|

وقتِ اشاعت :   September 21 – 2020

چند روز قبل ایک ٹیلی ویژن چینل پر سینئر صحافی وسعت اللہ خان نے ایک کالر کے سوال کا جواب دیا جسکے بعد ہمارے سندھی دوست اتنے جذباتی ہوئے کہ جسکی کوئی حد نہیں گو کہ میں ذاتی طور پر وسعت اللہ خان کی شخصیت اور انکے کا م کا مداح ہوں اور اس دن جو بات انہوں نے کی اس سے میں ایک سو ایک فیصد متفق تھا لیکن اپنے ہی پروگرام میں وسعت اللہ خان نے سندھ دھرتی کو اپنی ماں کہہ کر غیر مشروط معافی مانگ کر جس بڑے پن کا ثبوت دیا،یہ واقعی ان کا ہی ظرف تھا اسلئے اب اس معاملے پر کسی بحث میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن اس معاملے نے مجھے کچھ لکھنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔

اور یہ بھی جانتا ہوں جیسے ہمارے سندھی دوست گھوڑا اڑے گھوڑا کرتے وسعت اللہ خان پر پل پڑے تھے کچھ ایسا ہی رد عمل مجھے بھی ملے گا لیکن بقول شاعر میں اس شہر کا وہ فسادی ہوں جو دیکھتا ہوں کہنے کا عادی ہوں کے مصداق میں اپنے دل کی بات لکھوں گا بھی اور اس کا دفاع بھی کرونگا۔جن دو صوبوں سے میرا تعلق بہت قربت کا ہے وہ میری اجداد کی سرزمین بلوچستان اور سندھ ہیں،میں رند قبیلے کی اس نسل سے ہوں جومیر چاکر خان رند کیساتھ سبی سے چلے تھے لیکن پھر پلٹ کر سبی نہ آسکے، رند قبیلے میں ہمارا طائفہ چاکرانی کہلاتا ہے۔ بحرحال میں قبائلیت یا قومیت کا اتنا قائل نہیں اسلئے اس بات سے آگے بڑھتا ہوں کیونکہ جیسے سندھ کے معاملے پر کچھ سندھی دوست وسعت اللہ خان کیخلاف سوشل میڈیا پر فعال ہوئے کہیں ویسا ہی حشر میرا بھی نہ ہو لیکن نہیں ہوگا۔

کیونکہ میں اتنا معروف نہیں ہوں۔چلیں دو باتیں بہت وضاحت سے سن لیں نہ ایم کیو ایم کو سندھ میں الگ صوبہ چاہئے نہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو بلوچستان کے پشتونوں کیلئے الگ صوبہ دونوں جماعتوں کی سیاست کی بقاء صرف اس جذباتی نعرے میں ہے ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اسکی دلیل موجود ہے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو گزشتہ دور حکومت میں میاں نواز شریف کی اتنی قربت حاصل تھی جتنی کے کبھی کیپٹن ر صفدر کو بھی نہیں ملی ہوگی لیکن اسکے باوجود پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے بلوچستان کے پشتونوں کیلئے بلوچستان میں علیحدہ صوبے کیلئے ایک قرار داد تک پیش نہ کی لیکن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں اس نعرے پر ووٹ ضرور سمیٹے تھے۔انہی دنوں پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سر براہ محمود خان اچکزئی ہر دوسری بات پر بلوچ ماما کو مخاطب کرکے کہتے تھے۔

ہمیں الگ ہونے پر مجبور نہ کریں تو اس زمانے میں میں نے بذات خود ایک آرٹیکل لکھا تھا اور ملی مشر محمود خان اچکزئی کو کہا تھا کہ وہ بلوچستان میں پشتونوں کے علیحدہ صوبے کیلئے آئینی اور قانونی طریقہ استعمال کریں سب سے پہلے مشر کا وکیل میں بلوچ بنوں گا اور ہر بلوچ سیاسی رہنماء سے دست بستہ درخواست کرونگا کہ بلوچستان میں بسنے والے پشتون اگر اپنی علیحدہ شناخت یا پھر موجودہ خیبر پختونخوا کیساتھ جانا چاہتے ہیں تو بلوچ کو چاہئے کہ وہ اس مطالبے کی حمایت کریں لیکن اسکے لئے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو موجودہ دور کے حالات کو دیکھتے ہوئے بولان تا چترال کے نعرے سے تھوڑا پیچھے ہٹنا پڑیگا۔

لیکن چونکہ سیاسی سلوگن پر عمل کرنا نہیں تھا تو پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے دو ہزار تیرہ سے اٹھارہ تک بلوچستان اسمبلی میں ہر معاملے پر بات منوائی لیکن منشور کا اہم نکتہ یعنی بلوچستان کے پشتونوں کے علیحدہ صوبے کے نعرے پر عمل نہ کرکے اپنی صوبے میں دلچسپی کو ظاہر کردیا اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی جانتی ہے کہ نہ تو وہ خیبر پختونخواکیساتھ چل سکتے ہیں نہ توبلوچ ماما سے علیحدہ ہوکر اس ریونیو کو کھونا چاہتے ہیں جو بلوچ علاقوں کے ساحل وسائل سے ابھی بلوچستان کو مل رہے ہیں تو اسلئے نئے صوبے کو چلانا کوئی مذاق نہیں،اسلئے علیحدہ صوبہ صرف سیاسی سلوگن ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اب بات کرتے ہیں ایم کیو ایم کی کہ وہ کیوں ایسا کریگی جی سن لیں، ایم کیو ایم کا ہمیشہ طعنہ ایک ہی بات کا ہے کراچی پاکستان کی معیشت کا ستر فیصد دیتا ہے۔


بالکل اتنا کنٹری بیوشن کیوں ہے کیونکہ پورے پاکستان کی تجارت کراچی سے ہوتی ہے اور پورے پاکستان سے آنے والی فصلات ہوں یا را مٹیریل چاہے ملک میں آئے یا جائے اسکا مرکز کراچی ہے۔ ذرا سوچیں اندرون سندھ پنجاب بلوچستان یا خیبر پختونخواہ کا تاجر اور کسان کراچی کے راستے مال بھیجنا اور منگوانا چھوڑ دے تو کیا کراچی کی صنعتیں پھر بھی چلیں گی،کیا کراچی پھر بھی معاشی حب کہلا سکے گا، نہیں اور ہاں اگر ایم کیو ایم کراچی یا سندھ کے شہری علاقوں کے الگ صوبے میں دلچسپی رکھتی تو انیس سو ننانوے سے دو ہزارآٹھ تک وہ جنرل ر پرویز مشرف کی آنکھوں کا تارا تھی۔

اتنی محبت جنر ل (ر) پرویز مشرف کو اپنے صاحبزادے بلال سے نہ تھی جتنا کہ وہ ایم کیو ایم سے پیار کرتے تھے۔ ایم کیو ایم نے اس دور میں کراچی کے ایک ضلع وسطی اور حیدر آباد کے شہری علاقوں کے علاوہ ان دو بڑے شہروں کے گرد و نواح میں آباد علاقوں یا اقوام کو کیا دیا کچھ نہیں اسلئے صرف ضلع وسطی یا چند علاقوں یا پھر کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ضرور ہے لیکن ہر اردو بولنے والا بھی علیحدہ صوبہ نہیں چاہتا اور یہاں بھی حالات بلوچستان والے ہیں۔کراچی کا سارا کاروبار یا یہاں سے اکھٹا ہونے والا ریونیو پورے پاکستان کا ہے اگر تین صوبے کے تاجر اور کسان اپنے معاملات کراچی سے سمیٹ لیں تو سوچیں کیا ہوگا۔

اسلئے صرف دو اضلاع یا اکثریت کی بنیاد پر ایم کیو ایم الٹی بھی لٹک جائے کراچی صوبہ نہیں بنے گا اور اگر بنا نے کی کوشش ہوئی تو خون خرابہ ہوگا کیونکہ کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ضرور ہے لیکن یہاں آباد پورا پاکستان ہے، ہر رنگ و نسل کے لوگ یہاں آباد ہیں۔ یہ دو جماعتیں یعنی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم ایسا کبھی نہیں کرینگی کہ سونے کے انڈے دینے والے صوبوں میں اپنے لئے علیحدہ صوبہ بنانے کیلئے مرغی ہی ذبح کردیں اسلئے سندھ اور بلوچستان کے جذباتی دوست اپنے جذبات کو ذرا قابو میں رکھیں۔لیکن میری بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔

زندگی میں جس سیاسی شخصیت کے سحر میں جکڑا رہا ہوں انکا نام میر غوث بخش بزنجو ہے اور ایسا کیوں ہے کیونکہ جب زمانہ طالب علمی میں سیاست اور صحافت میں قدم رکھا تو ماما صدیق بلوچ مرحوم نے میری رہنمائی کی اور وہ میر غوث بخش بزنجو کے مداح تھے انہوں نے بتایا کہ میر غوث بخش بزنجو کتنے ویژنری انسان تھے اسکے بعد سمجھ آئی کہ میرغوث بخش بزنجو مرحوم کی سیاست میں حقیقت پسندی بہت تھی،وہ وقت اور حالات کی نزاکت کے ساتھ فیصلے کرتے تھے انکی سیاست میں ضد اور انا نہیں تھی۔ میر غوث بخش بزنجو نے ریاست قلات کے وزیر اعظم کی حیثیت سے الحاق پاکستان کی مخالفت کی لیکن جب ریاست قلات کا الحاق ہوا تو میر صاحب نے کبھی پاکستان کیخلاف مسلح بغاوت نہیں کی، وہ اپنے جائز جمہوری اور سیاسی حقوق کی جدوجہد مرتے دم تک پاکستان کی فیڈریشن کیساتھ رہنے کے حوالے سے کی۔

ستر میں بھٹو نے انہیں گورنر کے عہدے سے معزول کیا اور حیدر آباد سازش کیس میں بند کردیا لیکن وہ جمہوریت کی بحالی کی تحریک کیلئے بے نظیر بھٹو کو کلفٹن سے لیکر لیاری آئے، ایسے ہی فیصلوں پر مخالفین نے انہیں بابائے مذاکرات بھی کہا لیکن آج وقت ثابت کررہا ہے کہ وہ واقعی بابائے بلوچستان تھے۔ میر غوث بخش بزنجو کے فکر بزنجو کے فلسفے سے ایک بات جو میں نے سیکھی اور ایک مرتبہ انکے فرزند میر حاصل خان بزنجو کے منہ سے بھی سنے کہ بدلتے وقت کیساتھ اگر ہم نے ترقی کے تیز دور میں تیراکی نہیں سیکھی تو ترقی کا سیلاب ہمیں بہا لے جائیگا،یہ بات انہوں نے سی پیک کے حوالے سے ایک دن ایک پر مغز بحث کے اختتام پر کہی تھی اور میری نظر میں میر غوث بخش بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو اپنے فیصلوں اور اپنی سیاست میں درست تھے۔

میری زاتی رائے یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات سے نمٹنا ہے اور لسانیت اور فرقہ واریت کی روک تھام کیلئے ایک بات دہرانا ضروری کہ پاکستان چار قومیتوں نے نہیں بنایا یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اسلئے لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم کو ختم کرنے کی ضرورت ہے،اسلئے پاکستان کو اس تقسیم سے نکالنے کیلئے ملک میں مزید ایڈمنسٹریٹو یونٹس وقت اور حالات کی ضرورت ہیں لیکن اگر اس پر اتفاق رائے نہیں ہوتا ہے تو کم از کم جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ ماڈل کو سندھ اور بلوچستان میں کم از کم ضرور آزمایا جائے۔

کراچی کے علاوہ سکھر میں ایک سیکریٹریٹ قائم کیا جائے تاکہ عوام کو ہر کام کیلئے کراچی نہ آنا پڑے، ایسے ہی اب سی پیک اور گوادر کی ترقی کے بعد بلوچستان میں ساؤتھ کے علاقے بالخصوص تربت میں ایک سیکریٹریٹ ضرور قائم کیا جائے جہاں ایک پوری ٹیم موجود ہو کیونکہ تربت یا مکران ڈویژن کے لوگوں کو اس ترقی یافتہ دور میں ہر معاملے کیلئے کوئٹہ آنے کی ضرورت نہ پڑے اور سی پیک کے بعد تو اب اسکی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے اسلئے آنے والے دنوں میں ضرورت بھی پڑ سکتی ہے اسلئے پاکستان کی ترقی کیلئے ہمیں جذباتی لسانی سوچ سے بالاتر ہوکر مستقبل کی راہوں کا تعین کرنا ہوگا۔

جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کا ماڈل جہاں پسماندہ جنوبی پنجاب کیلئے آنے والے دنوں میں بہتر ہوگا اسلئے کہ لوگوں کو ہر معاملے کیلئے لاہور کا رخ نہیں کرنا پڑیگا کچھ ایسا ہی معاملہ سندھ اور بلوچستان کیلئے بھی سوچنے کی ضرورت ہے، اس سے صوبے میں گورننس کو بہتر بنانے اور کام کی رفتار کو تیز کرنے میں مدد ملے گی، یہاں تک ان اقدامات سے پسماندہ جنوبی پنجاب،اندرون سندھ اور پسماندہ بلوچستان بالخصوص نظر اندازمکران ڈویژن کو اس وقت اسکی شدید ضرورت ہے اسلئے ہمیں اپنے مستقبل کے فیصلے لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہوکرکرنے ہونگے۔

ورنہ بیرونی دشمن ہمیں لسانی تقسیم میں الجھا نے کی کوشش کرتا رہیگا اور جہاں تک رہ گئی بات شناخت کی تو موجود صوبوں کے نام موجود رہیں گے اسکے اندر ایڈمنسٹریٹویونٹس یا بااختیار سیکریٹریٹس قائم کرکے لوگوں کو انکے مسائل کا حل انکی دہلیز پر دیں،نہ شناخت مٹے گی نہ مسئلہ ہوگا اور صوبائی حکومت کے کابینہ کے اجلاس ہر صوبے کے ہر ڈویژن میں باری باری ہوتے رہیں یہاں تک کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس بھی صوبوں میں منعقد کئے جائیں،اس سے مسائل کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔

یہاں تک کہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی کو باری باری انکے صوبے میں منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مدعو کیا جائے۔ اگر ہم بڑے فیصلوں کو جذبات کی نظر کرتے رہے تو بہت سی چیزوں کو وقت کا بہاؤ بہا لے جائیگااسلئے جذبات کے بجائے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ضد اور انا سے بالاتر ہوکر عوامی خدمت کیلئے بڑے فیصلے کرنے ہونگے،چاہے وہ مزید صوبے ہوں، ایڈمنسٹریٹو یونٹس ہوں یا ایڈیشنل سیکریٹریٹس، نظام کو بہتر بنانے کیلئے چیزوں کو نئے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔