|

وقتِ اشاعت :   December 5 – 2014

خالد سومرو کی شہادت کے بعد جمعیت علمائے اسلام دوسری بڑی پارٹی ہے جو احتجاج کا راہ اختیار کررہی ہے اور پورے ملک میں ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔ دوسری جانب عمران خان اور اس کی پارٹی نے احتجاج کا پورا شیڈول جاری کیا ہے۔ اس سے قبل 16دسمبر کے لئے ملک بھر میں ہڑتال کی کال دے رکھی تھی، بعد میں معلوم ہوا ہے کہ 16دسمبر سقوط ڈھاکہ کا دن ہے اور اسی دن پاکستان دولخت ہوا تھا۔ جب پورے ملک میں شور مچا تب تحریک انصاف نے تاریخ بدل دی اور اب یہ ہڑتال 18دسمبر کو کیا جائے گا۔ ادھر سید خورشید شاہ کی مداخلت پر وزیراعظم نواز شریف اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ وہ عمران خان سے دوبارہ مذاکرات شروع کریں گے۔ اس کے لئے اسحاق ڈار کو ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دوسرے رہنماؤں سے مذاکرات کے لئے رابطہ کریں۔ بہر حال تحریک انصاف بضد ہے کہ وہ احتجاج کی راہ ضرور اختیار کرے گی اور اس سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ان کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ ملک کی معاشی اور سیاسی صورت حال کیا ہے اور پاکستان کتنے بڑے بحران میں مبتلا ہے۔ کسی نے عمران خان کے کان میں یہ کہہ دیا ہے کہ وہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائیں گے تو وہ خود وزیراعظم بن جائیں گے۔ انہوں نے اس بات پر یقین کرلیا ہے کہ وہ آئندہ پاکستان کے وزیراعظم ہوں گے۔ کتنی جلد ہوں گے ان کو اس خواب کی تعبیر دنوں یا ہفتوں میں پورا ہوتانظر آتا ہے۔ چنانچہ ان کا لہجہ تلخ تر ہوتا جارہا ہے، ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ ان کو یہ پرواہ نہیں کہ ملک اور قوم کے ساتھ کیا ہوگا۔ بہر حال وہ احتجاج کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں جو شاید ممکن نہیں ہے خصوصاً موجودہ صورت حال میں۔ ان کے حامی کروڑوں اور اربوں روپے اس ہارے ہوئے گھوڑے پر لگارہے ہیں اور اس امید پر کہ ملک میں عدم استحکام پیدا ہوگا اور وزیراعظم مستعفی ہوجائیں گے۔ گا گھ سیاستدان آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے کیونکہ اس حکومت کے بعد یا اس کا تختہ الٹنے کے بعد آمریت ہی ملک میں قائم ہوسکتی ہے جمہوریت نہیں رہے گی۔ اس لئے آمریت سے موجودہ جمہوری نظام بہتر ہے۔ اس لئے پی پی پی کی حمایت کے بغیر عمران خان موجودہ حکومت کا تختہ نہیں الٹ سکتے۔ اس لئے کہ پی پی پاکستان کی ایک اہم ترین پارٹی ہے۔ اس کی قوت کا اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے طاقتور فوجی آمر اس پارٹی کا کچھ نہیں بگاڑسکے۔ پی پی آج بھی اتنی ہی مضبوط اور توانا ہے اور کسی بھی بحران کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ بات زیادہ صحیح ہے کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کا کوئی اتحادی نہیں ہے صرف ایک شیخ رشید ہیں جو تحریک انصاف کی حمایت سے اپنی قومی اسمبلی کی نشست جیت سکے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے عمران خان کا ساتھ چھوڑدیا ہے۔ اب عمران خان تنہا ہیں اور ان کے پس پشت حمایتی کسی بھی وقت ان کی حمایت سے دستبردار ہوسکتے ہیں۔