بلوچستان کے وسیع وعریض ساحلی پٹی پر ایک طویل عرصہ سے مختلف قسم کے پروجیکٹس جاری ہیں، جیونی سے لیکر گڈانی و ڈام کے ساحل تک کیا سے ہورہاہے شاید ہماری نظروں سے اوجھل ہوں لیکن مستقبل قریب میں ہمارے لیے انتہائی بھیانک ثابت ہونگے۔گوادر جو سی پیک کا مرکز کہلاتا ہے وہاں کے باسی آج بھی ایک بوند پانی کیلئے،بجلی کیلئے اور اس صدی میں ایک جدید سہولیات سے لیس ہسپتال کیلئے ترس رہے ہیں وہاں کے باسیوں کو بجلی کی سہولت دینے،پینے کیلئے صاف پانی فراہم کرنے،اور جدید ہسپتال دینے کیلئے تو پیسہ نہ وفاق کے پاس ہے۔
اور نہ ہی صوبے کے پاس لیکن دوسری جانب اسی گوادر کے پدی زری میں لائٹ لگانے،خوبصورت سڑک بنانے اور باتیل پہاڑی پر دیگر صوبوں سے آنے والے سیاح اور لینڈکروزر گاڑیوں میں گھومنے والوں کی عیاشی کیلئے سیر وتفریح کیلئے مختلف جگہیں بنائی جارہی ہیں۔ جنہیں قانونی شکل دینے کے لیے اب ایک اور بہت ہی خطرناک فیصلہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ کیاگیاہے کہ سندھ ا ور بلوچستان کے جزائر وفاق کی ملکیت ہیں۔ بلوچ ماہی گیر ہوں یا پھر بلوچستان کے باسی، دو وقت کی روٹی کیلئے جن دروازعلاقوں میں جاتے ہیں اب انکے لیے وہ راستے مسدود کیے جارہے ہیں۔
بلوچ ساحل جہاں ساحلی علاقوں پر آباد غریب بلوچوں کی آبادیاں ہیں جن کی کمائی کا واحد ذریعہ ساحل سمندر ہے اب وہ بآسانی وہاں جا نہیں سکتے۔ دوسری جانب بلوچ عوام کی معیشت کا انحصار تیل برداری پر ہے اب باڈروں پر انکی تذلیل کی جارہی ہے اور وہاں ان سے جبری مشقت کا کام لیاجاتاہے تاکہ وہ انگریز کے مسلط کردہ حدود سے تجاوز نہ کریں کیونکہ یہ ہر ذی شعور کو معلوم ہے کہ ایران کے بارڈر کے دونوں جانب بلوچ ہی آباد ہیں، انکا ایک دوسرے کیساتھ رشتہ داریاں بھی ہیں،قربت بھی ہے،اب بارڈروں کو بند کرکے ہمیں بھوک سے مارنے اور ساحلی علاقوں پر قبضہ کرکے وہاں نئی۔
آباد کاری کے ذریعے ہمیں ہمیشہ کیلئے مٹانے کا پروگرام بنا یاگیاہے۔بلوچستان میں ”باپ“کی حکومت بنائی ہی اسی لیے گئی تاکہ یہ فرنبردار بلوچستان کے ساحل و وسائل کی لوٹ مار وقبضہ گیری پر آنکھیں بند رکھیں۔ اب ظاہر سی بات ہے یہ لوگ جو سلیکٹ ہوکر اسمبلیوں تک پہنچے ہیں انہیں نہ بات کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی یہ بولنے کی سکت رکھتے ہیں۔ساحلی علاقوں پر سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے چائینہ کے تعاون سے ہزاروں ایکڑوں پر مشتمل جدید ایئر پورٹ کی تعمیر تیزی سے جاری ہے جبکہ دوسری جانب جیونی سے لیکر گڈانی تک مختلف ہاؤسنگ اسکیموں کے ذریعے ساحلی علاقوں کی زمینوں پرتعمیراتی کام تیزی کیساتھ جاری ہے۔
تاکہ یہاں کی آبادی مکس ہو،زبان بھی مکس، ثقافت وتہذیب بھی مکس جب زبان زمین اور ثقافت باقی نہیں رہے تو پھر ایک قوم کی شناخت بھی باقی نہیں رہیگی۔ گوادر جو پورٹ سٹی ہے وہاں کے مکینوں کی مکانات تاریکی کے گڑھ ہیں جبکہ گوادر اور جیونی کے درمیان رات میں آپ سفر کریں تو جدید ہاؤسنگ اسکیموں میں برقی قم قم اور اسٹریٹ لائٹس بظاہر ایک خوبصورت مگر ہمارے لیے ایک تاریک اور بھیانک مستقبل کی نوید لیکر چمکتے رہتے ہیں۔ اگر حکومت مخلص ہوتی تو یقینا پہلے ماہی گیروں کو گودی فراہم کرتی،گوادر سمیت بلوچستان کے باسیوں سے روزی روٹی نہیں چھین لیتی لیکن دیگر منصوبوں کیلئے پیسہ بہت ہے۔
جبکہ گوادر کیلئے اور اہلیان بلوچستان کیلئے پیسہ نہیں۔ بلوچستان میں پارلیمنٹ نام کی کوئی چیز نہیں کیونکہ پارلیمنٹ میں عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہیں کوئی سلیکٹ ہوکر نہیں آتا،اسی لیے پارلیمنٹ پر سے عوامی اعتماد ختم ہوگیا ہے کیونکہ ایسے سلیکٹیڈ پارلیمنٹ میں نہ اپنی شناخت اور نہ ہی ساحل وسائل کی حفاظت کیلئے قانون سازی کرسکتے ہیں۔ وقت کا تقاضاہے کہ بلوچستان کے لیڈران وفاق کے ان عزائم کیخلاف متحد ہوکرتمام سیاسی وسماجی اور علاقائی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک مؤثر آواز بن کر میدان میں نکلیں اور واضح پالیسی بنائیں۔
کیونکہ ہماری خاموشی اور چند ایک بیانات اور چھوٹی موٹی احتجاج سے یہ طاقت ور مافیاء رکنے والا نہیں اور انہی کی مرضی ومنشاء سے بلوچستان کے جزائر پر وفاق نے قبضہ کرلیاہے جو ہم سب پر عیاں ہے۔ وفاق سے لیکر صوبہ بلوچستان تک ہرجگہ سلیکٹڈ کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے عوام پر مسلط کیا گیاہے لیکن بلوچ قوم کیلئے مستقبل بہت بھیانک ہے اسی لیے اتحاد واتفاق سے ہمیں ایک فیصلہ کرناہوگا وگرنا آج ساحل بلوچستان سمیت بلوچستان کو ہر طرف سے جس طرح گھیرلیاگیاہے بہت تشویشناک ہے۔