حال ہی میں موٹر وے پر آنے والے اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعے نے کافی ہنگامہ مچایا ہوا ہے سوشل میڈیا اور ملک بھر میں ہونے والے احتجاج میں ملزمان کو سرے عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے کافی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعہ کو ہونے کی ایک اہم وجہ پاکستان میں موجودلا قانونیت ہے یہاں کے لوگوں کو قانون کا کوئی خوف نہیں جبکہ یہی پاکستانی چاہے پڑھے لکھے ہیں یا ان پڑھ جب یورپ یا عرب ممالک میں کام کرنے جاتے ہیں تووہاں کے ہر قسم کے قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ خلاف ورزی کے نتا?ج سنگین ہو سکتیہیں اس لیے قانون کا خوف انہیں غلط کام کرنے سے روکتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کا کردار کمزور ہو سکتاہے لیکن نتائج کا خوف اسے حیوانیت اور بربریت سے باز رکھے گا۔ ساتھ ہی اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آدمی اسی وقت تک نیک بنارہے گا جب تک خوف ہو جیسے ہی خوف ختم وہ وہی کرے گا جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کی پرورش کے عمل پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اکثر بچے غلط کام کرنے سے پرہیز اس لیے کرتے ہیں کیونکہ انہیں پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے یا والدین کی ناراضگی کا ڈر انہیں روک لیتا ہے یا پھر اپنی کچھ آسائشوں کے چھن جانے کو دھمکی کی وجہ سے برے کاموں سے بعض رہتے ہیں۔
مذہبی فرائض میں با قاعدگی کے ل?ے بھی اکثر ثواب کا یا جنت کا لالچ دیا جاتا ہے یا گناہ اور دوزخ کے خوف سے ڈرایا جاتا ہے لیکن اللہ کی محبت کا باعث اس کو یاد میں رہنا عام طور سے نہیں سکھایا جاتا۔حضرت رابعہ بصریٰ 714-801عباسیوں کے عہد میں رہنے والی ایک مشہور شخصیت اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں ”اے میرے رب!اگر میں جہنم کے خوف سے تیری عبادت کروں تو مجھے جہنم میں جلا دے اگر میں جنت کی امید سے تیری عبادت کروں تو مجھے جنت سے خارج کردینا۔ اگر میں صرف تیرے لیے ہی عبادت کروں تو اپنے جمال جاودانی کو مجھ سے چھپائے نہ رکھنا“۔
اگر ایک قوم کی حیثیت سے ہم ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جہاں لوگ صرف خوف ہی کو بنیاد پر صحیح کام نہ کریں بلکہ صحیح اور غلط کے فرق کو سمجھیں تو ہمیں اپنے بچوں کی پرورش کے طرز کو بدلنا ہوگا ہمیں اپنے بچوں سے گفتگو کرنی ہوگی کہ کیا ہم انہیں کیوں بعض کاموں سے منع کرتے ہیں اور بعض کاموں کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں یہاں اس بات کو سمجھنا اہم ہے کہ گفتگو اور واعظ میں فرق ہے وعظ کرتے وقت والدین بولتے ہیں اور بچے سنتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ٹھیک ہے آئندہ خیال رکھیں گے۔جبکہ گفتگو میں جس وقت والدین بولتے ہیں بچے سنتے ہیں اور جب بچے بولتے ہیں۔
تو والدین غور سے سنتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک صحتمندانہ گفتگو کے لئے باہمی سمجھ اور برداشت کا مظاہرہ لازمی ہے اس طرح کی گفتگو کو گھر کے ماحول کا حصہ بنا لینے سے بچوں کے کردار کی نشوونما ہوگی وہ سمجھ پائیں گے کہ صحیح اور غلط میں فرق کیا ہے۔پاکستان کو سخت قوانین کی تو ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی ایسے شہریوں کی بھی ضرورت ہے جو صحیح معنوں میں انسان ہوں جو زندگی میں حکمت سے کام لیں ناکہ صرف نتائج کے خوف کے زیر اثر صحیح کام کرنے کو پسند کریں۔