|

وقتِ اشاعت :   September 22 – 2020

سرائیکی خطہ جسے انسانی تاریخ کی پہلی مہذب سلطنت کا اعزاز حاصل ہے جو کسی زمانے میں امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کے پیار،خلوص،مہمان نوازی،جوانمردی،خودی داری و عزت کی مثالیں پاکستان بھر میں دی جاتی تھیں۔ آج وہ وسیب شرپسند عناصر، لاقانونیت،من گھڑت سرداری نظام کی وجہ سے ظلم و بربریت کا شکار ہے۔اس وسیب میں اب نہ تو راہ چلتا مسافر محفوظ ہے،نہ حوا کی عزت دار بیٹی، نہ سکول کالج کا طالب علم۔اس وسیب میں چوروں کا راج ہے، ڈاکوؤں نے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے۔آئے روز کسی نہ کسی چوراہے۔

پر کسی ماں کا لال،کسی بہن کا بھائی،کسی گھر کا سرپرست ان درندوں، ظالموں کی وجہ سے موت کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ لواحقین لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں۔جس معاشرے سے انصاف ختم ہو جائے، جہاں تھانے میں بیٹھا ہوا محرر ایف آئی آر لکھنے کے ہزاروں روپے لیتا ہو،جہاں غریب کو تھانے کے اندر نہ آنے دیا جاتاہو، جہاں ایسے ناسور لوگوں کی سرپرستی ایک مقامی کونسلر سے لے کر، ایم پی اے، ایم این اے، حکومتی وزراء کرتے ہوں وہاں اس طرح کے واقعات کا ہونا معمولی سی بات ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔

جو قانون کا نفاذ صرف کمزور پر کرتی ہیں اور طاقتور کو چھوڑ دیتی ہیں۔ چاہے وراثت کا مقدمہ ہو یا قتل کا، زمین کا تنازہ ہو یا عزت و آبرو کا، چوری کا مقدمہ ہو یا ڈکیتی کا انصاف کئی کئی برس تک نہیں ملتا۔قاتل، ڈاکو، لٹیرے، چور راہزن قیمتی وکیل کرکے قانونی پیچیدگیوں کو استعمال کرتے ہوئے مقدمات کو برسوں گھسیٹ کر سزا سے بچ جاتے ہیں۔ دوسری طرف یہاں کے منتخب نمائندے سفارش یا رشوت کے ذریعے جرائم پیشہ لوگوں پر مقدمہ تک نہیں ہونے دیتے۔ ابھی کچھ دن پہلے سرائیکی وسیب کے شہر، ضلع راجن پور کے علاقے داجل میں ڈاکوؤں نیخواجہ فرید یونیورسٹی کے بی ایس کے طالب علم کو اندھا دھند فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

اس مقتول نوجوان سے چند روز پہلے ملزمان نے اسلحہ کے زور پرہونڈا 125 موٹر سائیکل چھینا تھا، وہ مقامی تھانے کے چکر کاٹ رہا تھا کبھی اسے اگلے روز آنے کو کہا جاتا تو کبھی یہ کہا جاتا کہ آج وقت نہیں ہے لیکن پھر بھی کاروائی نہ کی گئی اور تھانے سے واپس گھر جاتے ہوئے تاک میں بیٹھے ان ظالموں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ صوبائی وزیر آب پاشی سردار محسن خان لغاری، صوبائی وزیر لائیو سٹاک سردار حسنین بہادر دریشک، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور سابق ڈپٹی سپیکر شیر علی گورچانی کا ہے کاش اگر ان جرائم پیشہ افراد پر مقدمہ ہو جاتا انہیں گرفتار کرکے قانون کٹہرے میں لایا جاتا تو یہ نوجوان قتل نہ ہوتا۔

اسطرح کا دوسرا واقعہ سابق صدر مرحوم فاروق لغاری کے علاقے میں ہوا جہاں ظالم درندوں نے بوڑھے بزرگ اور بوڑھی عورت کے دونوں ہاتھ کاٹ کر انہیں ہمیشہ کیلیے محتاج اور معزور بنا دیا۔ اگر قانون ہوتا،انصاف کیلیے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں، درندوں کو سزاؤں کا خوف ہوتا، ظالم جابر سیاستدانوں و حکمرانوں کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو یقیناً آئے روز ایسے واقعات رونما نہ ہوتے۔سرائیکی وسیب کے ایک اور شہر ضلع بہاول پور میں 20 سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ لڑکی تھانے کے چکر لگاتی رہی لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔

جس کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر اس نے خود کشی کرلی تاکہ کل اس کا باپ اس کی وجہ سے شرمندہ نہ ہو بلکہ دنیا کے سامنے آنکھ اٹھا کر بات کر سکے یہ شہر بھی وفاقی وزیر خسروبختیار اور صوبائی وزیر ہاشم جواں بخت کا ہے لیکن ان موصوفین کی جناب سے لفظ مذمت بھی نہیں کہا جا سکا۔ اپر پنجاب میں ہائی وے پر عورت سے زیادتی ہوئی پورا میڈیا چیخ رہا تھا وزیراعلیٰ پنجاب نے ہنگامی پریس کانفرنس کی،سوشل میڈیا پہ یہ مسئلہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔سرائیکی وسیب میں آئے روز اسطرح کے واقعات ہو رہے ہیں نہ تو سرائیکی وسیب سے جانے والے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر جوں رینگتی ہے۔

نہ یہاں سے منتخب ایم این اے، ایم پی اے و وزراء کی طرف سے کوئی ری ایکشن آتا ہے اور نہ اس وسیب کے لوگ جاگتے ہیں نہ کوئی احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں نہ کوئی میڈیا پہنچتا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ سرائیکی وسیب ابھی تک بھی تخت لاہور کا غلام ہے جو اس وسیب کے تقریباً 40 ایم پی ایز اور 25 ایم این ایز، وفاقی و صوبائی وزراء اور خاص کر وزیرا علیٰ پنجاب کیلیے شرم کا مقام ہے۔ حضرت علی کا یہ قول بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ معاشرے کفر سے نہیں ناانصافی اور ظلم سے تباہ ہو جاتے ہیں۔ہمارے ہاں نظام انصاف کی سب سے بڑی خرابی عدل و انصاف کے قوانین کا غیر مؤثر اور فرسودہ نظام ہے۔

ہمارا عدالتی نظام آج بھی 1861 میں تشکیل پانے والے مجموعہ تعزیرات پر قائم ہے۔سالہا سال تک مقدمات چلنے کے بعد بھی فیصلے نہیں ہو پاتے۔سائلین عدالتوں میں انصاف کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن انہیں پھر بھی انصاف نہیں مل پاتا، ان کی آنے والی نسلوں کو بھی تاریخ پر تاریخیں دی جاتی ہیں۔ ہمارا پولیس ایکٹ 1861 عصر عاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بالکل صلاحیت نہیں رکھتا،پولیس گردی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔جو شریف ہیں ان پر آئے روز جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں جو اصل مجرم ہیں ان کی سرپرستی کی جاتی ہے۔پولیس کو “فورس” کی بجائے “خدمت گار” بنانے پر خاص توجہ دی جانی چاہیے تاکہ غریبوں کو تھانوں اور عدالتوں کے دھکے کھانے کی بجائے آسان اور سستا انصاف مل سکے۔

اس سفاکانہ عدالتی نظام کی ایک اور وجہ وکالت کا پیشہ ہے۔اس پیشے کا مقصد صرف اور صرف جھوٹ بول کر مقدمات کو طول دینا اور پیسے بٹورنا جس سے انصاف کا جنازہ نکلتا ہے۔اس نظام کی بنیاد ایسے رکھی گئی ہے کہ جج وکیلوں کے دلائل اور شہادتوں کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے جج بذات خود تحقیق نہیں کر سکتا بلکہ جھوٹی گواہی اور وکیلوں کے پیچیدہ دلائل کو بنیاد بنا کر فیصلے کرتا ہے،اس عدالتی نظام نے صرف سرائیکی وسیب کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا نظام درہم برہم کردیا ہے۔ عبداللہ ابن عمررضی سے مروی ہے کہ “نبی کریم نے فرمایا جب تم یہ دیکھو کہ میری امت کسی جابر کو اس کے منہ پر جابر کہنے سے خوف زدہ ہے۔

تو سمجھو کہ اس امت کو چھوڑ دیا گیا ہے”۔نبیوں نے انسانوں کو حق و باطل کا فرق سکھایا اور سمجھایا لیکن آج لوگ پیسہ معیار اور عہدہ دیکھتے ہیں ان میں ظالم کو ظالم کہنے کی جرات ختم ہو چکی ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ جابر کو ظالم کہنے کی بجائے ان کا دفاع کرتے ہیں ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں یہ ہماری قوم کیلیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ظلم کی مختلف اقسام ہیں جن میں سے ایک ظلم کے سامنے خاموشی ہے جو شخص ظلم دیکھ کر خاموش رہے تو وہ بھی ظالم کے ظلم میں شریک ہے، حق کا ساتھ دینا اور باطل کے خلاف ڈٹ جانا ہر مسلمان کے نمایاں ترین فرائض میں سے ہے۔