کووڈ نائنٹین کے دور میں ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے، ایسے میں کچھ دنوں پہلے تاجر برادری نے حکومت کو جگانے کے لیے ہارن بجاؤ حکومت جگاؤ ریلی نکالی اور خوب رونے،دھونے کی ناکام کوشش کی، وہیں دوسری طرف اپوزیشن کا غیر فطری اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ محض موو کے سوا کچھ نہیں نظر آتی۔ ایسے وقت میں
میری نظر سے انور مسعود کا شعر گزرا۔
یہی تو دوستو لے دے کے میرا بزنس ہے
تمہیں کہو کہ میں کیوں اس سے توڑ لوں ناطہ
کروں گا کیا جو کرپشن بھی چھوڑ دی میں نے
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اس شعر نے سوچ کے پہلو کو نیا رخ دے دیا۔پاکستان میں ہر دوسرا شخص وہ کام کر رہا ہے جو اسے نہیں آتا، اداکار کپڑے اور میک اپ بیچ رہے ہیں، کھلاڑی سیاست کر رہے ہیں اور سیاست دان اخلاقیات کا درس دے رہے ہیں۔دوسرا یہ کہ پاکستان میں حکومت کوئی آئے یا جائے، نظام جمہوری ہو یا آمرانہ مسائل وہ ہی ہیں جو سات دہائی پہلے تھے،کچھ معاملات مستقل ہیں جیسے ہر حکومت پر کرپشن کا الزام لگے گا اور اپوزیشن حکومت میں آتے ہی یاداشت اور اخلاقیات دونوں کو تجوری میں بند کر دیتی ہے اور پھر جیسے ہی دوبارہ اپوزیشن بینچ پر بیٹھتی ہے۔
و ہی انقلابی باتیں اور اخلاقیات زندہ ہو جاتی ہیں۔ بہرکیف عمرانیات معاشرتی علوم کی سب سے جامع شاخ ہے جسے سادہ ترین الفاظ میں انسان کی معاشرتی زندگی کا مطالعہ کہا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کرپشن خون میں سرایت کر گئی ہے پھر چاہے وہ بدعنوانی مالی ہو یا اخلاقی، مورخ ابن خلدون نے اس معاشرتی زندگی کے مطالعے کو علم العمران کا نام دیا اور بنیاد رکھی۔یوں پاکستانی مورخ نے 2002 میں میانوالی سے صوبائی نشست دلوا کر عہد عمرانی کا آغاز کروایا۔اٹھارہ سالہ عہد عمرانی میں اخلاقیات، سیاست اور معاشرت کی معراج طے کرتی لفظ کرپشن یا بدعنوانی کو وہ، وہ عنوان دئیے کہ بچے بچے کو کرپشن کی تعریف رٹ گئی۔ یعنی ذاتی فائدے کے لیے طاقت کا غلط استعمال بدعنوانی یا کرپشن کہلاتا ہے۔
جس سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے، جمہوریت کمزور ہوجاتی ہے، معاشی استحصال ہوگا، ترقی مانند پڑ جائے گی، عدم مساوات، غربت ہوگی، معاشرتی تقسیم مزید گہری ہوگی۔ پھر 2013 سے 2018 تک آتے آتے پاکستان نے جانا کہ کیسے کرپشن کی گئی،کیسے پاکستانیوں کو لوٹا گیا اور بس اب انتظار تھا کہ مسیحا کب مسیحائی کرے اور جلد سے جلد کی آرزو پانامہ اسکینڈل نے پوری کر دی۔ معلوم ہوا پاکستان تو کرپشن کے دلدل میں گھرا ہوا ہے، اعلیٰ درجہ کے سیاست دان کسی نہ کسی طور کرپشن کی زد میں ہیں، دھاندلی پر عمرانی دھرنا جو مجبورا ًختم کرنا پڑا اسے پانامہ لیکس کا سہارا مل گیا اور پھر چھوٹی عدالتوں سے سپریم کورٹ تک پانامہ کا تذکرہ زبانِ زدِ عام ہوگیا۔ اہم ترین چہروں کے پیچھے چھپے دولت کے انبار بے نقاب ہوگئے۔
پانامہ اسکینڈل میں کم و بیش پاکستان کے 444 افراد کے نام عیاں ہو گئے جس میں سیاستدان، تاجر، بیوروکریٹس اور ججز بھی شامل تھے۔ پانامہ کیس کا مقدمہ تحریک انصاف نے دائر کیا جس میں منی لاڈرنگ، رشوت ستانی، اور متضاد بیانات کو بنیاد بنایا گیا تھا یہ اور بات ہے کے آف شور کمپنیز کی گنگامیں عمرانی لکشمن، زلفی بخاری کی بھی چھ آف شور کمپنیز سامنے آئی ہیں لیکن ایسے میں حاکم وقت نواز شریف کو صرف عدالت سے بالآخر سزا ملی اور تاحال حکومت میں ایسے بہت سے نو رتن ہیں جو کسی اور کے ساتھ تھے تو کرپٹ تھے لیکن اب عمرانی چھتری میں ان کے داغ دھل گئے ہیں۔ بہر کیف نواز شریف کو سزا کرپشن پر نہیں لیکن متضاد بیان پر ملی۔
عدالت نے اٹھائیس جولائی کو اپنے متفقہ فیصلہ میں لکھا کہ ‘میاں محمد نواز شریف عوامی نمائندگی کے قانون(روپا) کے سیکشن ننانوے ایف اور انیس سو تہتر کے آئین کی شق باسٹھ (ایک) (ف) کے تحت صادق نہیں اس لیے انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل کیا گیا۔جس بدعنوانی نے عوام کا جینا محال کیا تھا اس طبقے کو لگا اب شاید تقدیر بدلنے والی ہے لیکن پیسے کی ریکوری نہیں ہوئی اور 444 میں سے 1 کو سزا ہوئی۔ باقی 443 کا کیا بنا اب تک سناٹا ہے لیکن اس شاندار غلغلے کے بعد عہد عمرانی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔
ان دو سالوں میں حکومت نے ہر بیان، ہر پالیسی پر یوٹرن لیا لیکن اسے صداقت کے پیمانے پر پرکھا نہیں گیا۔ وہ عمرانی بیان کہ دوہری شہریت والے پارلیمان کا حصہ نہیں بن سکتے کسی اور ملک کے وفادار ہوتے ہیں کا اصول بدل گیا اورآج ایسے بہت سے حکومت میں شامل ہیں کچھ تو ایسے بھی ہیں جو کابینہ اجلاس کا حصہ بنے لیکن ممبر کیا مشیر کا بھی عہدہ نہیں رکھتے تھے۔کس کس بیان سے پھر نہیں گئے لیکن کہیں سے صادق و امین کی سند پر آنچ نہیں آئی، اخلاقیات و اصول کا بھانڈا ڈی چوک پر پھوٹ گیا مگر کہیں سے ملامت نہیں ہوئی۔ اگر جائیداد کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر کرنا لازمی ہے۔
تو کیا اولاد کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے یہ سوال بدخواہ اپوزیشن کرتی ہے جو یقینا الزام کے سوا کچھ نہیں ہے لیکن کیا مالی بدعنوانی کے ساتھ اخلاقی بدعنوانی پر آئین کی باسٹھ تریسٹھ شق لاگو نہیں ہوتی؟ باسٹھ د کہتی ہے رکن پارلیمنٹ اچھے کردار کا حامل ہو، شق باسٹھ ہ کے تحت وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز گناہ کبیرہ گناہوں سے بچا ہوا ہو، اور باسٹھ و کے مطابق وہ سمجھدار، پارسا ہو اور فاسق نا ہو اور ایماندار اور امین ہو۔عہد عمرانی نے سوال کرنا، سوچناسکھایا ہے اسی لیے یہ الجھن پیدا ہو رہی ہے، کیا ہوا ان وعدوں، دعوؤں اور اخلاقیات کا جس کا راگ الاپا جاتا رہا ہے مجھ جیسے عام ووٹر کو سکھایا گیا تھا۔
بل زیادہ آئے مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھ جاؤں وزیر اعظم چور ہے، توکیا اب بھی میں ایسا ہی سمجھوں؟ جو کچھ کہا جاتا رہا اس کے مطابق بدعنوانوں کے دور کا خاتمہ 2018 میں ہو گیا مگر یہ کیا بدعنوانی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ‘ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل’ نے دنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانی کے تاثر کے بارے میں جوسالانہ فہرست 2019 کے لیے جاری کی تھی اس میں پاکستان کی درجہ بندی میں ایک پوائنٹ کی تنزلی ہوئی ہے اور پاکستان اس عالمی فہرست میں نائیجر اور مالدووا کے ساتھ 19ویں نمبر پر رکھا گیا۔
اس کا اسکور 32 اور رینکنگ 120 ہے جبکہ عالمی ادارے کی 2018 کی رپورٹ میں پاکستان کا اسکور 33 اور رینکنگ 117 رکھی گئی تھی اور یہ اسکور اس سے پہلے کے دو برسوں سے ایک درجہ بہتر تھا یعنی 2019 میں پاکستان ایک مرتبہ پھر سرکاری محکمہ جات میں بدعنوانی کے معاملے میں 2017 اور 2016 کے برابر آ گیا ہے۔
اور اس وقت صورتحال یہ ہے کے پہلے ٹماٹر پھر چینی، تیل، آٹا جبکہ جعلی پائلٹ لائنسنز کا معاملہ کوئی ایسا محاذ نہیں جہاں صورتحال دگرگوں نہیں، اس وقت روپے کی گری ہوئی قدر، مہنگائی اور بیروزگاری مجھے سہما رہی ہے، کیونکہ انقلابی اقدامات، اور پالیسز کا ٹیڑھا پن جتنا سیدھا کر لیا جائے وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے، جس میں ایک طرف اپوزیشن کی آہ و فغاں ہے۔
دوسری طرف نت نئے آرڈینس کے نتیجے میں سیاسی غوں غاں، کہیں بدعنوانوں سے 466 ارب برآمد کر کے جو قومی خزانے کو جمع کروائے اس کا کیا ہوا؟ کیونکہ عوام کو مطلب گندم سے ہے، اسی خوشہ گندم کی پاداش میں آدم رسوا ہوئے تھے،،،، بھوکے پیٹ، خالی جیب، مہنگی ادویات، بلوں کے بوجھ سے دوہری ہوتی کمر کو باسٹھ تریسٹھ، اور سدھرتی معیشت کی باتیں من گھڑت فسانہ لگتی ہیں،،،،،،،، اب لوگ گھبرا رہے ہیں،،،،،، سوال کر رہے ہیں۔کیا سیاسی رام لیلا ایسی ہی رچی جاتی رہے گی اور بدعنوانی کے شور میں عوامی ضروریات اور عوام کا گلا یوں ہی گھونٹا جاتا رہے گا؟ کیا فرشتوں کے لکھے پر عوام کی بلی یوں ہی چڑھتی رہے گی؟