ڈیرہ مراد جمالی سے گزرنے والی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اب تو اس کی مرمت بھی نہیں کی جارہی ہے لوگوں کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے۔شہر سے گزرنے والی سڑک پر ٹرالرز سمیت بڑی گاڑیوں کی آمدورفت سے شہری شدید ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں دن بھر دھول اڑتی رہتی ہے شہری پریشان حال ہیں کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی اور ڈیرہ اللہ یار تک طویل سڑک کے دونوں اطراف دکانوں کی تعمیر سے اس سڑک ہر ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہو رہی ہے بائی پاس بنانے کی شدید ضرورت ہے لیکن اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ علاقے کے عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی اور غفلت سے علاقے کے مسائل جو ں کے توں ہیں جاگیردارانہ ذہن رکھنے والے لوگ بھلا کیوں غریبوں کی اصلاح بارے سوچیں گے انہیں صرف اور صرف انتخابات کے دنوں میں علاقہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
لاوارث ڈیرہ مراد جمالی کی حالت زار
ڈویژنل ہیڈ کوارٹر نصیر آباد”ڈیرہ مراد جمالی“سمیت اس کے دیگر شہر اوستہ محمد، ڈیرہ اللہ یار، گنداخہ، سمیت چھوٹے بڑے دیہاتوں کے عوام آج بھی اس جدید دور میں آبنوشی،تعلیم، صحت سمیت دیگر اہم بنیادی سہولیات سے محروم چلے آرہے ہیں اس خطے کی بدقسمتی کیلئے یا خوش قسمتی کہ اس سرزمین نے ملکی سطح پر وزیراعظم، نگران وزیراعظم، وزیراعلیٰ سمیت دیگر وزراء بھی مہیا کئے لیکن یہاں کے لوگوں کی قسمت نہ بدلی،یہ شہر آج بھی جدید شہر نہ بن سکے۔ نہ تو یہاں جانیوالی سڑکیں پختہ ہیں اور نہ ہی تعلیم وصحت کی سہولیات کافی ہیں، صورتحال یہ ہے کہ آئے وز سوشل میڈیا پر بارشوں کے دوران ان شہروں کی جو درگت بنتی ہے وہ دیکھ کر انتہائی حیرانی ہوتی ہے کہ آج بھی اس علاقے کے”منتخب رکن اسمبلی صاحبان“جن میں صوبائی اسمبلی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں معزز اراکین شامل ہیں۔
یہاں اس علاقے کے ممبران موجود ہیں جو ایمانداری سے کام کرنا چاہیں تو ان علاقوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگالیجئے کہ اس علاقے سے میراتعلق نہیں لیکن مجھے یہ علاقہ عزیز ہے اس لیے کہ یہ بھی بلوچستان کہلاتا ہے کبھی کبھار میری گزر بھی اس سڑک کے ذریعے سبی کے راستے ڈیرہ مراد جمالی، ڈیرہ اللہ یار،جیکب آباد، سکھر تک ہوتی ہے ایک مرتبہ جیکب آباد سے بذریعہ سڑک کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ جیکب آباد سے کراچی تک جی ٹی روڈ بہترین سڑک کے طور پر نظر آئی جہاں ٹریفک دوریہ سڑک پر رواں دواں،تھی شہر بھی آباد نظر آئے بائی پاسز بھی شاندارتھے۔
جہاں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ریسٹورنٹ اور دیگر ہوٹلز بھی دیکھے مطلب اس راستے سے آپ کبھی بور نہیں ہوں گے لیکن دوسری جانب ہم بلوچستان والے انتہائی بد نصیب ہیں کہ ہمیں ذرائع آمدورفت کے لیے جدید سڑکیں یعنی دو رویہ سڑکیں مہیا نہیں۔کوئٹہ جو صوبائی دارالحکومت ہے،سے دیگر صوبوں یعنی کوئٹہ کراچی، کوئٹہ سے جکیب آباد، کوئٹہ سے ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان،کوئٹہ سے لورالائی ملتان اور کوئٹہ سے تفتان کیلئے سنگل سڑکیں ہیں جہاں آئے دن حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اس کے باوجود وفاقی سطح پر اور صوبائی سطح پر ان سڑکوں کی حالت زار بہتر بنانے اور انہیں دو رویہ بنانے کی نہ تو ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
نہ ہی کوئی اس بارے ٹس سے مس ہو رہا ہے۔کوئٹہ کراچی، کوئٹہ اسلام آباد ژوب کی سڑکوں پر سفر کرنے سے آج ہر شہری خوفزدہ نظر آتا ہے کیونکہ پے در پے حادثات اور قیمتی جانوں کے ضیاع نے ہر شہری کو نفسیاتی طور پر خوفزدہ کر دیا ہے جب بھی اخبار اٹھائیں ان سڑکوں پر حادثات اور ہلاکتوں کی خبریں ضرور آپ کی نظروں سے گزریں گی، کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ ان سنگل سڑکوں پر حادثات اور ہلاکتیں نہ ہوں۔ اب تو ہم انتہائی بے حس ہو چکے ہیں کہ ان اموات کو محض ایک خبر جان کر اور پڑھ کر دوسری خبروں پر توجہ دیتے ہوئے نظریں ہٹا دیتے ہیں،یہ ہماری بے حسی اور ڈھٹائی کی آخری حد ہے۔
آج ہم جس طرح فلسطین یا جموں کشمیر میں ہلاکتوں کو خبر سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں یہ سمجھ کر کے یہ تو فلسطین اور جموں کشمیر میں ہلاکتیں ہیں ہمارا کیا۔ بالکل اسی طرح ان حادثات کے بارے میں ہمارے جذبات یہی بن چکے ہیں۔ سوراب کے قریب کمشنر مکران طارق زہری ٹریفک حادثے کے نتیجے میں گاڑی میں آگ پکڑنے سے ڈرائیور سمیت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اس طرح کے حادثات سینکڑوں کی تعداد میں ہو چکے اور تواتر کیساتھ ہو رہے ہیں، ہم نے طارق زہری کے حادثے کی خبر کو پڑھا اور پھر ہمیں یاد بھی نہ رہا کہ طارق زہری سمیت ابتک کتنے جوان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
مجھے رہ رہ کر ڈیرہ مراد جمالی کی شہر سے نکلنے والی سڑک یاد آتی ہے کہ جب اس شہر کو ڈیزائن کیا گیا تو اس وقت کی آبادی کے لحاظ سے شاہد یہ بہترین ہوگی لیکن آج صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے، یہ قومی شاہراہ غالباً دس پندرہ کلو میٹر تک ہوگی جو ڈیرہ مراد جمالی سے ڈیرہ اللہ یار کو جاتی ہے اس شاہراہ کے دونوں جانب سینکڑوں دکانیں کھل چکی ہیں مطلب یہ شہر آج لاہور اور گوجرانوالہ کی طرح بن چکا ہے کیونکہ یہ شہر اب آبادی کے لحاظ سے تقریباً مل چکے ہیں یہی صورتحال ڈیرہ مراد جمالی اور ڈیرہ اللہ یار کی ہو چکی،دونوں شہر اس واحد اکلوتے سڑک کی وجہ سے تقریباً مل چکے ہیں۔
لیکن افسوس کے اس سڑک کو کشادہ اور دو طرفہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی،صرف یہی نہیں یہ سڑک قومی شاہراہ ہونے کے باوجود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اس سڑک پر دن بھر بھاری ٹریفک جن میں ٹرالر سمیت درجنوں بسیں اور چھوٹی گاڑیاں سندھ اور پنجاب کیلئے گزرتی ہیں جسے سندھ بلوچستان قومی شاہراہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی حالت انتہائی دگرگوں ہے ٹریفک حادثات میں مسلسل اضافے سے شہری پریشان ہیں اس شہر سے نکلنے میں دو گھنٹے سے زائد لگ جاتے ہیں کیونکہ شہر کے وسط میں موجود سڑک ایک بازار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
سڑک کے دونوں اطراف سینکڑوں دکانیں تعمیر کر کے اس کی چوڑائی میں انتہائی تنگی پیدا کی گئی ہے اور پھراردگرد دیہی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر لگ بھگ ڈیڑھ ہزار کے قریب گدھا گاڑیاں سڑک کی دونوں جانب ”پارک“کئے ہوئے ملتی ہیں جو ٹریفک کی روانی میں شدید رکاوٹ کا باعث ہیں۔آپ کا کوئٹہ سے ڈیرہ مراد جمالی کا سفر انتہائی خوشگوار گزرے گا،وادی بولان میں ندیوں کے مناظر سے لیکر ڈھاڈر اورسبی بائی پاسز سے آپ آسانی سے اپنی سفر رواں رکھ سکتے ہیں جب آپ ڈیرہ مراد جمالی شہر کی اس مصروف سڑک پرجسے بازار بھی کہا جاسکتا ہے۔
آپ کو یہ سفر گھنٹوں میں طے کرنا ہوتا ہے، آپ کو ہزاروں گدھا گاڑیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شہر کی وسطی سڑک ہونے کے باعث درجنوں دکانیں، ہوٹلز اور ان میں موجود سینکڑوں افراد کی چہل قدمی ایک الگ داستان ہے، مقصد یہ کہ آپ کو اس سڑک پر دو گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ لگتا ہے، آپ شدید کوفت محسوس کرتے ہیں میں نے آج سے کئی سال پہلے اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے اپنی درگت دیکھی جسے میں آج بھی محسوس کرسکتا ہوں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے انسان کے روپ میں بنایا ہے جانور نہیں کہ جس کے احساسات وجذبات نہیں ہوتے لیکن حیرانی ہوتی ہے۔
مجھے علاقے کے ایم پی ایز صاحبان، سینیٹر صاحبان،موجودہ اور سابقہ وزراء صاحبان، سابق وزراء اعلیٰ صاحبان، سابق وزیراعظم اور نگران وزیراعظم کے عہدے پر براجمان والی ہستیوں کے رویے پر کہ وہ کس طرح اس سڑک پر سفر کرتے ہیں اور کس طرح اس سڑک کی حالت زار سے آنکھیں چراتے ہیں۔ حکومتی ایوان میں کلیدی حیثیت رکھنے کے باوجود عوام کے مسائل اور مشکلات کا احساس اور درد نہ رکھتے ہوئے بے حس بن گئے ہیں۔ آج بھی میں یہ کالم ایک اخبار نہیں نامہ نگار کی خبر پڑھ کر دوبارہ لکھنے پر مجبور ہوا، جس میں نامہ نگار نے اپنا حق ادا کرتے ہوئے۔
اس سڑک کی حالت زار بارے اپنا درد دل بیان کیا بقول نامہ نگار کے اس سڑک پر پندرہ منٹ کا سفر دو گھنٹے میں طے کرنا پڑ رہا ہے تعمیر ومرمت کے نام پر کروڑوں روپے صرف کئے جارہے ہیں لیکن سڑک ٹوٹ پھوٹ کا مسلسل شکار ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی میں بائی پاس کی اشد ضرورت ہے لیکن علاقہ کے معزز اراکین اسمبلی اور این ایچ اے حکام کی عدم دلچسپی اور غفلت کے باعث اس شہر کو بائی پاس سے مسلسل محروم رکھا جارہا ہے۔ سیاسی وسماجی حلقوں کی جانب سے بارہا احتجاج کیا گیا لیکن نتیجہ صفر!جبکہ دوسری طرف شہری شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں سڑک کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
حتیٰ کہ پیدل چلنا بھی محال ہو چکا ہے۔ ٹرانسپورٹروں کو گاڑیوں کی ٹوٹ پھوٹ سے بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے اس کے باوجود اس سڑک اور شہر سے باہر بائی پاس بنانے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔بائی پاس کے کئی بار اعلانات کئے گئے لیکن یہ منصوبہ اب تک کسی منڈیر پر چڑھتے نظر نہیں آرہی بلکہ دور دور تک یہ نظر تک نہیں آرہی۔ افسوسناک صورتحال تو علاقہ کے معزز اراکین اسمبلی،صوبائی وزراء، سینیٹر صاحبان کی ہے جن کی حکومتی سطح پر بلوچستان اور وفاق کی سطح پر اسلام آباد تک رسائی ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں۔
چونکہ وہ اپنی فیملی سمیت کوئٹہ،کراچی، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کو منتقل ہو چکے ہیں جہاں ان کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم سے بیرہ ور ہو رہے ہیں، ان کی شاذونا در علاقے میں آمد ہوتی ہے سوائے انتخابات کے دنوں میں یہ موسمی پرندوں کی طرح دوبارہ اپنے اپنے علاقوں میں آکر سالوں گزرنے والی فوتگیوں پر فاتحہ خوانی کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے ووٹر کی گھر تک جاپہنچتے ہیں اور پھر اپنی چکنی باتوں سے عوام کو رام کر کے ووٹ لیکر ٹھگ لیتے ہیں اور انتخابات میں کامیابی کے بعد یہ ”جاوہ جا“پھر علاقے سے غائب ہوجاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں جاگیردارانہ نظام آج تک ٹوٹ نہ سکا،لوگوں کی اکثریت چھوٹے چھوٹے کاشتکاروں پر مشتمل ہے وہ”ان بڑوں“کی مخالفت کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ نسل در نسل ان بڑوں کے”غلاموں“کا کردار ادا کر رہے ہیں،جب غلام اور آقا کارشتہ علاقہ میں قائم ہو تو ایسے میں ان بڑے بڑے جاگیرداروں سے کسی اچھے کی امید کرنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ اوچ پاور پلانٹ ڈیرہ مراد جمالی شہر کے قریب جبکہ حبکو پاور پلانٹ حب کے شہر میں قائم ہے ہمیں یاد نہیں ہوگا کہ ان کمپنیوں کی جانب سے کسی فلاحی کام یا غریب نادار طلباء کی تعلیم کے سلسلے میں انہیں وظائف دئیے جاتے ہوں یا کوئی ایسا اعلان تک نظروں سے نہیں گزرا۔
وجہ یہ ہے کہ یہ کمپنیاں صوبے کی گیس لیکر بجلی کی ترسیل دیگر صوبوں کو کرتی ہیں جبکہ ڈیرہ مراد جمالی اور حب کو آج تک بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور بریک ڈاؤن سے نجات نہ مل سکی اس کی وجہ ان علاقوں کے ”بڑوں“کی کمپنیوں سے بارگیننگ ہے ان کو سب کچھ مل رہا ہے یادیا جارہا ہے جبکہ عوام کے نام پر عوام ہی کا استحصال جاری ہے،یہ سلسلہ کب تک جاری رئیگا اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتے۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی تبدیلی آجائے تو دوسری بات ورنہ ان نمائندوں کے ہاتھوں کوئی تبدیلی دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ اللہ خیر کرے ہماری نیک خواہشات ڈیرہ مراد جمالی کے لوگوں کیساتھ ہیں۔