قزاق بحری ڈکیت کو کہتے ہیں جو سمندر میں لوٹ مار کرتے ہیں، وہ بحری جہازوں اور کشتیوں کو لوٹتے ہیں۔ قزاقوں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سمندروں میں لوٹ مار کرنے کے بعد اپنی دولت جزیروں پر چھپاتے تھے۔ اور وہ جزیروں کو اپنی پناہ گاہوں کے طورپر بھی استعمال کرتے تھے۔ اب دنیا میں قزاقی کا پیشہ دم توڑگیا ہے ماسوائے صومالیہ میں کبھی کبھی ان کی سرگرمیوں کو خبریں آتی ہیں۔ لیکن آج کل پاکستان میں یہ قزاقی کا پیشہ سراٹھا رہا ہے۔ یہ قزاق سمندر کے بجائے خشکی میں رہتے ہیں۔ اور وہ سمندر سے گیارہ سو کلومیٹر دورکوہ مارگلہ کے دامن میں رہتے ہیں۔
ان کو نہ تیرنا آتا ہے اور نہ ہی وہ کشتی رانی کے پیشے سے منسلک ہیں۔ کوہ مارگلہ کے باسی اپنے آپ کو مہران اور بولان کے باسیوں کے ساحل و وسائل کے دعوے دار سمجھتے ہیں۔اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے ملک میں ایک نئی اتھارٹی، پاکستان آئی لینڈ ز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کے نام سے بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی 1050 کلومیٹرکی ساحلی حدود میں جتنے بھی جزائر ہیں، جن میں جزیرہ ہفت تلار، جزیرہ مالان، جزیرہ بدو، جزیرہ بندل، جزیرہ چرنا، کلفٹن صدفہ چٹانیں، جزیرہ خپریانوالہ سمیت دیگر تین سے زائد جزائر شامل ہیں، انہیں ترقی کے نام پر قبضے میں لیاجائے گا۔
اتھارٹی کا مقصد ہوگا کہ جزائر کو ترقی دیں اور وہاں پر روڈ راستے اور پل بنائے جائیں گے۔اتھارٹی ان جزائروں پر ہائی رائز بلڈنگ بناکر،انسانوں کو آباد کرے گی۔ اتھارٹی بنانے کا بل تیار ہوچکا ہے جوجلد ہی منظوری کیلئے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔مگر اصل میں وفاق کے اس پورے عمل کے پیچھے سندھ اور بلوچستان کے سمندری جزائر پر قبضہ کرنا مقصود ہے جس کی شروعات دو جڑواں ڈنگی اور بھنڈاڑ جزیروں سے کی جارہی ہے۔ یہ دونوں جزائر کراچی کے ساحل پر بحیرہ عرب میں واقع ہیں۔اصل میں پاکستان کے آئین کے مطابق سمندری پانی کے ساحل کے زیرو ناٹیکل مائل سے 12 ناٹیکل مائل تک صوبوں کی سمندری حدودمیں شامل ہے۔
اس لیے تمام سمندری جزائر صوبوں کے پانی کی حد میں آتے ہیں۔ اس لیے صرف یہ علاقے سندھ اور بلوچستان صوبوں کی ملکیت ہیں۔ پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) کے نام سے بنانے کا فیصلہ صوبائی خودمختاری پر حملہ کرنے کا مترادف ہے کیونکہ ان سارے جزائرکی ملکیت سندھ اور بلوچستان حکومتوں کی ہیں۔ اس کی قانونی حیثیت متنازعہ ہوگی۔ جزائر کی ملکیت وفاقی حکومت کے پاس نہ ہوتے ہوئے اس طرح کا اتھارٹی بنانے کا فیصلہ مضحکہ خیز ہے۔
پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی آئی ڈی اے) بنانے کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایک طرف پاکستان دنیا میں میرین پروٹیکٹڈ ایریا سے متعلق کنونشنوں میں شرکت کرکے ان کے قوانین پر عملدرآمد کی یقین دہانی کراتا ہے۔ کیونکہ سندھ اور بلوچستان کے جزائر ایکالوجیکلی اور حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں، جہاں پر کئی نایاب پرندے اور نایاب مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ جن میں وھیل، کچھوے، ڈولفن وغیرہ شامل ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان نایاب سمندری حیات کو محفوظ کرناضروری ہے جن کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں۔
جس کے لیے انسانی آبادی اور کمرشل بنیادوں پر منصوبوں کو روکنا ہے تاکہ ان نایاب سمندری حیات کو بچایا جاسکے۔ میرین پروٹیکٹڈ ایریا کے قوانین کے مطابق پاکستان کورواں سال یعنی 2020 ء سے تک تقریباً 27000 کلومیٹرز کے علاقہ کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا بنانے کا ہدف حاصل کرنا ہے۔یعنی پاکستان کم از کم سترہ فی صد ساحلی اور سمندری علاقہ کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دے گا لیکن اب تک پاکستان نے صرف ایک فیصدکا ٹارگٹ حاصل کیا ہے۔ 2017 کو ہفت تلار المعروف استولا آئی لینڈ کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دے دیا۔
اس کی منظوری بلوچستان حکومت نے دی تھی کیونکہ یہ بلوچستان حکومت کی ملکیت ہے وفاقی حکومت کی نہیں ہے۔ اس قانون کے تحت اب یہ جزیرہ کسی بھی کمرشل مقاصد کے لئے لیز یا الاٹ نہیں ہوسکتا ہے۔ اور اب یہ جزیرہ نایاب نسل کی سمندری حیات اور پرندوں کے لئے مخصوص کیاگیا۔جزیرہ ہفت تالار بحیرہ بلوچ میں ملک کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ یہ پسنی سے 39 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جبکہ سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کی درخواست پر دو شاخہ دریائے سندھ کو براعظمی شیلف سے ملانے والے مقام پر واقع انڈس کنیان کو بھی کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا۔
جبکہ چرنا آئی لینڈ، کیپ ماؤنٹ (راس موری، کراچی) اور میانی ہور (لسبیلہ) اور کئی دیگر علاقوں کو میرین پروٹیکٹڈ ایریاز بنانے کے لیے کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔
جزائر ساحلی پٹی کو فروخت کرنے کا یہ سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے چل رہا ہے جس کی شروعات پرویز مشرف حکومت نے کی تھی۔ ماضی میں بھی دو جڑواں ڈنگی اور بھنڈاڑ جزیروں کو ایک غیر ملکی کمپنی کو دے دیا گیا تھا جہاں ایک جدید شہر تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار کیاگیا تھا۔ علاوہ ازیں کراچی کے علاقے ہاکس بے میں بھی شوگرلینڈ سٹی بنانے کا بھی منصوبہ تھا۔ان دونوں منصوبوں کے خلاف سخت احتجاج کیاگیا۔
پاکستان فشرفوک فورم نے دیگر سول سوسائٹی کے ساتھ ملکر تحریک چلائی، اس تحریک نے دونوں منصوبوں کو روکنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب ایک بار پھر دو جڑواں ڈنگی اور بھنڈاڑ جزیروں پر ایک نیا شہر بنانے کا منصوبہ تیار کیاگیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیرصدارت ملک کے بڑے بڑے بلڈرز کا ایک اجلاس بھی منعقدہوچکا ہے۔ ستم ظریفی تو دیکھیں وفاقی حکومت ماضی کی طرح اس بار بھی سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشورہ کرنے اور ان کو اعتماد میں لیے بغیر سمندری جزیروں پر ایک نئی شہر تعمیر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
کراچی کی ساحلی پٹی پر نئے شہر کی تعمیر کے اس فیصلے سے سمندری ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ اس منصوبے کی وجہ سے مقامی ماہی گیر برادر ی کی زندگی اور معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر کراچی کے ان جزیروں ڈنگی اور بھنڈاڑ پر جدید شہر تعمیر ہوا تو غریب ماہی گیروں کے بنیادی اور روایتی روزگار کے وسائل تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ تمام سمندری اور ڈیلٹا کا ماحولیاتی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ ہزاروں فشنگ گراؤنڈزختم ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں ماہی گیروں میں بے روزگاری کا تناسب بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
تمر کے جنگلات جو پہلے ہی بڑی تیزی سے تباہ کیے جارہے ہیں اور جزیروں پر شہر تعمیر کرنے سے اور بھی زیادہ تباہ ہوں گے۔ سندھ کے جزیروں پر جدید شہر تعمیر ہونے سے سندھ کی ساحلی پٹی کے لاکھوں ماہی گیر اپنے روزگار سے بے دخل ہوکر غربت، بھوک اور بدحالی کا شکار ہوجائیں گے۔وفاقی حکومت کا یہ طریقہ کار نہ صرف ملکی آئین، قانون اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے مختلف کنونشنز اور معاہدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جو لوگوں کی تاریخی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت کے اس غیر آئینی عمل سے واضح ہوچکا ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی قطعی نہیں ہے اور حکمرانوں کی طرف سے آئین کی باربار خلاف ورزیاں روز کا معمول بن چکا ہے۔
اس قسم کے غیرآئینی اقدام اٹھانے سے گریزکیا جائے اور ان جزیروں پر ماہی گیروں کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے ان پر کسی بھی قسم کی تعمیرات پر پابندی لگائی جائے۔ سندھ اور بلوچستان حکومتوں کی زمینوں پر آئینی حق کو تسلیم کرکے کسی بھی قسم کی نئی قانون سازی نہ کی جائے۔سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کی قدیمی آبادیوں کو بنیادی سہولیات مہیا کرکے ان کے روزگار کے وسائل کی حفاظت کی جائے۔