|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2020

مجھے آصف علی زرداری پر اعتبار نہیں ہے یہ کوئی اور نہیں خواجہ آصف کہہ رہے تھے،ٹائمنگ بہت اہم تھی ابھی تو اے پی سی کی قرار داد بھی تازہ ہے ابھی تو میاں نواز شریف کی دھواں دھار تقاریر جاری تھیں اور کون نہیں جانتا کہ خواجہ آصف ن لیگ کے اس گروپ میں نمبر ٹو کہے جاسکتے ہیں جس گروپ کے سربراہ میاں شہباز شریف ہیں کیا نیب دفتر سے یہ پیغام آیا تھا یا یہ پہلے طے تھا اور کیا اسکے بعد پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا اہم جزو رہے گی یہ سارے سوال اپنی جگہ پر ہیں۔ آج بات کرتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی اے پی سی میں کیا چاہ رہی تھی کیا ہوا کیسے ہوا اور اب آگے کیا ہوگا؟

آل پارٹیز کانفرنس کے اعلان سے قبل جو رابطے مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری کے اور میاں نواز شریف کے درمیان تھے ان میں پاکستان پیپلزپارٹی مولانا کو بتا چکی تھی کہ جو بھی کرنا ہے اس بار میاں نواز شریف کو آگے آنا ہوگا اسکی دو وجوہات صاف تھیں، نمبر ایک پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ ن لیگ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے جب تک وہ اپنی صورتحال واضح نہیں کرتی اس وقت تک باقی جماعتیں کچھ بھی کرلیں کچھ حاصل نہیں ہونا ہے اور دوسرا پچھلی بار میاں نواز شریف کے آسرے پر نوابشاہ کے بلوچ نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا کہا ہی تھا کہ میاں نواز شریف پیچھے ہٹ گئے۔

جسکے نتائج پاکستان پیپلزپارٹی نے تن تنہا بھگتے اسلئے اب جو بھی ہوگا پہلا قدم میاں نواز شریف یا ن لیگ ہی اٹھائیگی جسکے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار شریف خاندان کے نمبر ٹو یعنی میاں شہباز شریف بلاول ہاؤس کراچی تشریف لائے،انہیں جانے کیلئے کس نے کیسے آمادہ کیا اور انکی وہاں موجودگی میں میاں نواز شریف کا آصف علی زرداری سے کیا مکالمہ ہوا اسے ایک طرف رکھیں لیکن نتیجہ صرف یہ نکلا کہ اے پی سی کا اعلان کردیا گیا اور میزبانی پاکستان پیپلزپارٹی کے سپرد ہوئی اور میاں شہباز شریف کے تیور دیکھ کر یا کسی گفتگو میں میاں نواز شریف نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر معاملہ شہباز شریف پر ہی چھوڑا گیا۔

تو کہیں یہ وار بھی خطاء نہ ہو جائے۔اب حالیہ انکشافات بتا رہے ہیں کہ انہی دنوں میں محمد زبیر صاحب مشن میں ناکام ہوچکے تھے اسلئے میاں نواز شریف حتمی فیصلہ کرچکے تھے اب نہیں تو کبھی نہیں کیونکہ مارچ میں سینیٹ انتخاب کے بعد انکے ہاتھ کچھ نہیں آنا یہی وہ ایک نکتہ ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو کرپشن کیسز کے بعد دوسرے نمبر پر قریب لایا ہے۔ تو کیا یہ قربت قائم رہیگی اس سوال کے جواب کیلئے کچھ چیزیں سمجھنا ضروری ہیں۔نمبر ایک پاکستان پیپلزپارٹی اجتماعی استعفوں کے حق میں نہیں ہے۔

کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی انیس سو پچاسی میں ایک بار اسمبلی سے باہر رہنے کی غلطی کرچکی ہے اب ایسا نہیں کریگی کیونکہ اسکے نتائج پچاسی کے بعد بے نظیر بھٹو نے اٹھاسی تک بدل لئے تھے لیکن اب اگر ایسی کوئی غلطی کی تو معاملہ قابو سے باہر ہوجائیگا اسلئے اے پی سی کے دوران بھی پیپلزپارٹی ان ہاؤس چینج کے معاملے پر زور دیتی رہی ہے کیونکہ اطلاعات کے مطابق آصف علی زرداری کی خواہش ہے کہ ان ہاؤس چینج ایسا ہو جسکا فائدہ براہ راست شہباز شریف کو بھی نہ پہنچے اور انہوں نے اس کام کیلئے کچھ امیدواروں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔

پیپلزپارٹی کی پہلی خواہش یہی ہے کہ عمران خان سے جان چھڑائی جائے،چاہے پی ٹی آئی سے کوئی اورہی کیوں نہ ہو دوسرے آپشن کے طور پر نواب شاہ کا بلوچ بلوچستان پر مہربا ن ہونا چاہتا ہے تاکہ طاقت ن لیگ کو بھی نہ ملے اور ایک قومی حکومت جیسی صورتحال ہو اور آصف علی زرداری دو ہزار تئیس کیلئے صف بندی کرسکیں۔حالیہ جاری تحریک میں پیپلزپارٹی کس شدت سے شریک ہوگی اسکا فیصلہ پی ڈی ایم کے کوئٹہ کے جلسے میں بلاول بھٹو کی شرکت اور عد م شرکت سے واضح ہوجائیگا اگر وہ شریک نہ ہوئے تو اپوزیشن کو پہلا دھچکا ابتداء ہی میں لگے گا۔

اور اسکا جواز ہوگا خواجہ آصف کا بیان،اگر شریک ہوئے تو اپوزیشن کی تحریک کو ایک بریتھ ٹیکنگ اسپیس ملے گی پاکستان پیپلزپارٹی اے پی سی کی میزبانی کا ذمہ لیکر اور میاں نواز شریف کی تقریر کا بار اٹھا رہی ہے لیکن اداروں سے براہ راست محاز آرائی پرانی پیپلزپارٹی کا طرہ امتیاز ضرور تھا موجودہ پیپلزپارٹی میں اتنی سکت نہیں کہ وہ براہ راست محاز آرائی کرکے سندھ کا تخت گنوادے اور مستقبل کی راہیں بھی مشکل بنادے اسلئے پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ ہٹ اینڈ رن کی صورتحال رہنی چاہئے جب تک دسمبر گزرجائے اور اگر اس دوران کوئی بڑا ریلیف ملا تو کوئی بعید نہیں کہ سیاست کو تاش کے کھیل کی طرح کھیلتا۔

نوابشاہ کا زرداری کوئی ٹرمپ کارڈ نہ کھیلے،وہ بڑے پتے دیکر کھیل بچانے کا ہنر زمانہ جوانی سے جانتا ہے اسلئے چند روز قبل ایک تحریر میں لکھ چکا ہوں کہ ن لیگ اس بار خطروں کے کھلاڑی کے جال میں پھنسے گی اور اب تک کے حالات یہی بتارہے ہیں کہ اینٹ سے اینٹ بجانے والے معاملے کا بدلہ نوابشاہ کے بلوچ نے لے لیا ہے۔ اب اس تحریک کی شدت کو دیکھ کر حالات کو بھانپتے ہوئے وہ کسی بڑے فیصلے کی پیش بندی کرے گا جو بھی ہو یہ طے ہے کہ ن لیگ کے پاس کھونے کو کچھ نہیں لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس بہت کچھ ہے ن لیگ کے اندر پڑنے والی دراڑیں آنے والے دنوں میں مزید واضح ہوجائینگی۔

چند سال قبل کی بات ہے جب اعتزاز احسن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ پیپلزپارٹی سے دور ہیں اور اس وقت اعتزاز احسن کو گڑھی خدا بخش بلا کر جلسے کی صدارتی تقریر دے کر صورتحال کو قابو کرلیا تھا کیونکہ اعتزا ز احسن اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست کا بڑا نام تھے اور اتنا بڑا سیاسی جگرا پاکستان کی کسی جماعت کے سربراہ کا نہیں کہ اپنی موجودگی میں ایک بڑے جلسے کی صدارتی تقریر کسی اور کے نام کردے،یہ فن صرف آصف علی زرداری جانتا ہے اور آج دیکھیں اعتزاز احسن کہاں ہیں، اسلئے تو دیکھتے جائیں کب کہاں خطروں کا کھلاڑی زرداری ٹرمپ کارڈ کھیلتا ہے۔

اور تاریخ بتاتی ہے کہ نوابشاہ کا بلوچ ٹرمپ کارڈ کھیلنے کا ماہر ہے وہ اس تحریک میں جو بھی کارڈ کھیلے اسکے لئے اگلا انتخاب بہت اہم ہے اور وہ اپنی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے فرزند اور اپنے سیاسی جانشین بلاول کو اقتدار کی مسند پر فائز دیکھنا چاہتا ہے اور اسکے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے کسی بھی حد تک۔