ملکی سیاست اس وقت ملاقاتوں کے گرد طواف کررہی ہے۔ یہ ملاقاتیں کس حد تک مقدس اور مقدم ہیں اس متعلق ہم آگے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے لیکن فی الوقت کون، کب اور کس جگہ عسکری قیادت سے ملاقات کا شرف حاصل کرچکا ہے۔ یکے بعد دیگرے انکشافات نے تجزیوں، تبصروں اور ٹی وی ٹاک شوز کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے ہر طرف ان مقدس ملاقاتوں کا چرچا ہے۔ کوئی ان کو جائز اور وقت کی ضرورت سمجھ رہا ہے تو کوئی ان کی مخالفت کرکے سیاست دانوں کے دوہرے کردار کا مذاق اڑا رہا ہے۔
ان مقدس ملاقاتوں کو ایک مخصوص زاویے سے منکشف کرنے والے وفاقی وزیر شیخ رشید اس وقت ایک مستند تحقیقاتی صحافی کی طرح اپنی بریک کی ہوئی خبروں کی صداقت پر نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ مزید ملاقاتوں سے متعلق خبریں بریک کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ ہم بچپن سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ عوام کی طاقت سے پارلیمنٹ کی سپرمیسی، سویلین بالادستی کو یقینی بنائی جائے گی لیکن 73 سالوں تک یہ ایک خواب ہی رہا ہے کیونکہ 32 سالوں تک غیر جمہوری قوتوں نے براہ راست اس ملک پر حکومت کی ہے۔
اور باقی کی حکومت کر وائی ہے تو کیسے مان لیں عوام طاقت کا سر چشمہ ہیں، حکومتیں کیسے بنتی اور کیسے ٹوٹتی ہیں اس راز سے سب آشنا ہیں بوقت ضرورت راتوں رات سیاسی جماعت کا قیام کیسے عمل میں لایا جاتا ہے اور مہینوں میں وہ صوبے کی حکمران جماعت کیسے بن جاتی ہے۔ یہ جادو کی چھڑی کس کے ہاتھ میں ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ الیکشن کے نام پر عوام سے ووٹ لے کر پارلیمان تک پہنچنے والوں کی اکثریت کو پہلے سے یہ علم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں کب کس کو ووٹ دینا ہے اور کس وقت اجلاس سے غیر حاضر رہنا ہے۔
طاقت کا سر چشمہ یا مرکز اب ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اس لئیے وہاں ملاقاتوں کے لئیے ہر کوئی بیتاب دکھائی دیتا ہے مسند اقتدار تک پہنچنے،اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے،مخالف حکومت کو گرانے اور سیاسی مراعات حاصل کرنے کے لئیے گیٹ نمبر چار کی یاترا مقدس اور مقدم سمجھا جاتا ہے۔عسکری قیادت سے تنہائی میں ہونے والی ملاقاتیں جس میں خاص طور ن لیگ کے رہنما محمد زبیر کی دو ملاقاتوں کی خبروں نے نواز شریف کی اے پی سی میں جارحانہ تقریر کو کافی حد تک زائل کر دیا ہے کیونکہ ان ملاقاتوں کی تصدیق بعد میں خود ڈی جی آئی ایس پی آر نے کر دی تھی۔
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان ملاقاتوں میں میاں نواز شریف اور مریم نواز سے متعلق بھی گفتگو ہوئی تھی اس غیر متوقع جوابی حملے کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی جماعت کو یہ ہدایت دی ہے کہ اب کوئی رکن، انفرادی، اجتماعی یا ذاتی سطح پر عسکری اور متعلقہ ایجنسیوں کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کرے گا،قومی دفاع اور آئینی تقاضوں کیلئے ضروری ہوا تو جماعتی قیادت کی منظوری کیساتھ ایسی ہر ملاقات اعلانیہ ہوگی اور اسے خفیہ نہیں رکھا جائے گا۔ نواز شریف کے اس سخت فیصلے پر عملدرآمد ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
کیوں کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے وقت اپنے مخالف امیدوار کو ووٹ دینے اور فیٹف بل کی منظوری کے وقت پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے غائب ہونے والے اراکین جانتے ہیں انھیں کس کے حکم کی تعمیل کرنی ہے اس لئیے وہ یہ ادراک و فہم رکھتے ہیں کہ طاقت کا سر چشمہ نہ عوام ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ، اپوزیشن کی دیگر جماعتیں کیا ن لیگ کے نقش قدم پر چل کر اپنے اراکین کے لئیے اس نوعیت کی پابندی کا اعلان کریں گی؟ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں گلگت بلتستان سے متعلق عسکری قیادت سے ملاقات کی خبر کو ایک مخصوص پیرائے میں آشکار کرنے پر۔
وفاقی وزیر شیخ رشید کو کھری تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یہ اعلان بھی کیا تھا کہ آئندہ اس نوعیت کی ملاقاتوں اور اجلاسوں میں اگر شیخ رشید موجود ہوں گے تو ان کی جماعت شرکت نہیں کرے گی۔ اس اعلان میں یہ قطعی نہیں کہا گیا تھا کہ وہ اور ان کی جماعت کا کوئی رکن آئندہ عسکری قیادت سے ملاقات نہیں کرے گا اس کا مطلب ہے پیپلزپارٹی نے ان مقدس ملاقاتوں پر پابندی عائد نہیں کی ہے حالانکہ شیخ رشید تواتر کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری بھی آرمی چیف سے تنہائی میں ملاقات کر چکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے ایک رکن نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس ملاقات کی تصدیق تو کی لیکن ان کو دعویٰ ہے کہ یہ ملاقات ان کی خواہش پر نہیں ہوئی ہیگلگت بلتستان کے معاملے پر پارلیمانی لیڈروں کی عسکری قیادت سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے یہ واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ فوج کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھا جائے۔آرمی چیف نے واضح کہا کہ سیاست میں مداخلت کا کوئی شوق نہیں جو بھی منتخب حکومت ہوگی اس کا ساتھ دیں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ آرمی چیف نے یہ باتیں اپنی آئینی ذمہ داریوں کے تناظر میں کی ہیں۔
تو کیا سارا قصور سیاست دانوں کا ہے جو یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہ افواج پاکستان کا سیاسی معاملات سے تعلق نہیں ہے پھر بھی وہ ملاقاتوں کے لیے اتاؤلے ہوتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے آئندہ عسکری قیادت سے ملاقات نہ کرنے کا بیان خود اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ان کی جماعت کے لوگ رات کے اندھیرے اور تنہائی میں مقدس ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ اب پارٹی قائد کی طرف سے تنبیہ نما ہدایت کس حد تک مؤثر اور قابل عمل ہوگی کچھ کہنا مشکل ہے اور کیا خود شریف خاندان کے کسی فرد کو اگر گیٹ نمبر چار تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوئی تو کیا۔
اس پابندی کا اطلاق ان پر بھی ہوگا؟ کیونکہ اس وقت ملک میں جاری سیاسی کشمکش کا براہ راست فائدہ پی ٹی آئی اور اس کی حکومت کو پہنچ رہا ہے،نہ صرف ن لیگ بلکہ تمام اپوزیشن جماعتیں اس بات کا ادراک رکھتی ہیں کہ صرف احتجاجی تحریک سے نہ وہ اس احتسابی دلدل سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں کیوں کہ تمام تر ناکامیوں کے باوجود وفاقی حکومت کو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی مکمل آشیر باد حاصل ہے۔ اب تک اپوزیشن کی طرف سے جتنی بھی مقدس ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
ان کا بنیادی مقصد اس آشیر باد کو ختم کرنا اور اپنے لئے ریلیف حاصل کرنا رہا ہے لیکن یہ ملاقاتیں بے سود رہی ہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق اپوزیشن کے رہنماؤں کو منہ کی کھانی پڑی ہے جس کے بعد نواز شریف کا سخت رد عمل ہمیں اے پی سی سے ان کے خطاب میں نظر آیا اور پھر اس کے جواب میں ان مقدس ملاقاتوں کا بھانڈا پھوڑنے کا عمل وفاقی وزیر شیخ رشید کی طرف شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔