|

وقتِ اشاعت :   September 26 – 2020

”سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان“ کی دوسری قسط پیش خدمت ہے جس میں‘ میں نے سنڈیمن سول ہسپتال اور بولان میڈیکل کالج کا خصوصی ذکر کیا اور اپنی زندگی میں رونما ہونے والے تجربات کو قارئین کے ساتھ شئیر کرتے ہوئے صورت حال بارے بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح یہ ہسپتال”مقامی لوکل ڈاکٹر اور بیورو کریٹس“ کی نا لائقیوں اورمجرمانہ غفلت“ کے باعث اب یہ دونوں بڑے ہسپتال صرف اور صرف ”غریب“ لوگوں کے لئے مختص ہو کررہ گئے ہیں۔سنڈیمن سول ہسپتال اور بولان میڈیکل ہسپتال کے او پی ڈیز میں آپ کسی ڈاکٹر سے ملنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ان ہسپتالو ں میں مریضوں کی اکثریت غریب افغان مہاجرین کی ہے جو شہر کے گردونواح میں کچھی آبادیوں میں سالوں سے رہ رہے ہیں ان کی لاکھوں کی آبادی کوئٹہ کے قریبی علاقوں میں ہونے کی وجہ سے ان دو بڑے ہسپتالوں سمیت شہرکے پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریضوں کے شدید دباؤ کی صورت میں دیکھنے کو ملتے ہیں ورنہ کوئٹہ کی اپنی مقامی آبادی کے لئے یہ دو بڑے سرکاری ہسپتال انتہائی حد تک کافی تھے جبکہ شہر کے مختلف آبادیوں میں چھوٹے چھوٹے بیسک ہیلتھ سینٹرز بھی موجود ہیں جہاں کسی حد تک ”غریب مریضوں“ کی اشک شوئی کی جاتی ہے۔

یہ اور بات ہے کہ سرکاری سٹور سے غیر معیاری کمپنیوں کی ادویات کی بھر مار ہے جو ان ہسپتالوں کو سپلائی کی جاتی ہے۔ناقص خوراک اور جعلی ادویات کی وجہ سے آج ہماری صحت کی جو حالت ہے وہ بیان سے باہر ہے شاید ہی کوئی گھر یا شخص کسی مرض سے بفضل اللہ تعالیٰ محفوظ ہو ورنہ کرونا سے لے کر دیگر موذی امراض نے پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔پولیو کے قطروں سے لے کر کانگو وائرس‘ کی باتیں ہمیشہ اخبارات کی زینت بنتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ تمام بیماریاں پڑوسی ملک افغانستان سے چمن بارڈر کے ذریعے بلوچستان کو منتقل ہوئے ہیں۔

کیونکہ افغانستان کے حالات اور ڈاکٹروں کی کمی کے باعث افغان عوام کو پڑوسی ملک پاکستان کا سرحدی شہر چمن اور کوئٹہ انتہائی قریب پڑتے ہیں وہ لگ بھگ تین چار گھنٹوں میں قندہار سے مریض لے کر کوئٹہ تک بغیر کسی روک ٹوک کے پہنچ جاتے ہیں پاسپورٹ وغیرہ کی کوئی قید نہیں یہی وجہ ہے افغانستان میں ثور انقلاب کی ناکامی کے بعد افغانستان سے آنے والے لاکھوں افغان مہاجرین آج بھی دو بڑے صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک کے بڑے بڑے شہروں کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ سیالکوٹ‘ اسلام آباد‘ کوئٹہ اور پشاور سمیت دیگر چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں محنت و مزدوری کرتے ہوئے آپ کو ملیں گے۔

آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ قندہار افغانستان کا حصہ نہیں بلکہ آپ اسے غیر اعلانیہ طورپر اپنا شہر سمجھ سکتے ہیں اس قدر کھلی آزادی پاکستان کے کسی بھی پڑوسی ملک سے نہیں،واہگہ بارڈر سے ہندوستان کے لئے پاسپورٹ کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں،سرحدی شہر تفتان سے ایران کے لئے کاروباری افراد کے لئے پاسپورٹ اور ضلع چاغی کے لوگوں کے لئے ”پندرہ روزہ راہداری“ کی سہولت کے علاوہ کوئی فری انٹری کی سہولت نہیں یہی وجہ ہے کہ ایران کے سرحد ی شہر زاہدان سے بلوچستان آنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ افغانستان کے سرحدی شہر قندہار کی صورت حال اس کے برعکس ہے۔

آپ کو کوئٹہ‘ کچلاک بھی قندہار کا حصہ لگتے ہیں اگر دیکھا جائے تو بلوچستان سے تجارت اور دیگر نقل و حمل میں ایران زاہدان جانے والوں میں ہماری تعداد زیادہ ہے یعنی بلوچستان اور پاکستان کے دیگر شہروں سے ایران کے لئے جانے والوں میں ہماری اپنی تعداد زیادہ اور ا یران سے آنیوالوں کی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے کہ ایران ہم سے کئی گنا زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے انہیں دنیا بھر کی جدید سہولیات میسر ہیں زاہدان کو آپ جا کر دیکھیں کہ یہ شہر بھی کس قدر خوبصورت اور جدید شہر بنا دیا گیا ہے حالانکہ وہاں کی بلوچ آبادی بھی تہران کی چیرہ دستیوں کا شکار ہے۔

اس کے باوجود اس شہر کے مکینوں کو تمام بنیادی سہولیات میسر ہیں اس لیے اس شہر سے ہماری سرحدی شہر تفتان آمد انتہائی قلیل ہے جو نا ہونے کے برابر ہے،ہم زاہدان کی سہولیات کی کسی نہ کسی طرح محتاج ضرور ہیں وہ ہمارے محتاج نہیں،ان کی طرز زندگی اور ہماری طرز زندگی میں نمایاں فرق واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔بہر حال میرے مضمون کا مقصد یہاں کی حالت زار ہے جس کا ہماری عوام بری طرح شکار ہے ہمارے ہاں زبانی کلامی اور جھوٹ بولنے کی عادت زیادہ ہے، جھوٹ بولنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، اگر میں یہ کہوں کہ ہم نے جھوٹ میں پی ایچ ڈی کررکھا ہے۔

تو ہرگز غلط نہ ہوگا اس بناء پر ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں تعمیر و مرمت بارے کاغذات موجود ہوں گے لیکن حقائق پر نظر ڈالیں تو یہ اس کے برعکس نظر آئیں گے۔کوئٹہ کو آپ کسی صورت صوبائی دارالحکومت نہیں کہہ سکتے اس کا موازنہ پنجاب اور صوبہ سرحدسے کریں تو آپ کو خود ندامت محسوس ہوگی۔کہاں پنجاب کی تحصیل کی سطح پر پختہ سڑکیں، سکولز سمیت دیگر سہولیات، اور پھر کوئٹہ کی سڑکوں اور مارکیٹوں پر نظر دوڑائیں کہ اب تو اس بات کی تمیز ہی نہیں رہی ہے کہ ریذیڈیشنل اور کمرشل ایریا کون کون سے ہیں اس شہر کی حالت ”شتر بے مہار“ کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔

جہاں اوٹ پٹانگ پلازہ مارکیٹوں اور درجنوں پرائیویٹ ہسپتالوں نے شہر کی حالت بگاڑ کررکھ دی ہے جہاں پارکنگ کی سہولت نہیں تمام پارکنگ سڑکوں پر کی جاتی ہے جس سے شہری مسائل سے دو چار ہیں شہر کی خوبصورتی کے لئے کوئی خاص پلاننگ دیکھنے میں نہیں آرہی ہے جبکہ صرف اور صرف پرائیویٹ ہسپتال اور کمرشل پلازوں کی تعمیر زوروں پر ہے جن میں کالا دھن سفید کرنے والے سمگلروں کا ہاتھ شامل ہے جو اپنی سمگلنگ سے حاصل ہونے والی دولت کو محفوظ بنانے کے لئے پرانی سی لہراتی عمارت کی قیمت دگنی کیا چوگنی دے کر شہر بھر کی عمارتیں خرید کرکے انہیں گرا کر پلازے تعمیر کرا رہے ہیں۔

ان کے مالکان کی بڑی تعداد کا تعلق کوئٹہ شہر سے باہر کی ہے جو خود تو روس‘ جاپان اور دیگر ممالک میں رہائش پذیر ہیں جبکہ اپنی دولت کومحفوظ بنانے کیلئے کوئٹہ شہر کی گلیوں میں بڑی بڑی عمارات بڑی تیزی سے تعمیر کرارہے ہیں اس کے برعکس کینڈا سمیت دیگر ترقی یافتہ مماک کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہاں کے ہسپتال ویران اورپارکس آباد ہیں کیونکہ وہاں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا نہیں جاتا ہسپتال کمرشل بنیادوں پر تعمیر نہیں کیے جاتے، وہاں انسان دوستی تو اپنی جگہ جانوروں کے حقوق کا جس طرح خیال رکھا جاتا ہے وہ ہم نے ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے بخوبی دیکھا ہے ایک ہم ہیں کہ نہ تو اچھے انسان بننے کو تیار ہیں۔

اور نہ ہی اچھا مسلماں‘ ہماری تمام تر کوشش یہ ہے کہ کس طرح سے دو نمبری سے لے کر دس نمبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیے نہیں اپنی آئندہ آنے والی نسل کو دھن دولت سے آشنا کریں جس کے لیے ہم نہ آؤیکھتے ہیں اور نہ ہی تاؤ۔ میرے مضمون کا موضوع کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں کی بگڑتی صورت حال بارے تھا اب حکومت کی جانب سے بخار‘ سردرد‘ امراض قلب‘ ملیریا‘ پیٹ درد‘ آنکھ‘کان اور جلد کی ادویات کی قیمتوں میں 9سے 262فیصداضافہ کرکے عوام پربجلی گرادی گئی۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزارت صحت نے 94ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔


ان ادویات میں 68لوکل اور26امپورٹڈ شامل ہیں جس کے تحت ایگزلمائڈ گولیوں کے پیکٹ کی قیمت 60روپے سے بڑھا کر 211‘ اینڈلاسن انجکشن کی قیمت 217سے 597‘ ڈوگز کلائن کی قیمت 233سے بڑھا کر 400روپے کردی گئی ہے. یوں لگتا ہے کہ حکومت نے عوام کو جیتے جی مارنے کا ذمہ لے رکھا ہے ایک تو اشیاء خوردونوش مہنگی کردی گئیں ہیں غریب لوگوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایک بڑی تعداد کے لوگوں کو ایک وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔

اب ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کرکے حکومت نے عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ کرکے پرائیویٹ ہسپتالوں کو کھلے عام لوگوں کی کھال نکالنے کی اجازت دے دی ہے۔یہ ہسپتال پہلے ہی سے حکومت کے قابو میں نہیں آرہے تھے اب تو وہ اور بھی لوٹ مار مچا ئیں گے۔مجھے ایک دوست نے بتایا کہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایک نجی ہسپتال کے ایک میڈیکل سٹورکا کرایہ 16لاکھ روپے ہے،اس سٹور کے علاوہ دو بڑے گودام ہیں جن میں غیر معیاری اور غیر مستند کمپنیوں کی ادویات ہیں یہ ایک ہسپتال کے میڈیکل سٹور کی تفصیلات ہیں۔

اب آپ خود سوچیں کہ شہر بھرمیں تیس سے لے کر چالیس پرائیویٹ ہسپتال کیسے راتوں رات قائم کرکے انہیں کامیابی سے چلا یا جارہا ہے۔ یہ ہماری صحت سے کھیلنے کی بد ترین مثال اور ثبوت ہے جس کے بارے میں حکومتیں غفلت کا شکار نظر آرہی ہیں۔ ڈرگ انسپیکٹرز کی بھتہ خوری نے اس کا روبار کو اور بھی بڑھاوادیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ اب ایک مافیا کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔