وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے کہ اس نے یا اس کی حکومت نے ٹی سی سی سے نیا معاہدہ کیا ہے اور کمپنی کو اجازت دی ہے کہ مائننگ دوبارہ شروع کرے۔ یہ الزام ایک ٹی وی اینکر پرسن نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں لگایاکہ حکومت بلوچستان اور خصوصاً وزیراعلیٰ بلوچستان ریکوڈک کے تانبے اور سونے کے ذخائر کا سودا کررہا ہے۔ اس الزام پر وزیراعلیٰ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اینکر پرسن کو قانونی نوٹس دیں گے اور اگر انہوں نے معافی نہیں مانگی اور ان کا جواب تسلی بخش نہیں ہوا تو وہ عدالت جائیں گے اور ان کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ریکوڈک کے تانبے اور سونے کے ذخائر 1990کی دہائی میں دریافت ہوئے تھے۔ آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی نے بلوچستان ترقیاتی ادارے بی ڈی اے سے معاہدہ کرکے اس کے حقوق حاصل کئے۔BHPنے اس پر سالوں کوئی کام نہیں کیا اور آخر کار دو بین الاقوامی کمپنیوں کے کنسورشیم کو فروخت کیا جنہوں نے TCCکے نام سے کمپنی بنائی۔ اس نے کام شروع کیا۔ صوبائی حکومت کا الزام ہے کہ TCCنے قانون کی خلاف ورزی کی اور اس لئے اس کو مزید کام/ ذخائر نکالنے اور استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔اسی طرح سپریم کورٹ نے بی ایچ پی اور بی ڈی اے کے درمیان معاہدے کو کالعدم قرار دیا اور کہا کہ وہ قانون کے خلاف ہے۔ ٹی سی سی نے حکومت بلوچستان سے لیزحاصل کرنے کے لیے درخواست دی جس کو گزشتہ حکومت نے مسترد کردیا اور الزام لگایا کہ ٹی سی سی نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کو 60مربع میل کا علاقہ سروے کرنے کو دیا گیا تھا اس نے 90مربع میل پر کام کیا اور اس طرح 30مربع میل کا مزید علاقہ ہتھیانے کی کوشش کی۔ کمپنی نے اس الزام کو مسترد کردیا اور دعویٰ کیا کہ حکومت بلوچستان نے کمپنی کونقصان پہنچایا اور وہ اس مقدمہ کو بین الاقوامی ٹریبونل میں لے گیا۔ دوسری جانب پاکستان کی مخدوش معاشی صورت حال نے حکمرانوں کو پریشان کردیا ہے۔ معاشی اور مالی پریشانیوں سے نکلنے کا واحد راستہ پاکستانی حکمرانوں کو یہ نظر آیا کہ وہ بلوچستان حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ٹی سی سی سے عدالت کے باہر کوئی معاہدہ کرے تاکہ کسی نئی بین الاقوامی کمپنی کو ریکوڈک دیا جائے اور اس طرح پاکستان کے مالی اور معاشی مسائل کا حل نکالا جائے۔ اس پر موجودہ بلوچستان کے حکمران راضی نہیں ہیں جس سے وفاق زیادہ پریشان ہے اور اس نے حکومت بلوچستان کو یہ دھمکی دی کہ اگر بین الاقوامی عدالت کا فیصلہ حکومت پاکستان کے خلاف آیا تو حکومت پاکستان وہ تمام جرمانہ بلوچستان کے وسائل سے ادا کرے گا۔یعنی این ایف سی ایوارڈ میں جتنی رقم بلوچستان کو ملنی ہوگی وہ اس کو جرمانہ کے مد میں جمع کرایا جائے گا۔ بلوچستان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ یہ وفاقی وزراء اور حکام کی طرف سے صاف اور واضح دھمکی ہے اور اس معاملے کو ڈاکٹر مالک کیسے حل کرتے ہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
ریکوڈک کے ذخائر اور بلوچستان پر دباؤ
وقتِ اشاعت : December 13 – 2014