معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات اور سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باوجوہ کے اعلان کے مطابق وزیراعظم نے کراچی‘ کوئٹہ،چمن ایکسپریس وے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت 790کلو یٹر طویل یہ شاہراہ ”بناؤ، چلاؤ اور منتقل کرو“ کی پالیسی کے تحت تعمیر ہوگی۔منصوبے کی فزبیلٹی اور کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے عمل شروع ہوچکا ہے ان کے بقول بھاری ٹریفک اور بڑھتے ہوئے حادثات کی وجہ سے اس شاہراہ کی تعمیر ناگزیر ہے۔دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اس اہم منصوبے کی منظوری پر وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے اظہار تشکر کرتے ہوئے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ حادثات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ خطے میں ترقی و خوشحالی کی بنیاد ثابت ہوگا اور کراچی کوئٹہ‘ چمن شاہراہ کے دو رویہ منصوبے سے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند اور بلوچستان کے عوام کے لئے باعث مسرت ہے کہ حکومت نے بالآخر اس سڑک کو دو رویہ بنانے کی ٹھان لی کیونکہ اس روٹ پر ٹریفک میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ چمن کوئٹہ سے کراچی تک کا 790کلو میٹر فاصلہ اب کوئی فاصلہ یادوری نہیں رہا۔
کیونکہ بلوچستان کے عوام کی ضروریات کا بڑا تعلق صنعتی شہر حب اور کراچی سے وابستہ ہوچکا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی بڑی تعداد کراچی اور سندھ کے دیگر مقامات پر کاروبار کے ساتھ ساتھ روزگار کے دیگر وسائل حاصل کرکے اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں اس کے علاوہ کوئٹہ سے ژوب کے راستے اسلام آباد،پشاور اور کوئٹہ ہی سے لورالائی کے راستے لاہور‘ ملتان تک رسائی بھی انتہائی کم وقت میں ہوگئی ہے۔آپ کو بلوچستان کا شاید کوئی ایک آدھ شخص ایسا ملے گا جس نے ان بڑے شہروں کو دیکھا نہ ہو۔بلوچستان کے طلباء کی ایک بڑی تعداد بھی کراچی‘ملتان‘ لاہور‘ پشاور سمیت دیگر شہروں میں اپنی تعلیم کے سلسلے میں ان روٹس پر سفر کرتے ہیں میرے کہنے کا مقصد یہ کہ اب تمام دوریاں ختم ہوچکی ہیں فاصلے سمٹ چکے ہیں۔
پوری دنیا کو گلوبل ویلج کی حیثیت دی جاتی ہے۔ سائنس کی ترقی کی بدولت اب دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود شہر تک رسائی کوئی بڑی بات نہ رہی، ایسے میں ان ملکوں کو جانے والی قومی شاہراہوں کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ بلوچستان اپنے محل و قوع کے لحاظ سے وہ خوش نصیب صوبہ ہے کہ اس کی سرحدات دیگر ملکوں کیساتھ لگتی ہیں ایک طرف افغانستان اور دوسری طرف ایران کے راستے یورپ کے ذریعے لندن تک شاہراہ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دالبندین شہر سے گزرنے والی سڑک کا نام”لندن روڈ“ رکھا گیا ہے۔
جہاں تک بلوچستان کی قومی شاہراہوں کا تعلق ہے یہ وفاقی محکمہ این ایچ اے کے زیر نگرانی ہونے کی وجہ سے عدم تعمیر کی صورت حال سے دو چار ہیں،میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی کوئٹہ سے ژوب اسلام آباد‘ کوئٹہ لورالائی ملتان‘ڈیرہ غازی خان‘ کوئٹہ سبی تا جیکب آباد‘ کوئٹہ تفتان اور کوئٹہ خضدار تا کراچی کی سڑکوں کا ذکر کیا تھاکہ دو رویہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سڑکیں ٹریفک کے شدید دباؤ کا شکار ہیں، یہ سڑکیں بڑھتی ہوئی ٹریفک اور دیگر صوبوں کو ملانے والی بڑی سڑکیں آجکل انتہائی مصروف ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات بڑھنے کا سبب بن رہی ہیں۔
گزشتہ ایک سے دو ماہ کے دوران ان تمام بڑی سڑکوں پر انتہائی خونی حادثات رونما ہوچکے ہیں، حالیہ دنوں میں قلعہ سیف اللہ کے قریب چھ نوجوانوں کی ہلاکت کی خبر سن کر دل انتہائی رنجیدہ ہوا، یہ خبر سننے کے دو روز بعد خضدار کی لیڈی ڈاکٹر کی ہلاکت پر دل کو ٹھیس پہنچی۔گزشتہ دو مہینوں میں ان بڑی سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا، اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس سے قبل پانچ چھ ماہ کروناکی وباء سے صوبوں کے درمیان نقل و حمل مکمل طورپر رک چکی تھی، لوگ دیگر شہروں کو سفر سے گریزاں تھے اب جبکہ اللہ کے فضل سے عوام کو اس موذی مرض سے نجات ملی۔
تعلیمی اداروں کے کھلنے سے جہاں شہروں میں ٹریفک کی صورت حال بدل گئی، اس کے اثرات قومی شاہراہوں پر بھی اضافے کی صورت میں دیکھنے کو مل ر ہے ہیں لیکن افسوسناک اور دلخراش خبریں بھی تواتر کے ساتھ سننے کو مل رہی ہیں۔ صوبائی دارالحکومت سے دیگر صوبوں کو نکلنے والی تمام بڑی قومی شاہراہیں شروع دن سے ہی سنگل ٹریک تعمیر کی گئی ہیں جس کے باعث ان سڑکوں پر ٹریفک کا شدید دباؤ ہونے کے باعث اب تک سینکڑوں افراد خونی حادثات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب اگر ان سڑکوں کو قومی نہیں بلکہ ”خونی شاہراہیں ”کہیں تو ہرگز بے جا نہیں ہوگا۔
ان حادثات میں ہمارے پیارے دوست پروفیسر در جان پر کانی‘پی ٹی سی ایل کے سابق پی آر او محبوب بلوچ‘ سابق کمشنر مکران طارق زہری سمیت دیگر افراد بھی شہادت پا چکے ہیں جنہیں یاد کرکے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کیسے کیسے جوہر ہم نے گنوا دئیے۔ ان شخصیات کی اپنے صوبے اور قوم کی خدمات پر دل انہیں خراج تحسین پیش کرنے کو چاہ رہا ہے کہ ان خونی سڑکوں نے ہم سے کیسے کیسے ہمارے پیارے دوست چھین لیے۔یقین جانئیے کہ مجھ سمیت اب ہر شخص ان سڑکوں پر کسی کام کے سلسلے میں سفر کرنے سے نہ صرف گریزاں ہے بلکہ سفر کرنے کا سوچنے پر جسم میں خوف کی ایک لہر سے دوڑجاتی ہے۔
جب بھی کسی دوست یا رشتہ دار کا بذریعہ سڑک سفر کا سنتے ہیں تو دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے منزل مقصود تک پہنچادے کیونکہ اب دل میں خدشات اورو سوسوں نے اس قدر گھر کر لیا ہے کہ بیان سے باہر۔ دوسری طرف اب وفاق کی جانب سے کافی شورو غوغا کے بعد یہ خبر دیکھنے کو ملی کہ کوئٹہ‘چمن کراچی کی خونی سڑک جو کہ 790کلو میٹر بنتی ہے اس کے لئے نیشنل ہائی وے کی جانب سے نہیں بلکہ سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین لیفٹینٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باوجوہ کی جانب سے یہ خبر دیکھنے کو ملی کہ اس طویل شاہراہ کو”بناؤ چلاؤ اور منتقل کرو“ کی پالیسی پر تعمیر کیاجائے گا۔
اس کے لئے فزبیلٹی اور کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرنے کا عمل شروع کیاجا چکا ہے،یہ غالباً پرائیویٹ فرموں کے ذریعے ایک نئی پالیسی کے تحت تعمیر کرانے کا منصوبہ ہے جس کے لئے نئی پالیسی ”بناؤ چلاؤ اور منتقل کرو“ کی بنیاد پر تعمیر کرنے کی اس سے قبل کسی بھی بڑی شاہراہ کی مثال نہیں ملتی۔ اس بار ے میں مزید معلومات نہ ہونے کے باعث ہر شہری شش و پنج میں مبتلا ہے کہ وفاقی حکومت نئی پالیسی صرف بلوچستان ہی کے لئے کیوں متعارف کرارہی ہے،ملک بھرمیں اس کے برعکس تمام قومی شاہرائیں اربوں روپے کے اخراجات کرکے بنائی جاتی ہیں۔
لیکن اب جبکہ کئی سالوں بعد وہ بھی بلوچستان کے عوام،سیاسی جماعتوں کی چیخ وپکار اور وزیراعلیٰ جام کمال خان کی کوششوں کے بعد کوئٹہ کراچی شاہراہ کی تعمیر بارے”کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے“ کے مصداق اعلان کیاگیا لیکن نئی پالیسی ہمارے لیے یعنی عوام کے لئے پریشانی کا باعث بھی ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں کہاہے کہ بلوچستان کی بد قسمتی دیکھئے کہ کوئٹہ کراچی روڈ کو حکومت اپنے بجٹ سے دو رویہ کرنے کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر کو دعوت دیتے ہوئے پیش کش کررہی ہے کہ وہ اس”خونی سڑک“ کی تعمیر کیلئے سروے کرکے اپنی پیشکش جمع کرے۔
واجہ ثناء بلوچ کے مطابق یہ اشتہار عوام کو”ماموں“ بنانے کے سوا کچھ نہیں،پرائیویٹ سیکٹر سے اس سڑک کی تعمیر سو سالوں تک ممکن ہی نہیں۔ایک رکن اسمبلی کی جانب سے تشویش کے بلوچستان کے عوام میں شدید مایوسی پیدا ہونے کا خدشہ ہے کہ حکومت اس خونی سڑک کو دو رویہ بنانے میں کیوں بلوچستان کے عوام کی آواز نہیں سن رہی جس کی وجہ سے عوام میں شدید بے چینی اور ضطراب موجود ہے حکمرانوں کو بلوچ عوام کو ”ماموں“بنانے کی پالیسی ترک کرنا چائیے ورنہ تلخیاں مزید بڑھیں گی جو یقیناً نیک شگون نہیں۔