“سید ضیاء عباس کو یاد نہیں رہا کہ یہ تینوں طالب علم لیڈر این ایس ایف کی قیادت (مجلس عاملہ) کے رکن تھے، ان کی ہی قیادت میں دو سالہ گریجویشن کی بحالی کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔ یہ تینوں لیڈر دو بار شہر بدر ہوئے۔ دوسری بار شہر بدر کیے جانے والوں میں، میں بھی شامل تھا۔ ہم سب این ایس ایف کے رکن اس وقت بھی تھے جب 1958 میں اس پر بطور“سیاسی تنظیم”پابندی عائد کی گئی اور اس وقت بھی جب مارشل لاء ختم کیا گیا اور سیاسی تنظیموں پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔ سید ضیاء عباس یہ تو مانتے ہیں کہ انھوں نے این ایس ایف سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
لیکن جب وہ یہ لکھتے ہیں کہ“اس علیحدگی نے میرے لیے جامعہ کراچی میں طلبہ سیاست کے حوالے سے کامیابیوں کے در وا کر دیے”۔ تب وہ اس اعتراف حقیقت سے پہلو تہی کیوں کرتے ہیں کہ“کامیابیوں کے یہ در”وائس چانسلر اشتیاق حسین قریشی اور پراکٹر میجر (ر) آفتاب صاحب کی قربت اور سرپرستی میں“وا”(کھلے) ہوئے تھے۔ میری ریسٹی کیشن اور اس کے نتیجے میں کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر کی حیثیت سے میری برطرفی کے بارے میں ضیاء عباس لکھتے ہیں۔:۔“اس قضیے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ صدر یونین حسین نقی،بلوچستان کے تین لڑکے چنگیزی۔
اورنگزیب اور طاہر حسین (طاہر حسین بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر اطلاعات مقرر ہوئے) وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے پاس ایک داخلے کے سلسلے میں گئے۔ چونکہ کام بالکل ناجائز تھا، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے صاف منع کردیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمود حسین بھی موجود تھے۔ حسین نقی اور ان لڑکوں نے بے جا اصرار کیا لیکن وہ نہیں مانے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اصول پسند اور ایماندار انسان تھے۔ انھوں نے کوئی ایسا کام کرنے سے انکار کردیا جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ حسین نقی اور ان کے ساتھی چراغ پا ہوگئے۔ ان لوگوں نے بدتمیزی کی حد کردی۔
یہ اہانت آمیز رویہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جیسے عظیم انسان کے لیے غیر متوقع اور ناقابل برداشت تھا۔۔۔۔ تمام سینئر اساتذہ اور انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ واقعہ میں ملوث صدر یونین سمیت تمام طلباء کو تین سال کے لیے ریسٹی کیٹ کردیا جائے”۔سراسر غلط بیانی بلکہ حد درجہ دروغ گوئی پر مبنی اس”قصے”کی تفصیل اور حقیقت یہ تھی کہ یونیورسٹی کیمپس کے ایک ہوسٹل میں بلوچ طلباء اور کچھ دوسرے طلباء میں ناشتے پر میس میں کچھ تکرار اور دھکا مکی ہوئی تھی۔ ان طلباء نے ہوسٹل انتظامیہ کے ساتھ وائس چانسلر کے پاس جا کر ان بلوچ طالب علموں کی شکایت کی (ضیا عباس نے ان کے نام تک غلط لکھے۔
بلوچ قبائل چنگیزی نہیں ہوتے۔ یہ چنگیز تھے جن کا تعلق ریاست خاران سے تھا اور یہ کراچی یونیورسٹی فٹ بال ٹیم کے کپتان تھے۔ طاہر محمد خاں مرحوم کا نام دو بار غلط یعنی طاہر حسین لکھا۔ حالانکہ طاہر محمد خاں مرکزی وزیر بھی رہے اور سینیٹ کے وائس چئیرمین بھی۔ یہ یونین کی انتظامیہ کمیٹی میں آرٹس فیکلٹی سے ایک نمائندے کے طور پر رکن بھی رہے۔)یہ تینوں طالب علم یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کی تنظیم کے رکن بھی تھے اس تنظیم نے صدارتی امیدوار کے طور پر میری حمایت کی تھی۔ غالباً مارچ کا مہینہ تھا اور امتحانات کی تیاری کے لیے طالب علموں کی چْھٹیاں بھی ہونے والی تھیں۔
وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے ان تینوں بلوچ طالب علموں کو ریسٹی کیٹ کر دیا۔ جب میں یونیورسٹی پہنچا تو مجھے اس واقعے کا علم ہوا۔ میں ہاسٹل گیا تو بلوچ طلباء نے اس واقعے کے بارے میں بتایا۔ دوسری جانب کے ایک طالب علم نے بتایا کہ ان کے درمیان صلح صفائی بھی ہوگئی ہے۔ میں وائس چانسلر صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے سیکریٹری اور اسسٹنٹ رجسٹرار کے پاس سے ہوتا ہوا ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے پاس گیا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ یہ طالب علم بلوچستان سے وظیفے پر اعلیٰ تعلیم کے لیے کراچی یونیورسٹی آئے ہیں۔
ان کا مستقبل برباد ہو جائے گا، آپ اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیں۔اس موقع پر ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی صاحب نے خالصتاً کاروباری انداز اختیار کرتے ہوئے مجھے مخاطب ہوکر کہا، کیا ان کی بجائے میں آپ کو ریسٹی کیٹ کر دوں! میری لیے یہ سودا مہنگا نہیں تھا۔ میں نے بلا توقف ان کی یہ پیش کش قبول کرلی۔ تینوں بلوچ طالب علموں کے ریسٹی کیشن کی منسوخی اور میرے ریسٹی کیشن کا حکم نامہ اسی روز نوٹس بورڈ پر آویزاں کر دیا گیا۔ڈاکٹر قریشی صاحب یونین کے انتخابات میں میری مخالفت کرچکے تھے اور دوبارہ الیکشن کرانے کے باوجود میں ہی صدر کے عہدے کے لیے کامیاب ہوا تھا۔
مزید یہ کہ میں نے یونین کے سالانہ پروگرام کے آغاز پر اپنے خطبہ صدارت میں کراچی یونیورسٹی میں عربی، فارسی، اردو کے شعبہ جات ہونے کے باوجود سندھی کا شعبہ نہ ہونے کی شکایت کی تھی اور اس بات پر بھی افسوس کیا تھا کہ ان کے دفتر کے نیچے سوویت یونین کی دی ہوئی آبزرویٹری کئی سال سے بند کنٹینر میں پڑی ہوئی ہے جسے شعبہ جغرافیہ کے طالب علموں کے لیے نصب کیا جانا چاہیے۔ پھر میں نے تمام علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کے حوالے سے یونین فنڈ سے پروگرام کرائے تھے۔ جن میں اس وقت کے معروف قوم پرست لیڈران نے شرکت اور تقاریر کی تھیں۔
ثقافتی پروگراموں میں علاقائی فنکاروں نے رقص اور گیت کے پروگرام بھی پیش کیے تھے۔ یہ سب کچھ ڈاکٹر قریشی صاحب کے لیے ناپسندیدہ تھا، سوائے ابتدائی پروگرام کے (جس کی تصویر”زندگی، سفردر سفر”میں شامل ہوئی ہے جس میں میں خطبہ صدارت پڑھ رہا ہوں۔ ڈاکٹر قریشی صاحب، ڈاکٹر فرید صاحب اور سید ضیا عباس اسٹیج پر موجود ہیں اس کے علاوہ وہ کسی بھی پروگرام میں شریک نہ ہوئے۔ میرے ریسٹی کیشن کا فیصلہ وائس چانسلر کا ہی تھا۔ اس کے لیے نہ تو سینئر اساتذہ یا یونیورسٹی انتظامیہ کی کوئی میٹنگ ہوئی، نہ ہی طلباء کی جنرل باڈی نے اس کو منظور کیا یا سراہا، یہ سراسر ضیاء عباس کی اختراع ہے۔
انھوں نے میرے ریسٹی کیشن کے حوالے سے یہ لغو کہانی بھی گھڑی۔“اگلے روز یہ حکم نامہ جاری ہوگیا تو حسین نقی بھنائے ہوئے وائس چانسلر کے کمرے میں جادھمکے اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے ایک بار پھر بد کلامی کی اور کہا:۔”بڈھے! تو یہ کرسی پر بیٹھا لڑھک رہا ہے، اپنافیصلہ واپس لے لے ورنہ تجھے ایک پل میں ٹھیک کر دیں گے۔”ڈاکٹر اشتیاق حسین نے ان کے داخلے کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لینے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے جو فیصلہ دینا تھا دے دیا، اب تم لوگوں کو جو کرنا ہے وہ کرو۔ حسین نقی اور ان کے مشتعل ساتھی وائس چانسلر کو یہ دھمکی دے کر کہ“ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں ”واپس پلٹ گئے۔”
میرے سخت ترین نظریاتی مخالف بھی اس بات سے انکار نہیں کریں گے کہ میں اس طرح کی گستاخانہ اور لچر زبان استعمال نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر قریشی زندہ ہوتے تو وہ بھی اس بیہودہ الزام تراشی کو شرف قبولیت نہ بخشتے۔ ضیاء عباس کو اس پر شرم آنی چاہیے۔
ضیاء عباس مزید لکھتے ہیں:۔
“مجھے اس کی طلاع ملی تو مجھے سخت افسوس ہوا حالانکہ حسین نقی میرا بہت اچھا دوست، ایماندار دیانت دار اور نظریات میں قطعی مخلص نوجوان ہے۔۔ لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھنے میں اکثر ناکام رہتا تھا۔ ضیا عباس کا“میرے متعلق اس“مشفقانہ”رائے کا اظہار اس بیہودہ گوئی کے بعد کیا گیا جو میں نے مبینہ طور پر ڈاکٹر اشتیاق حسین صاحب کے ساتھ کی تھی۔پھر ضیاء عباس صاحب نے”بلوچ لڑکوں ”کے حوالے سے یہ بھی تحریر کیا:۔”ہم نے دونوں واقعات کے بھی شواہد جمع کیے جن سے پتہ چلا کہ ان واقعات میں بلوچ طلباء کا کوئی قصور نہیں تھا۔
ان کی سراسر ذمہ داری صدر طلبا یونین حسین نقی پر عائد ہوتی تھی”ذرا غور کیجئے کہ جب مبینہ طور پر میں نے وائس چانسلر صاحب سے انتہائی لچر الفاظ میں بات کی تھی تب تو سید ضیاء عباس کو اس کی اطلاع ہونے پر محض”سخت افسوس“ ہوا تھا۔ اور مجھ سے دوستی اور میرے کردار کی تعریف بھی کی گئی تھی۔ لیکن پھر انھیں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے حوالے سے میرے خلاف الزام تراشی کی مزید انگیخت ہوئی:۔
“میں کسی استاد کے ساتھ اس طرح کی بد سلوکی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔۔ (جو) دنیا کا ممتاز مورخ ہو۔ ایسے عظیم انسان کی توہین سے میرے تن بدن میں آگ بھڑگ اٹھی”اور پھر مزید غلط بیانی کہ یونین کے عہدیداروں نے میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کی اور مجھے صدر کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ حالاں کہ عہدے سے برطرفی تو میرے ریسٹی کیشن کے باعث پہلے ہی ہو چکی تھی۔ نہ ہی ان کا یہ بیان درست ہے کہ سید ضیاء عباس کو یونین کے عہدیداروں نے چنا اور جنرل باڈی نے اس کی توثیق کی۔میرے ریسٹی کیشن کے نتیجے میں سید ضیاء عباس قائم مقام صدر مقرر کیے گئے۔
جو یونین کے آئین کے مطابق کارروائی تھی۔ اب کتابیں تحریر کرنے کے حوالے سے سید ضیاء عباس کی رائے بھی پڑھ لیجئے جو خود ان کی کتاب“زندگی: سفر در سفر”پر بھی منطبق ہوتی ہے۔”اہم شخصیات منصب سے الگ ہوتی ہیں تو وہ اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں سے جان چھڑانے کے لیے سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتابیں لکھ کربزعم خود تمام الزامات سے بریت حاصل کرلیتی ہیں۔ اس طرح پاکستان کے حوالے سے ایک خود ساختہ تاریخ رقم کی جارہی ہے جس میں جھوٹ کو سچ کے لبادے میں لپیٹ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جارہا ہے“
(اس تحریر کے حوالہ جات کے لیے“زندگی، سفر در سفر”کے صفحات گیارہ اور اکیس تا پچیس دیکھیے)
نقی صاحب کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں ان کے ہمراہی معراج محمد خاں اور نہ ہی فتح یاب علی خاں اس دنیا میں موجود ہیں جن سے اس پورے واقعے کی تصدیق یا تردید ہو سکتی تھی۔ ہم نے اس سارے مسئلے کے حل کے لیے اپنے استاد ڈاکٹر توصیف احمد خان سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کے ایک اور چشم دید گواہ جو اس وقت این ایس ایف کے رکن تھے اور بعد ازاں کراچی یونیورسٹی کے وایس چانسلر بنے، حیات ہیں۔ یہ چشم دید گواہ پیرزادہ قاسم تھے جو اشتیاق حسین قریشی اور حسین نقی کی ملاقات کا منظر دیکھ اور سن رہے تھے۔
جب ہم نے ان سے اس ضمن میں رابطہ کیا تو انھوں نے ضیاء عباس کے مؤقف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جس روز وائس چانسلر اور حسین نقی کے درمیان ملاقات ہوئی تو وہ وائس چانسلر کے کمرے کی کھڑکی سے یہ سارا منظر دیکھ اور سن رہے تھے۔ اس موقع پر اشتیاق حسین قریشی سخت غصے کے عالم میں حسین نقی کو ڈانٹ رہے تھے جب کہ حسین نقی ان کے سامنے کھڑے ہوکر انتہائی مہذب انداز میں اپنا موقف بیان کررہے تھے۔حسین نقی، ضیا عباس اور پیرزادہ قاسم یہ تینوں شخصیات ابھی حیات ہیں۔ اگر کوئی کراچی یونیورسٹی کے واقعے کے بارے میں مزید تحقیق کرنا چاہے تو ان سے رابطہ کر سکتا ہے۔ اگر رابطے میں کوئی مشکل پیش آئے تو ہماری خدمات حاضر ہیں۔(ختم)