|

وقتِ اشاعت :   September 25 – 2020

اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ملکی سیاسی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور یہ بتدریج شدت اختیار کرنے والا ہے کیوں کہ اے پی سی اعلامیہ پر عملدرآمد کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں نے حکمت عملی ترتیب دینا شروع کردی ہے۔ اسلام آباد میں سیاسی جماعتوں کے رہنما ؤں پر مشتمل رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی گئی اور مولانا فضل الرحمن کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا سربراہ بنانے کی تجویز بھی منظور کی گئی جبکہ کراچی میں مولانا فضل الرحمن نے بلاول بھٹو زرداری سے تفصیلی ملاقات کی اور اے پی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔اے پی سی کی پہلی بڑی کامیابی سیاسی قومی اتحاد کی تشکیل ہے جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا ہے۔

یہ ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کی طرز پر تشکیل دی گئی مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم ہوگا جسے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بروئے کار لایا جائے گا۔ اس مرتبہ اپوزیشن جماعتیں کس حد تک ثابت قدم رہتی ہیں یہ ان کی آخر وقت تک اتحاد و یگانگت پرمنحصر ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس مرتبہ انتشار اور ناکامی اپوزیشن جماعتوں کی ساکھ اور بقا ء کو شدید متاثر کرے گا اس لیے سخت گیر فیصلوں سے اجتناب برتنے والے سیاسی رہنما ن لیگ کے صدر شہباز شریف بھی اس مرتبہ اپوزیشن کی کامیابی سے متعلق پر امید ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دفعہ اپوزیشن کے اتحاد کو سیمنٹ لگاکر مضبوط کر دیا گیا ہے۔

اس بار ہم اپنے فیصلوں پر ہر حال میں ثابت قدم رہیں گے۔ لیکن قوم اب تک یہ نہیں بھولی ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن نے پہلے بھی ایک بڑی احتجاجی تحریک کا اعلان کیا تھا اسی طرح ثابت قدم رہنے کی بات کی تھی لیکن جب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کی باری آئی تو جے یو آئی ف کے علاوہ باقی اپوزیشن جماعتوں کے قدم ڈگمگانا شروع ہوگئے تھے، قومی مفاد اور غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کے اندیشے کو جواز بنا کر اپوزیشن خاص طور پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ حکومت کے خلاف جاری دھرنے سے الگ ہوگئے اور پھر اس تحریک کا انجام کیا ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

اے پی سی سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغیر کسی لگی لپٹی کے خطاب نے اپوزیشن جماعتوں اور عسکری قیادت کے درمیان تناؤ اور دوریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ نواز شریف کا اپنی طویل تقریر میں کہنا تھا کہ عمران خان ہمارا ہدف نہیں ہے بلکہ ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے ان کا کہنا تھا کہ ‘ملک میں ریاست کے اندر ریاست کا مسئلہ اپنی جگہ اب معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ گیا ہے ملک میں جمہوریت کمزور ہو گئی ہے عوام کی طاقت اور حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو اس حکومت کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں۔

نواز شریف کے خطاب میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف انتہائی سخت جملوں اور الزام تراشیوں نے حکومت اپنی جگہ،اے پی سی میں شریک کئی سیاسی رہنماؤں کو مخمصے میں ڈال دیا تھا،خود ن لیگ کے صدر شہباز شریف اور لیگی رہنماؤں کو نواز شریف کا اس حد تک بپھرجانے کا شاید اندازہ نہ تھا اے پی سی میں مولانا فضل الرحمن اور قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی نواز شریف کی تقلید کرتے ہوئے سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد اے پی سی کا ماحول نواز شریف کے بیانیہ کے حق میں بدلتا ہْوا نظر آنا شروع ہوا جو آخر میں اعلامیہ کی صورت میں مولانا فضل الرحمن نے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے سامنے بریفنگ کی صورت میں پیش کیا۔

نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مخالف تقریر اور اے پی سی اعلامیہ سے متعلق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نورا کشتی ابھی جاری تھی کہ شیخ رشید نے اپوزیشن رہنماؤں کی عسکری قیادت سے ملاقات کی خبر کا ڈھول پیٹنا شروع کردیا جس سے ایک پینڈورہ باکس کھل گیا، شیخ رشید اپنے مخصوص شاطرانہ انداز میں اس ملاقات کی روداد مختلف ٹی وی چینلز پر پیش کرتے رہے جس سے ملکی سیاست میں ایک ہلچل مچ گئی شیخ رشید کی طرف سے اپوزیشن رہنماؤں کی عسکری قیادت سے ملاقاتوں کی چونکا دینے والی خبریں میڈیا کی زینت بنتی گئیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

پھر سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی آرمی چیف سے دو ملاقاتوں کی خبریں گردش کرنے لگیں جس کی تصدیق آئی ایس پی آر کے ترجمان نے میڈیا میں خود آکر کردی، اس کے بعد شیخ رشید کو جیسے شہ مل گیا، انھوں ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کی عسکری قیادت سے ملاقات کی نہ صرف خبر دی بلکہ یہ دھمکی بھی دی کہ اسے مجبور نہ کیا جائے کہ وہ بیچ چوراہے میں سب کا بھانڈا پھوڑ دیں۔ تسلسل کے ساتھ اپوزیشن رہنماؤں کی عسکری قیادت سے ملاقاتوں اور پھر اس متعلق چھپ ساد لینے کے عمل نے اپوزیشن کے کردار کو مشکوک بنا دیا ہے حالانکہ بلاول بھٹو سمیت کئی رہنما اس متعلق شیخ رشید کے کردار کو سویلین اور عسکری ریلیشن شپ کے لئے خطرہ ظاہر کر رہے ہیں۔

لیکن شیخ رشید اپنے بیانات اور عمل سے یہ ثابت کر رہا ہے کہ جیسے وہ اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر ان ملاقاتوں کے احوالوں کو تضحیک اور طنز کے پیراہن میں لپیٹ کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سیاسی پنڈت اس معاملے کو محمد زبیر کی آرمی چیف سے ملاقات اور خالی ہاتھ واپسی کے بعد اے پی سی میں نواز شریف کی جارحانہ تقریر سے منسوب کر رہے ہیں لیکن جو بھی ہو اس پورے معاملے میں اپوزیشن کی سبکی ہوئی ہے،پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس کے دوران میری طرف سے کیے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی آئندہ کسی بھی نیشنل سیکیورٹی سے متعلق اجلاس کا حصہ نہیں بنے گی جس میں شیخ رشید موجود ہو۔

اے پی سی سے چند روز پہلے پارلیمانی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کو خفیہ رکھنے پر اپوزیشن اس وقت سخت تنقید کے زد میں ہے ایک ایسے وقت میں جہاں اے پی سی کی تیاریاں مکمل تھیں حکومت کے خلاف جارحانہ پالیسیاں ترتیب دی جا چکی تھیں عسکری قیادت سے ملاقات اور اسے خفیہ رکھنا چے معنی دارد، جبکہ اپوزیشن اب تک اس ملاقات سے متعلق اپنے ووٹرز اور عوام کو اعتماد میں لینے سے گریزاں ہے۔ ایک طرف اپوزیشن سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خلاف اے پی سی میں قرارداد منظور کرتی ہے تو دوسری طرف ان کی طرف سے فون کال کی دعوت پر سرخم تسلیم کرکے حاضری یقینی بنائی جاتی ہے اور پھر اسے عوام سے خفیہ بھی رکھتی ہے، اس دہرے معیار کے کردار نے احتجاجی تحریک سے پہلے اپوزیشن کی پوزیشن کو بہت کمزور کردیا ہے۔

اپوزیشن کے مطابق ان کی احتجاجی تحریک تین مرحلوں پر محیط ہے پہلے مرحلے میں ملک بھر میں جلسے اور ریلیوں کا انعقاد،دوسرا مرحلہ جو جنوری میں شروع ہوگا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنا جبکہ تیسرا اور فیصلہ کن مرحلہ سینیٹ،قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفیٰ دینا ہے، اپوزیشن کو پہلے مرحلے کے احتجاج میں بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے کیوں کہ ملکی معروضی حالات کسی بڑے احتجاجی تحریک کے لئے قطعی موافق نہیں۔ کرونا نہ صرف ابھی موجود ہے بلکہ اس کے دوسرے فیز کے آنے کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔

سندھ،بلوچستان،خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں طوفانی بارشوں نے جو تباہی مچاہی تھی متاثرین اب تک اس عذاب سے نجات نہیں پا سکے ہیں، غربت،مہنگائی اور اس پرستم بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کو مصائب کے دلدل میں مزید جھونک دیا ہے، ایسے نامساعد حالات میں عوام کو سڑکوں پرلانا اپوزیشن کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔احتجاجی تحریک کا دوسرا مرحلہ طویل کٹھن اور تکلیف دے ہوگا شدید سرد موسم میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور پھر دھرنا دینا فیصلوں کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن عملی طور پر اتنا آسان نہیں جبکہ آخری مرحلہ جس میں سینٹ،قومی اسمبلی، اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا جو سخت فیصلہ کیا گیا ہے۔


اس میں پیپلزپارٹی سب سے زیادہ نقصان میں جائے گی،ایک ایسی مضبوط صوبائی حکومت جس پر وہ بارہ سالوں سے حکمران ہے،کو اپنے ہاتھوں سے ختم کرنا اپنی بنیادوں کو ہلانے کے برابر ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے لیے یہ زہر کا پیالہ پینے کے مترادف ہوگا لیکن دوسری طرف اپوزیشن کے لیے بھی کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ پارلیمنٹ،عدالتیں، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ سے مکمل مایوسی کے بعد یا تو نیب کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبتوں اور میڈیا ٹرائل برداشت کرو یا پھر آخری معرکہ کے لئے تیاری ہوجاؤ۔ اب یہ وقت ثابت کرے گا کہ اپوزیشن اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرے گی یا ناکامی اس کی مقدر ہوگی۔