ملک کا سب سے بڑا یعنی 47فیصدرکھنے والا صوبہ بلوچستان کو دیگر صوبوں کی نسبت جی ٹی اور موٹر ہائی ویز سے مکمل طورپر محروم رکھا جارہا ہے۔ کوئٹہ تا کراچی‘ کوئٹہ تاتفتان‘ کوئٹہ تا چمن‘کوئٹہ تا ژوب ڈیرہ اسماعیل خان کوئٹہ تا جیکب آباد‘ کوئٹہ تا تربت کی شاہرائیں جن پر آج کے اس تیز رفتار دور میں ہزاروں چھوٹی بڑی گاڑیاں ایک صوبے سے دوسرے صوبے کے لئے محو سفر ہیں جن میں مسافر اور مال بردار گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں سفر کرتی ہیں۔ جب سے ملک کے دیگر صوبوں میں جی ٹی روڈز کے ساتھ ساتھ موٹر ہائی ویز بنائے گئے۔
بلوچستان کو اس سہولت سے محروم رکھاجارہا ہے اس کے باوجود بلوچستان سے ان صوبوں کیلئے ٹریفک میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔بلوچستان سے لوگوں کی بڑی تعداد کاروبار اور علاج معالجہ کی بہتر سہولیات کے حصول کے لئے بڑے بڑے شہروں کراچی‘ ملتان‘ لاہور‘ اسلام آباد تک ایک دن میں پہنچنے کی سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن جب تک یہ مسافر اوردیگر گاڑی مالکان بلوچستان کی حدود میں جہاں بھی ہوں ایک خوف میں مبتلا رہ کر سفر کرتے ہیں کیونکہ بلوچستان کی تمام قومی شاہراہیں سنگل ٹریک کے حساب سے بنائی گئیں ہیں۔
اب جبکہ ریلوے کے ذریعے دیگرصوبوں کو مال برداری اور بذریعہ ٹرین سفر کا تقریباً تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے اس سے قبل ٹرین کے سفر کو انتہائی آسان اور آرام دہ اور کم خرچ تصور کیا جاتا تھا لیکن اس کو ہمارے ”لائق فائق“ وفاقی وزراء برائے ریلوے نے ایسا تباہ و برباد کرکے چھوڑا ہے کہ کم از کم بلوچستان میں بذریعہ ٹرین سفر کا رحجان تقریباً ختم ہوچکا ہے گوکہ ٹرین کرایہ انتہائی کم ہے لیکن سفر کی سہولت اور سفری خرچہ کو دیکھا جائے تو سفر راحت کی بجائے زحمت کا باعث بنتا ہے۔کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد لاہور کا بذریعہ سڑک سفر آج کل دس سے بارہ گھنٹوں میں محیط ہو کر رہ گیا ہے۔
لیکن ”مہربان کے تانگہ“ کی رفتار سے چلنے والی مسافر ٹرین چاہے کراچی کیلئے ہوں یا لاہور اسلام آباد کیلئے 36گھنٹوں سے زیادہ میں سفر طے کرتی ہیں اگر خوش قسمتی رہی تو ان اوقات میں مسافر اپنی اپنی منزلوں پر پہنچ پاتے ہیں،اگر روڑی جنکشن سمیت پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں کراچی‘ لاہور‘ کراچی پشاور کی آنے اور جانے والی تیز رفتار ٹرینوں کو کراسنگ دینا مطلوب ہو تو بلوچستان کی ٹرینوں کو اسٹیشنوں پر نصف گھنٹے تک روکے رکھنا اب اچھنبے کی بات نہیں مطلب بڑے شہروں کی ٹرینوں کو محض راستہ دینے کی خاطر بلوچستان کی ٹرین کو سائیڈ پر کرکے روک کر زیادتی کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔
کیونکہ بلوچستان کو وفاق کی سطح پر جہاں دیگر زیادتیوں اور نا انصافیوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے وہ بھی ستر کی دہائیوں سے اب ایک ٹرین کو سائیڈ پر روکنا ریلوے حکام کی نظر میں کوئی زیادتی والی بات ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ریلوے حکام کی ان زیادتیوں کے باعث عوام نے سستی ٹرین سفر کو تقریباً ترک کرکے پرائیویٹ بسوں کے ذریعے سفر کو اپنا مقدر جان کر اپنایا ہے جہاں انہیں بھاری کرایہ دینا پڑتا ہے بلوچستان کی ٹرینوں کی بد صورت حال ہے تو بلوچستان کی قومی شاہرائیں کس طرح کی ہوں گی،گوادر کو خضدار سے رتو ڈیرو لاڑکانہ ملانے والی سڑک لگ بھگ 29سالوں سے زیر تعمیر ہے کہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
اسی طرح کوئٹہ ژوب براستہ ڈیرہ اسماعیل خان کی سڑک بھی اب تک مکمل ہونے کا خواب پور انہیں ہورہا اس لیے کہ جب یہ صوبہ تین صوبوں کی نسبت 47%رقبہ رکھنے کے باوجود نیشنل ہائی وے کا ہیڈ آفس کوئٹہ میں نہیں ہوگا تو پھر اسلام آباد کے ائیر کنڈیشن کمروں میں بڑے بڑے چئیرمین صاحبان کو کیونکر بلوچستان کے عوام سے ہمدردی ہو سکتی ہے بقول سوشل میڈیا کی ایک وائرل کے مطابق وفاقی حکومت بلوچستان کے وسائل تو اس کے رقبے کے لحاظ سے لے جارہی ہے جبکہ فنڈ دیتے وقت اسے بلوچستان کی قلیل آبادی کا بہانہ ہاتھ آجاتا ہے۔
بلوچستان کے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ ”بلوچستان کی نازک صورت حال“ کے پیش نظر لاء اینڈ آرڈر کے قیام پر صرف ہورہا ہے جو کہ لاکھوں میں نہیں بلکہ اربوں میں جاپہنچا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ ہر سال اس فنڈ میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے یہی وجہ ہے کہ صوبہ خود بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ صوبے کے چھوٹے بڑے شہروں کی سڑکوں کے لئے فنڈ زمختص کرے،وفاق ایک ہاتھ سے بجٹ دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لینے کے نت نئے طریقہ جانتاہے اسے واپڈا سے وصولی کرنی ہو تو اسلام آباد میں بیٹھ کر بجٹ سے کٹ لگا کر وصولی کی جاتی ہے۔
جب بلوچستان سوئی گیس‘ سیندک پراجیکٹ حب ڈیم سمیت دیگر معدنیات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے حساب مانگے تو جواب ندارد؟ یہ بڑے بڑے منصوبے بشمول گودار پورٹ ملک کی معیشت کو سہارا دینے میں جس طرح اپنا حصہ ڈال رہے ہیں جواباً مرکز سے اچھی خبریں دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتیں۔ بلوچستان ملک کا وہ خوش قسمت صوبہ ہے جس کی دو ممالک سے یعنی افغانستان اور ایران سے سرحدیں ملتی ہیں لیکن افسوس کہ ہم ان ممالک سے کوئی با قاعدہ ٹریڈ تک نہیں کررہے بلکہ بلوچستان کے عوام کو اس کی اجازت تک نہیں،چائیے تو یہ تھا کہ وفاقی حکومت صوبے کے تاجروں کو بارڈر ٹریڈ کی اجازت دے کر زرمبادلہ کی صورت میں اربوں ڈالر وصول کرتی لیکن شومئی قسمت کہ بلوچستان اس سے محروم چلا آرہا ہے البتہ حکومتوں کو یا بیورو کریٹس ”بارڈر سمگلنگ“ سے زیادہ حصہ مل رہا ہے۔
جس میں ملک کے لئے نہیں ”افرادی کمائی“ کا عنصر زیادہ شامل ہوتاہے۔ وفاق کو دوبرادر ممالک سے بذریعہ سڑک اور ٹرین کیلئے جدید ٹرینیں ایران اور ترکی تک چلا کر اربوں روپے کمانے کی ضرورت تھی لیکن اس پہلو پر آج تک نہ تو غور کیا گیا اور نہ مستقبل میں کیا جائے گا۔اگر ایران کے راستے جدید تیز رفتار ٹرین یورپ تک یا ترکی تک چلائی جائیں تو اربوں روپے کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے لیکن ہماری حکومتوں اور ان میں موجود نمائندوں کی محدود سوچ کی وجہ سے یہ منافع بخش پہلو نظر انداز کیا جارہا ہے۔دوسری طرف لوگ جیسے تیسے کرکے بذریعہ سڑک صوبوں کو جاتے ہیں۔
تو انہیں موت کا خطرہ لاحق ہوتا ہے کیونکہ ان سنگل سڑکوں پر اب تک سینکڑوں افراد خوفناک حادثات کی شکل میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ان میں مکران کے کمشنر طارق زہری سمیت سینکڑوں افراد آتشزدگی کے نتیجے میں جل کر شہید ہوئے مکران سے کراچی جانے والی بسیں حب کے قریب آتشزدگی کے باعث اس میں سفر کرنے والے تقریباً دو مرتبہ مسافر جل کر راکھ ہوگئے،ان خونی حادثات پر وقتی طورپر شور وغوغا اٹھتا ہے اس کے بعد پھر خاموشی‘ اور بلوچستان کی سڑکوں کو دو رویہ بنانے کی بات ختم ہو کررہ جاتی ہے۔
جبکہ لوگ آئے دن حادثات کا شکار ہورہے ہیں سوشل میڈیا پر بلوچستان کے عوام نے کوئٹہ کراچی سمیت دیگر بڑی شاہراہوں کو”خونی شاہرائیں“ قرار دیتے ہوئے استدعا کی ہے کہ بلوچستان کے عوام لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں۔ چند روز قبل کوئٹہ کراچی روڈ پر قلات کے فٹبالرز جن کی تعداد تین تھی المناک حادثے میں شہید ہوئے،سال دو سال قبل بھی فٹبالروں کی وین حادثے کا شکار ہوئی تھی جس میں متعدد فٹبالر شہید ہوئے تھے، گزشتہ روز کوئٹہ سے تفتان جانے والی کار گاڑی حادثے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے تین افراد بشمول کار ڈرائیور موقع پر ہی شہید ہوگئے۔
اب تک چند سالوں میں جس قدر اموات ہوئی ہیں ہم نے سمجھا کہ حکومتیں ان ہلاکتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عوامی مطالبات کو پذیرائی دیتے ہوئے شاہراہوں کو دو رویہ بنانے کے لئے فنڈ زمختص کریں گی لیکن طفل تسلی تو کجا اس بارے میں کچھ دینے کے موڈ میں نہیں بلکہ یوں کہیے کہ اس کے حق میں نظر نہیں آتے۔اب یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا بلوچستان کے ساتھ زیادتیاں کب تک جاری و ساری رہیں گی،لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہوتے رہیں گے حکمران محض جھوٹ پر جھوٹ بولتے نظر آئیں گے اور کچھ نہیں میری اس بات کو آزادی کے اندرونی صفحات پر چھپنے والے میرے دوست ولی محمد زہری کے آرٹیکل سے بھی تقویت ملتی ہے۔
یا اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ بقول ان کے بلوچستان کی ترقی کے نام پر حکمران محض ڈرامے بازیاں کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے اب یہ دیکھئے کہ وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان کا صرف اور صرف ایک روزہ دورہ کیا، ہمارے حکمران ان کے آگے محض جی حضوری کرتے نظر آئے کسی بھی جانب سے بلوچستان کی خونی شاہراہوں کے بارے میں آواز بلند نہیں کی گئی حالانکہ یہ وزیراعظم کے گوش گزار کر نے کا بہتر موقع بھی تھا اس آواز کو مشترکہ طورپر بلند کیا جاتا تو اس مطالبے کی منظوری میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آتی لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے ایسا کوئی عمل یا مطالبہ تک سامنے نہیں آیا۔
وزیراعظم کے دورے پر صرف یہ کہاجا سکتا ہے کہ انہوں نے بطور ہیڈ ماسٹر ایک پرائمری سکول کا سرسری دورہ کرکے جائزہ لیا اور کچھ نہیں یعنی وزیراعظم صاحب آئے ایک میٹنگ کی دوپہر کا کھاناکھایا‘ سہ پہر کی چائے نوش فرما کر یہ جاوہ جا‘ اس کے باوجود حکمران بلوچستان کی ترقی کے دعووں سے بازنہیں آتے،وہ اکسویں صدی میں بھی اور اس تیز رفتار دور میں بھی اس طرح دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں جیسے بلوچ عوام پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں آج وہ لوگوں کی حرکات و سکنات سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون راست گو ہے اور کون ڈرامے باز؟