ملکی سیاست کے منظر نامہ پر اس وقت صوبہ سندھ کو ایک انفرادیت حاصل ہے باقی تین صوبوں کے برعکس یہاں پیپلزپارٹی بلا شرکت غیرے اقتدار پر براجمان ہے۔بارہ سال سے مسند اقتدار پر رہنے کے باوجود پیپلزپارٹی کو سندھ میں بڑے سیاسی اور عوامی مسائل کے چیلنجز کا سامنا ہے۔اٹھارویں آئینی ترمیم سے ملنے والی صوبائی خود مختاری کے مکمل حصول کے لئے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کا وفاق سے تنازعہ “ن” لیگ کی وفاقی حکومت سے شروع ہوتا ہوا اب تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے دور میں شدت اختیار کر گیا ہے۔
کیونکہ تحریک انصاف کا بیانیہ بنیادی طور پر صوبائی خودمختاری کے خلاف ہے۔ پانی، بجلی، گیس کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کو ملنے والے حصہ میں بڑی کٹوتی نے سندھ حکومت کو شدید پریشان کر دیا ہے اس تناؤ کی کیفیت نے صوبہ سندھ اور وفاق کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ کبھی قائم ہونے نہیں دیا لیکن کراچی میں ہونے والی حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے کسی حد تک اس تناؤ اور سیاسی دوری کو کم کرنے کی کوشش کی۔دونوں حکومتوں کے درمیان رابطے ہوئے وزیر اعظم کراچی تشریف لائے اور کافی عرصے بعد وزیر اعلیٰ سندھ اپنی ٹیم کے ہمراہ گورنر ہاؤس پہنچے۔
گورنر سندھ کے ہمراہ وزیر اعظم کا استقبال کیا اور کراچی کی تعمیر نو پر ایک طویل میٹنگ وزیر اعظم کی صدارت میں منعقد ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ سیاسی پنڈت اس تناؤ میں کمی لانے کا کریڈٹ عسکری قیادت کو دیتے ہیں لیکن کچھ بھی کہا جائے کراچی کے عوام کو کم از کم کچھ دنوں کے لئیے خوش فہمی کے سبز باغ میں ٹہلنے کا موقع ضرور ملا۔اسی دن اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد وزیر اعظم نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے گیارہ سو ارب پر مشتمل کراچی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا، وزیراعظم کے اس اعلان سے دو دن قبل وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ حکومت کی طرف سے کراچی کے لیے 802 ارب پر مشتمل پیکیج کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اعظم جیسے ہی کراچی سے روانہ ہوئے اسی رات مختلف ٹیلی ویژن چینلز پر نشر ہونے والے ٹاک شوز میں پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے درمیان وزیر اعظم کی طرف سے اعلان کردہ گیارہ سو ارب میں حصے کی لڑائی شروع ہوئی جو تا حال جاری ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے اور بحریہ ٹاؤن کے وہ پیسے جو سپریم کورٹ میں جمع ہورہے ہیں انہی پر اصل تنازعہ ہے ان معاملات پر سندھ حکومت کا موقف اس لیے زیادہ وزن رکھتا ہے کیونکہ کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر وہ دو ہزار سترہ سے کام کر رہی ہے منصوبے کی ایکنک سے منظوری سے لے کر اسے سی پیک میں شامل کرنے تک کا کریڈٹ سندھ حکومت کو جاتا ہے۔
اسی طرح بحریہ ٹاؤن کے پیسے بھی اصولی اور اخلاقی طور پر سندھ کو ملنے چاہئیں کیونکہ بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہے اور کراچی سندھ کا دارالخلافہ ہے اور زمین صوبائی ملکیت میں آتی ہے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے ان منصوبوں کو خوش آئند قرار تو دیا لیکن وفاقی حکومت سے اس بات کا گلہ بھی کیا کہ جب تک کراچی میں ایم کیو ایم کا مئیر تھا اس وقت ہمارے بار بار مطالبہ کے باوجود وزیر اعظم نے کراچی کے لئے پیکیج کا اعلان نہیں کیا، حالانکہ اس سے قبل بھی وزیراعظم عمران خان کراچی کے لئے 162 ارب کے منصوبوں کا اعلان کر چکے تھے مگر یہ الگ بات ہے کہ ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وفاقی بجٹ میں رقم مختص نہیں کی گئی۔
سندھ کی تیس سالہ سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو شہری علاقوں سے متحدہ قومی موؤمنٹ اور دیہی علاقوں سے پیپلزپارٹی کو بھاری مینڈیٹ ملتا رہا ہے لیکن دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ایک ڈرامائی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی (جس کے محرکات پر ہم آگے بات کریں گے) شہری علاقوں خاص طور سے کراچی میں تحریک انصاف قومی اسمبلی کی چودہ اور صوبائی اسمبلی کی انتیس نشستیں لے کر سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی جبکہ متحدہ قومی موومنٹ قومی اسمبلی کی چھ اور صوبائی کی اکیس نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی، ایک تاریخی شکست کا سامنا پیپلزپارٹی کو لیاری سے کرنا پڑا جہاں پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کی نشست کے انتخابات میں بری طرح شکست سے دو چار ہوئے اور صوبائی نشستیں بھی پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سے نکل گئیں۔ کراچی میں دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے شہری سیاست کا پانسہ ہی پلٹ دیا، کئی ناتجربہ کار کھلاڑی سیاسی میدان میں کامیابی کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلی کے معزز رکن بن گئے،سیاست اور پارلیمانی ضابطوں سے نابلد ان نئے سیاسی کھلاڑیوں نے سندھ میں جاری سیاسی کشمکش کو مزید گھمبیر بنا دیا،سندھ میں صوبائی حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج قائم کرنے، کبھی آرٹیکل 249 کے نفاذ کی باتیں تو کبھی کراچی کو وفاق کے حوالے کرنے کے مطالبات شد و مد کے ساتھ اٹھائے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی پارلیمانی سیاست میں نا تجربہ کار ہونے کے باوجود سندھ حکومت کے لیے ایم کیو ایم سے زیادہ مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
حالانکہ یہ مطالبات ایم کیو ایم کی سیاسی و نظریاتی حساس سے ہم آہنگ ہیں۔ شہری سیاست کی اس تبدیلی میں تحریک انصاف نے سب سے زیادہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، ایم کیو ایم سے مایوس ووٹرز کو اپنی طرف راغب کیا انتخابات میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر ان سے ووٹ حاصل کرکے خود کوشہر کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ثابت کر کے دکھایا۔ شہری سیاست کی اس تبدیلی نے ایم کیو ایم کو بڑی ہزیمتوں سے دو چار کیا، کئی انتخابی حلقے ان کے ہاتھ سے گئے اپنی شکست کو تسلیم نہ کرتے ہوئے دھاندلی، سلیکشن، مینڈیٹ چوری ہونے اور انتخابات میں اداروں کے ملوث ہونے کے الزامات لگاتے لگاتے مایوس ہونے کے بعد بالآخر انتخابی نتائج کو سرخم تسلیم کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے جس جماعت پر اپنا مینڈیٹ چوری کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اس کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت بنائی اور دو وفاقی وزارتیں لے کر خاموشی کا کمبل اوڑھ لیا جبکہ پیپلزپارٹی اپنے سیاسی قلعہ لیاری سے شکست کے باوجود وہ ملیر کے فاتح کے طور پر سامنے آئی۔ متحدہ قومی موومنٹ کی پیپلزپارٹی کے ساتھ ماضی کے برعکس صوبائی حکومت میں اتحادی نہ بننے کے فیصلے نے دیہی اور شہری فرق کو مزید بڑھاوا دیا اور اس سیاسی ہتھیار کو آج بھی ایم کیو ایم بے رحمی سے استعمال کر رہی ہے کیونکہ ایم کیو ایم کو زندہ رہنے کے لیے اس نعرے کی آج جس شدت کے ساتھ ضرورت ہے شاید اس سے پہلے کبھی رہی ہو۔ بائیس اگست 2016 کو ایم کیو ایم کے سابق قائد الطاف حسین نے ایک احتجاجی کیمپ سے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان اور ملکی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے اپنے ہی ہاتھوں شہری علاقوں سے اپنی تیس سالہ سیاسی سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا جس کے بعد سندھ کی شہری سیاست میں ایک بھونچال آگیا۔
الطاف حسین کے خلاف پیدا ہونے والی ممکنہ نفرت کے طوفان کی زد میں ایم کیو ایم بحیثیت سیاسی جماعت آگئی ہے۔ لیکن وقت و حالات کی نزاکت کا فوری ادراک کرتے ہوئے مقامی قیادت نے فوراً پینترا بدل کر الطاف حسین سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا اور حب الوطن ظاہر ہونے کے لئے ایم کیو ایم کے ساتھ پاکستان کے لفظ کو شامل کرکے اسے رجسٹر کرایا لیکن کئی اہم رہنما یا تو ملک چھوڑ گئے یا پھر سیاست،رہی سہی کسر مقامی رہنماؤں کے درمیان قیادت کے حصول کی جنگ نے پوری کر دی۔ ان تمام عوامل کے انتہائی منفی اثرات دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں کئی آبائی حلقوں سے شکست کی صورت میں نظر آئیں،دو ہزار سولہ کے بلدیاتی انتخابات میں شہری علاقوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی جماعت کو صرف دو سال بعد بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے انتہائی شاطرانہ انداز سے سندھ کے اپنے دوسرے بڑے سیاسی حریف ایم کیو ایم کی آبائی نشستیں انتخابات میں چھین لیں پھر اسے اپنا حلیف بھی بنا لیا۔ شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی سندھ کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں مل کر صوبائی حکومت کو مشکل وقت دے رہی ہیں جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس دیہی سندھ کے مسائل پر ایوانوں سے لیکر سڑکوں تک پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے خلاف صف آراء ہے۔
گزشتہ دوسالوں سے سندھ کا سیاسی درجہ حرارت نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا حالانکہ وزیر اعظم کی کراچی آمد اور وزیر اعلیٰ سندھ کے ہمراہ کراچی ٹرانسمیشن پلان کے اعلان کے بعد درجہ حرارت میں کمی کی کچھ امیدیں تھیں لیکن دونوں طرف سے جاری سیاسی پوائنٹ اسکو رنگ کے اس کھیل نے سیاسی حدت کو کم ہونے نہیں دیا۔گزشتہ دنوں کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں مون سون کی ریکارڈ توڑ بارشوں سے جو تباہی و بربادی پھیلی ہے وہ انتہائی بھیانک ہے۔ کئی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں ڈیڑھ سو سے زاہد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، سینکڑوں ایکڑ پرکھڑی فصلیں تباہ ہوئیں،متعدد لوگ اپنے گھر، دکان اور قیمتی اشیاء سے محروم ہوئے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ طور پر لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا۔
لیکن ان حالات میں بھی وفاق اور صوبے کے درمیان الزامات کی گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔کراچی کو ملک کا صنعتی اور معاشی حب کا درجہ حاصل ہونے کی وجہ سے قومی میڈیا میں مکمل کوریج ملتا ہے جس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور قومی ادارے متحرک ہوتے ہیں جس سے یہاں کے مسائل کسی حد تک حل ہو جاتے ہیں لیکن سندھ کے دیگر اضلاع جہاں بارشوں نے تباہی پھیلائی ہے وہاں کے زخم خوردہ لوگوں کی آواز میڈیا تک کم پہنچی ہے،اس لیے ہمیں وہاں صوبائی حکومت کے اقدامات کم نظر آتے ہیں اور این ڈی ایم اے جس کی اولین ذمہ داری قدرتی آفات میں لوگوں کو ریلیف پہنچانا ہے وہ ان اضلاع میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، ان اضلاع کے متاثرین کی اکثریت آج بھی کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔