں کیا،مشرف جیسا ڈکٹیٹر نہیں رہا لیکن ہماری پارٹی عوام میں موجود ہے،بی ایس او آج بلوچستان کے ہر حصے میں موجود ہے، یہ ہماری کامیابی ہے،دنیا میں مظلوم قوموں کا استحصال ختم نہیں ہوا،
کوئی بتا دے کہ دنیا میں کوئی سیکیورٹی اسٹیٹ کامیاب ہوئی ہو،ہم پاکستان کو فلاحی ریاست بنائینگے، خارجہ پالیسی تبدیل اور پڑوسیوں سے تعلقات بہتر کرنا ہونگیانہوں نے کہاکہ ہمیں تو اپوزیشن جماعتیں سمجھ نہیں آتیں،جو شخص ن لیگ،پیپلزپارٹی اور فضل الرحمان کو ساتھ بٹھا سکتا تھا،وہ میر حاصل بزنجو تھا،میر حاصل کے انتقال سے بلوچستان اور اسلام آباد میں فاصلہ بڑھ گیاہے۔
اوربلوچستان ایک توانا آوازسے محروم ہوگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ میرحاصل بزنجوکی خدمات کوتادیریاد رکھا جائے اوران کا خلا مدتوں پرنہ ہوگا۔نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری جان محمد بلیدی نے کہاکہ میرحاصل بزنجوایک بڑے باپ کے بیٹے تھے،حاصل بزنجو بہادر انسان تھے وہ ہمارے ساتھ بلٹ پروف گاڑی میں سفر نہیں کرتے تھے،ہم آج بلٹ پروف گاڑیوں میں آئے ہیں،حاصل بزنجونے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان پل کا کردار ادا کیااسی بناء پرانہیں سینیٹ چیئرمین کے لیے مشترکہ امیدوارنامزدکیا گیا،سینیٹ کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو سامنے لایا جائے تو 65 افراد 45 شمارہوتے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے سینیٹر میرکبیر احمد محمدشہینے کہاکہ،ہم نے حاصل بزنجو سے بہت کچھ سیکھا،وہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں بلوچستان سمیت تمام مظلوموں کے ترجمان تھے،اپنا علاج کرانے امریکہ جاتے توفوری واپس آجاتے،حاصل بزنجونے بیس برس سیاست کی مگراپنا گھرنہ بناسکا،جب بلوچستان میں اگ لگی ہوئی تھی اوربلوچستان میں لاشیں مل رہی تھیں حاصل بزنجو نے اس وقت بھی پارلیمانی سیاست کوجاری رکھا،وہ بندوق نہیں پارلیمانی سیاست کا حامی تھا،حاصل بزنجوکا ایک ہی مطالبہ تھا کہ دستورپرعمل کیا جائے۔
انہوں نے کہاکہ 2010 میں اٹھارویں ترمیم کی بجائے یہ ترمیم پہلے کردی جاتی تو بنگلہ دیش الگ نہ ہوتا،تمام جمہوری قوتوں کا اس بات پراتفاق ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کوسیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے پارلیمان کا اپنا کردار اورعدلیہ کا اپنا اختیارہونا چاہیئے، اٹھارویں ترمیم کے تحت 15سال سے این ایف سی ایوارڈ پر عمل نہیں کیا ہوا جب این ایف سی کی بات آتی ہے صدرکی چھٹی آجاتی ہے،این ایف سی کے تحت صوبوں کوزیادہ فنڈز ملنے چاہیئں،انہوں نے کہاکہ حاصل بزنجوجب اصولی موقف اپناتے تو انہیں نیب کی چھٹی آجاتی کہ آپ کی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں زمین ہے۔
وہ کہتے تھے کہ نوٹس پھاڑدو۔ پروفیسرڈاکٹر جعفراحمد نے کہاکہ مجھے ایک سانولے سے لڑکے نے آواز دی آپ کے نوٹس لینے ہیں مجھے نہیں معلوم تھاکہ یہ غوث بخش برزنجو کے بیٹے ہیں،میں نے انگریزی میں انٹرویو کیا جو باتیں کہی تھی آج بھی وہ باتیں سچ ہیں،1973کے آئین پر 2010میں عمل ہوا ہے،کہاجاتا تھا غوث بخش بزنجو کو باتیں کرنے کا شوق ہے۔
میں نے ان سے پوچھا آپ بھٹوصاحب کی بڑی حمایت کرتے ہیں ان کا کہناتھا ہم ان کو سمجھارہے ہیں بلوچستان میں لڑائی کا فائدہ کسی اور کو ہوگامیرحاصل بزنجو اپنے والد کے نقش قدم پرچلے اورکبھی ان کے راستے سے نہیں ہٹے،میر غوث بخش کی وراثت ان کے بیٹے تک محدود نہیں بلکہ ان کی وارثت بلوچستان کے لیے تھی،میرغوث بخش نے کہا تھا کہ پاکستان کی بقا پارلمانی نظام سے ہے۔
قائد اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کی بقا پارلمانی نظام میں ہے صوبوں کو اختیارات دیے جائیں پاکستان میں اٹھارویں ترمیم پر عمل ہوجائے تو بھارت سے زیادہ ہمارے صوبوں کو اختیارات مل جائیں گے۔ پروفیسر جعفر نے کہاکہ غیر سیاسی جماعیتں قابض ہو چکی ہیں،سول اور ملٹری ریلیشن اس وقت اچھے نہیں ہے،سیاسی جماعتوں میں انتخابات ہونے چاہیئں،سیاسی جماعتوں کے پاس تھینک ٹیک ہونے چاہئیں، اس کے لیے منشور تیار کیا جائے اپنامنشور تیار کریں۔کراچی پریس کلب کے صدر امتیازفاران نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حاصل بزنجو اسلام آباد سے زیادہ کراچی میں پاپولر تھے۔
انہوں نے مظلوموں کے حقوق کے لیے جنگ لڑی،وہ طاقتورکے مقابلے میں کمزورکی مدد کرنے والے انسان تھے۔پروفیسر توصیف احمد نے کہاکہ حاصل بزنجو کا کراچی سیتعلق بہت گہرا تھا،انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے فلسفہ میں ماسٹر کیا۔کراچی پریس کلب کے نائب صدر سعیدسربازی نے کہاکہ حاصل بزنجو ایک منجھے ہوئے ساسیت دان تھیوہ اپوزیشن سے مایوس تھے وہ کہتے تھے اپوزیشن کو بھی ہری جھنڈی دیکھائی جائے تو پھر کچھ کریگی۔
صحافی شاہد جتوئی نے کہاکہ بلوچستان میں سیاست بہت مشکل ہے،بلوچستان خواب ناک ہے،حاصل بزنجو نے مظلوم قوموں کی آواز کو ایوانوں تک پہنچایا ہے بلوچستان ایک ایسی بلند اواز سے محروم ہوگیا۔ سینئرصحافی سہیل سانگی نے کہاکہ حاصل بزنجو نے پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا،بلوچستان پہلے دن سے مشکلات کا شکار تھا میرحاصل بزنجوکی رحلت سے اور مشکل ہوگی ہے۔