عید قرباں سے قبل اے پی سی کا اعلان ہوا لیکن تاریخ نہ آئی،اسی اثناء میں میر حاصل خان بزنجو کینسر سے لڑتے لڑتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اسکے چند ہی دنوں بعد اپوزیشن کی اے پی سی کا اعلان ہوگیا۔میرحاصل خان بزنجو کی وفات اور سردار اختر مینگل کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے عدم شرکت کی اطلاع آنے کے بعد اے پی سی کی میرے لئے قومی سطح پر تو اہمیت کی حامل تھی لیکن بلوچستان کے حوالے سے کوئی خاص جوش نہ تھا لیکن اس موقع پر جو کچھ ہونا تھا جو کچھ ہوا وہ میرے اندازے میں نہیں تھا۔ میاں نواز شریف کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول ہونے کی خبر پر میرے کان کھڑے ہوگئے۔
چرواہے نے اس معاملے پر جو حال دیا وہ کسی اور تحریر میں جب پیپلزپارٹی پر لکھوں گا تو تفصیل سے بات ہوگی بلوچستان پر آج بات کرنے کو دل چاہ رہا ہے چونکہ میر حاصل خان بزنجو کی رحلت اور سردار اختر مینگل کی طبیعت کی ناسازی کے بعد اے پی سی میں ہماری د لچسپی کا کم ہونا کچھ غلط بھی نہیں تھا،اس وقت قومی سطح کی سیاست میں بلوچستان کی تین قوم پرست جماعتیں انتہائی اہم ہیں جن میں نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل اور پشتونخوامیپ شامل ہیں۔ پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کی قربت تخت لاہور کے قریب ہے تو بی این پی مینگل ان دنوں حکومت سے علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی سے زیادہ قریب لگتی ہے۔
اس اے پی سی میں پشتونخواہ میپ کا جو بیانیہ تھااس میں ایک بات کی وضاحت کہ میاں نواز شریف نے جو بیانیہ اپنا یا ہے وہ یہ بیانیہ محمود خان اچکزئی کی صحبت میں رہ کر یاد کرچکے ہیں۔ کبھی کبھار میاں شہباز شریف کی خواب آور گولیاں اثر کرجاتی تھیں جنکے نتیجے میں آج میاں نواز شریف لندن میں چہل قدمی کے بعد تیز دوڑتے نظر آرہے ہیں بصور ت دیگر محمود خان اچکزئی نے جو وائرس میاں نواز شریف کے ذہن میں ڈالا ہے وہ اپنا کام دکھاتا رہتا ہے۔ اس بار میاں شہباز شریف کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں اسکا ثبوت اے پی سی کے بعد میاں صاحب کی تین تقاریر سے ملتا ہے۔
اس بار تو میاں صاحب پر نظریاتی وائرس کا اثر اتنا ہوا ہے کہ وہ محمود خان اچکزئی سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں، اب انکی واپسی میاں شہباز شریف کے بس میں ہے یا نہیں اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس اے پی سی میں بلوچستان کی دو بلوچ قوم پرست جماعتوں کی نمائندگی دو ڈاکٹروں کے پاس تھی، ان ڈاکٹروں نے مرض کی تشخیص کے بعد جو دوا داروتجویز کئے اس پر آگے چل کربات کرتے ہیں پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ بلوچستان کی جو جماعتیں اے پی سی میں شریک ہوئیں انکے اہداف کیا تھے؟ پشتونخواہ میپ میاں نواز شریف کے اس بیانئے سے متفق ہے کہ موجودہ سسٹم کو سمیٹ دیا جائے اور دوبارہ انتخابات کروائے جائیں۔
اور دیگر معاملات پر بھی پشتونخواہ میپ اور ن لیگ کا بیانیہ مختلف نہیں ہے جبکہ نیشنل پارٹی ہے تو ن لیگ کی ہمنواء لیکن وہ فی الفور کسی انتخابی مہم کیلئے تیار نہیں ہے گو کہ کسی طرح سسٹم میں واپسی چاہتی ہے تاہم اسکے لئے انہیں اپنی جماعت کو تھوڑا منظم کرنے کیلئے وقت درکار ہے اسلئے وہ فوری انتخابات کے حق میں نظر نہیں آتی ہے اور رہی بات بی این پی مینگل کی تو اس وقت جو پارلیمانی اکثریت بی این پی مینگل کو حاصل ہے ایسی صورت میں بی این پی مینگل پیپلزپارٹی کے خیالات سے متفق ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اجتما عی استعفوں کے حق میں نہیں ہیں لیکن کسی مہم جوئی کی صورت میں بی این پی مینگل بلوچستان میں سیاسی ماحول گرم کرکے بلوچستان میں حکمرانی کی خواہش مند ضرور ہو سکتی ہے۔
اس کام کیلئے سردار اختر مینگل کے رابطہ کار ان دنوں عوامی نیشنل پارٹی کو رام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں گو کہ اے این پی کی مرکزی قیادت جانتی ہے کہ اگر وہ مولانا فضل الرحمان یا سردار اختر مینگل کی تجویز پر کوئی پیش رفت کرتی ہے تو بلوچستان میں اے این پی کی پارلیمانی جماعت کی تقسیم ہوجائیگی اور کسی ایسی صورتحال میں بلوچستان سے مارچ میں سینیٹ کی ایک سیٹ ملنے کی جو امید ہے وہ بھی دم توڑ جائیگی۔ پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے پر بات کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ سردار اختر مینگل اور میر حاصل خان بزنجو کے بعد بلوچستان کے دو ڈاکٹرز نے اے پی سی میں کیا کہا اور کیسے مشکل صورتحال سے گزر گئے۔
چرواہے کی خبر کے مطابق بلوچستان کے دو ڈاکٹرز نے میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد صورتحال کو بھانپ لیا تھا اور مکران اورجھالاوان کی ڈاکٹرائن کے مطابق نپی تلی تقاریر کیساتھ اے پی سی میں اپنا موقف پیش کردیا۔ اگر نیشنل پارٹی کی طرف سے میر حاصل خان بزنجو مرحوم نمائندگی کرتے اور بی این پی مینگل کی طرف سے سردار اختر مینگل نمائندگی کرتے تو میاں نواز شریف یا انکی جماعت نے جن حالات سے گزرنا ہے اس میں بلوچستان کی یہ دو جماعتیں بھی شامل ہوتیں لیکن ڈاکٹر مالک مکران کی ڈاکٹرائن کو لیکر خود وہاں پہنچے تھے۔
اور جھالاوان کی ڈاکٹرائن کیلئے سردار اختر مینگل نے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کو تیار کیا تھا اور دونوں شخصیات نے مکران اور جھالاوان کی ڈاکٹرائن کے تحت اپنی جماعتوں کو کسی بڑے بھنور میں پھنسانے سے بچالیا ہے۔ڈاکٹر مالک بلوچ اور ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اپنی زندگی میں اچھے میڈیکل پریکٹیشنر رہے ہوں یا نہیں لیکن بہت بہترین سیاستدان ضرور ہیں اور اس وقت نیشنل پارٹی کی مکران ڈاکٹرائن اور بی این پی مینگل کی جھالاوان ڈاکٹرائن پیپلزپارٹی کی ویٹ اینڈ سی کی پالیسی کے قریب ضرور ہے لیکن اس سے مکمل متفق نہیں ہے،یہ دونوں جماعتیں چاہتی ہیں کہ اس بڑی لڑائی کے فریقین بڑے ہوں ہمارا کردار سائیڈ ہیرو کی حد تک ٹھیک رہے گا اس سے زیادہ آگے بڑھنے کی صورت میں بڑا نقصان اٹھانا پڑیگا اور ایسے کسی نقصان کی یہ جماعتیں متحمل نہیں ہوسکتیں۔
اب جبکہ اپوزیشن کی جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کوئٹہ سے تحریک کے آغاز کا اعلان کرچکی ہیں اگر اس گیارہ اکتوبر کے جلسے میں بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل شریک ہوتے ہیں تو انہیں یا تو کوئٹہ آتے ہوئے نال میں میر حاصل خان بزنجو کی فاتحہ کیلئے جاکر اسکے بعد مستونگ میں چئیرمین منظور کی فاتحہ خوانی کیلئے جانا ہے یا پھر کوئٹہ جلسے سے واپسی پر انہیں مستونگ سے نال اور پھر وڈھ کا سفر کرنا ہے۔ فی الحال بی این پی مینگل کے اندروانی ذرائع کا کہنا ہے کہ سردار اختر مینگل چاہتے ہیں کہ جب تک دونوں بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور ن لیگ ون پوائنٹ ایجنڈہ پر نہیں آتیں۔
وہ تھوڑا آرام کریں تو بہتر ہے لیکن گزشتہ روز بلاول سے ملاقات میں کیا طے ہوا یہ تاحال واضح نہیں ہے۔ اب بات کرتے ہیں نیشنل پارٹی کیا کریگی نیشنل پارٹی سردار اختر مینگل کی کسی واضح پوزیشن لینے پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس وقت ڈاکٹر مالک کسی بڑی محاذ آرائی میں فرنٹ رول نہیں لینا چاہ رہے کیونکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ مارچ میں اگر سینیٹ کے انتخابات وقت پر ہوگئے تو وہاں بھی نمائندگی ختم ہوجائیگی تو ایسی صوتحال میں وہ ایک جمہوری بیانئے کے ساتھ نپی تلی پالیسی کیساتھ آگے بڑھیں گے۔
اس دوران انہیں جماعت کو بھی مستحکم کرنا ہے کیونکہ جلد یا بدیر الیکشن کی صورت میں انہیں ایک بھر پور تنظیم سازی کی ضرورت ہے اسلئے جمہوری جدوجہد میں شریک رہینگے لیکن کسی محاذ آرائی کیلئے نیشنل پارٹی تیار نظر نہیں آرہی اور دونوں بلوچ قوم پرست جماعتوں کو ادراک ہے کہ میاں نواز شریف کی اداروں کیخلاف جاری محاذ آرائی کا نقصان انہیں بہت پیچھے لے جاسکتا ہے جسکی فی الحال مکران اور جھالاوان کی ڈاکٹرائن میں کوئی جگہ نہیں نظر آرہی ہے اسلئے دونوں بڑی جماعتیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو اگر ان دو جماعتوں کی ضرورت ہے۔
تو اپنے اندر موجود مس ٹرسٹ کو ختم کرنا ہوگا اور کم از کم ایجنڈے پر متفق ہونا پڑیگا۔ سردار اختر مینگل کے رابطہ کار بلوچستان میں کسی سیاسی گہما گہمی کے خواہش مند ضرور ہیں اور اسکے لئے عوامی نیشنل پارٹی انکا پہلا ہدف ہے لیکن اے این پی کے دو وزراء کو جام کمال کی ایسی قربت حاصل ہے کہ وہ اسے کھونا نہیں چاہتے اور جام کمال جس انداز میں انہیں لیکر چل رہے ہیں انہیں کوئی سخت گیر موقف رکھنے والے کسی بلوچ قوم پرست کے بجائے جام کمال ریزن ایبل شخصیت لگتے ہیں اسلئے مکران اور جھالاوان کی ڈاکٹرائن میں کسی بڑی جنگ سے محتاط رہنے کی واضح نشانیاں نظر آرہی ہیں۔
اب بات کرتے ہیں کہ کیا پی ٖڈی ایم کا کوئٹہ جلسہ ایک کامیاب شو ہوگا؟ امید ہے کہ اگر تمام جماعتیں پی ڈی ایم سے مخلص ہوئیں تو ایوب اسٹیڈیم کو عوامی طاقت دکھانے کے اکھاڑے کے طور پر استعمال کیا جائیگا، دوسرے آپشن کے طور پر صادق شہید فٹبال گراؤنڈیا پھر ریلوے ہاکی گراؤنڈ اسکے ساتھ متصل زرغون روڈ بھی استعمال کی جاسکتی ہے ہر صورت میں اپوزیشن کی مرکزی قیادت بلوچستان کے عوام کو یہ باور نہیں کراسکتی کہ وہ عوامی مفاد کے لئے اکھٹے ہورہے ہیں بلکہ وہ سینیٹ کے الیکشن کو روکنے اور کچھ ذاتی معاملات کیلئے اکھٹے ہوئے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کی بڑی قیادت جیل جاتی ہے یا کوئٹہ آتی ہے اکتوبر میں سردی کا آغاز ہوچکا ہے اور سیاسی گرمی کیسی ہوگی اس بابت کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ طے ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد کے پاس اپنے ایجنڈے میں بلوچستان کیلئے کچھ نہیں ہے۔