ملک میں تیزی سے بڑھتی سیاسی محاذ آرائی پہلے سے موجود معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کو نہ صرف مزید مہمیز کر سکتی ہے بلکہ ملک کو انتشار اور انارکی کے راستے پر گامزن کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
قابل اجمیری کہتے ہیں کہ
”وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا“
اس شعر کے مصداق ہم اگر تاریخ پر پڑی گرد کو ہٹا کر دیکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ جب جب ملک پر آمریت مسلط کی جاتی تھی تو اس کا جواز یہی فراہم کیا جاتا تھا کہ ملک میں جاری سیاسی انتشار سے قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور موجودہ سیاسی قیادت ملک چلانے کی اہل نہیں اور جلد ہی الیکشن کرواکر ملک کو ایماندار سیاسی قیادت کے سپرد کیا جائے گا لیکن یہ وعدہ ہر دس یا گیارہ سال بعد اس وقت وفا ہو تا تھا جب ملک دولخت ہوچکا ہوتا ہے یا پھر ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر، فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی، دہشت گردی اور انتہا پسندی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہوتی تھی۔
مارشل لاء کی راہ ہموار کرنے یا حالات کو بند گلی تک پہنچانے والے اسباب کا اگر بغور جائزہ لیں تو صاف نظر آئے گا کہ غیر جمہوری قوتوں اور ان کے گماشتوں کی سویلین بالادستی کے خلاف کی جانے والی سازشیں اور ریشہ دوانیاں حالات کو سنگین شکل اختیار کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتی تھیں جسے بنیاد بنا کر منتخب جمہوری حکومتوں کو برطرف کیا جاتا تھا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں ایک سیاسی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے قتل کردیا گیا پھر اس کے بعد 1958 تک صرف سات سالوں میں چھ وزراء اعظم کو تبدیل کیا گیا۔
پاکستانی وزراء اعظم کی اس میوزیکل چیئر کے بارے میں ہندوستان کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو سے منسوب یہ فقرہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ ‘میں تو اتنی جلدی دھوتیاں بھی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیرِ اعظم بدل لیتے ہیں۔’خواجہ ناظم الدین، محمدعلی بوگرہ، چوہدری محمدعلی، حسین شہید سہروردی،ابراہیم اسماعیل چندریگراور ملک فیروز خان نون وزیر اعظم کے عہدے پر لائے گئے ان میں سے کچھ کو استعفیٰ دینے کے لیے مجبور کیا گیا اور کچھ کو جبراً معزول کیا گیا۔ 7 اکتوبر 1958 کو پاکستان کے پہلے صدر (جنرل) اسکندر مرزا نے آئین معطل، اسمبلیاں تحلیل اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء لگا دیا۔
اسکندر مرزا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ شخصیت تھے اس لیے انہوں نے ملک کو جمہوریت کے بجائے آمریت کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسکندر مرزا کی یہ کوشش تھی کہ وہ صدر کے عہدہ پر ہمیشہ فائز رہیں اس لیے انہوں نے سیاست دانوں کا ایسا گروہ تیار کیا جس نے سازشوں کے تانے بانے تیار کیے۔ اسکندر مرزا کے اشاروں پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد جنرل ایوب خان کو مارشل لاء چیف ایڈ منسٹریٹر فیلڈ مارشل تعینات کرکے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری۔
کچھ ہی عرصے میں ایوب خان کے اسکندر مرزا سے اختلافات شدت اختیار کر گئے جس کے بعد ایوب خان نے اسکندر مرزا کو معزول کرکے خود ہی صدر کے عہدے پر براجمان ہوگئے۔ ملک کا دوسرا مارشل لاء بھی سیاسی محاذ آرائی کو جواز بنا کر لگایا گیا، ملک بھر میں ایوب خان کے خلاف احتجاج نے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کر دی تھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بلوائیوں کو روکنا مشکل ہو گیا تھا اور بالاآخر ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحیٰی خان کو ملک کا صدر بنا دیا لیکن یحیٰی خان نے ملک میں دوبارہ مارشل لاء نافذ کردیا۔
ملک میں تیسرا مارشل لاء اس وقت لگا جب 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کو جواز بنا کر عوامی اتحاد نے ملک گیر احتجاج شروع کیا تھا ان احتجاجوں میں کئی خونریز تصادم بھی ہوئے جس کے بعد پانچ جولائی 1977 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے آئین معطل کرکے ملک میں مارشل لاء کےْ نفاذ کا اعلان کردیا تھا۔ چوتھے مارشل لاء کا نفاذ باقیوں سے اس لیے مختلف تھا کہ مسلم لیگ دو تہائی اکثریت کے ساتھ ملک میں حکمرانی کرنے والی ملکی تاریخ کی پہلی جماعت تھی لیکن سویلین حکومت کی برطرفی میں دو تہائی اکثریت کام نہیں آئی۔ 12 اکتوبر 1999 کو وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو عہدے فارغ کیا جب وہ ایک غیر ملکی دورے پر تھے ملک میں موجود فوجی قیادت نے اس فیصلے کو مسترد کردیا، جنرل پرویز مشرف جب ملک پہنچے تو انھوں نے نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
کیا آنے والے دنوں میں متوقع سیاسی محاذ آرائی ملک میں پانچویں آمریت کی وجہ بن سکتی ہے اس متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا لیکن تبدیلی سرکار اپنی ناعاقبت اندیشی میں پارلیمانی اور جمہوری اصولوں کو روند کر اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جس سے سیاسی درجہء حرارت میں اضافہ ہورہاہے۔ جمہوری معاشروں میں منتخب حکومت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعہ حکومتی امور چلاتی ہے سیاسی اختلافات اور مختلف ایشوز پر الگ الگ رائے رکھنے کے باوجود حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ اپوزیشن کے تعاون کے ذریعہ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جاسکے لیکن عمران خان کی حکومت پہلے دن سے ہی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے گریزاں ہے۔
اہم قانون سازی، داخلہ اور خارجہ ایشوز یا ملکی سلامتی کے معاملات ہوں وزیراعظم نے کبھی بھی اپوزیشن لیڈر یا پارلیمانی پارٹیوں کے راہنماؤں سے مشاورت کو اہمیت نہیں دی۔ فسطائیت سے ملتے جلتے یہ رحجانات پارلیمانی جمہوری سیاست کو شدید متاثر کرسکتے ہیں پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے آرڈیننس سے کام چلانا، صوبوں کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر آرڈیننس کے ذریعہ ان کے جزائر کو ترقی دینے کے نام پر اپنی تحویل میں لینا، این ایف سی میں صوبوں کے شیئرز سے کٹوتی کرنا، نئی این ایف سی جاری نہ کرنا اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنا نیز وقت پر سی سی آئی کا اجلاس نہ بلانا ایسے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات ہیں۔
جو نہ صرف جمہوری و پارلیمانی نظام کو تہہ و بالا کرنے بلکہ چھوٹے صوبوں میں پہلے سے موجود اضطراب اور محرومی میں اضافہ کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کو غدار، چور، ڈاکو اور کرپٹ کے القابات سے نوازنے اور انھیں جیل میں بند کرنے کی دھمکیاں وزیراعظم عمران خان تواتر سے دے رہے ہیں جبکہ عملی طور پر نواز شریف سمیت ن لیگ کے چالیس اہم رہنماؤں کے خلاف پہلے ہی غداری کا مقدمہ دائر کردیا گیا ہے دوسری طرف حکومت گرانے کے لئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی احتجاجی تحریک کا آغاز سولہ اکتوبر کو گوجرانوالہ کے جلسہ عام سے ہورہا ہے۔
اس کے بعد اٹھارہ اکتوبر کو کراچی اور پچیس اکتوبر کو کوئٹہ میں بھی ہونے والے جلسہ عام کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ اپوزیشن کی سرگرمیوں سے لگ رہا ہے کہ وہ حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے کمر بستہ ہے ابتدائی جلسوں کے بعد اپوزیشن کی آپس میں یکجہتی، عوامی پذیرائی اور حکومت کو گھر بھیجنے والے اپنے عزم سے کمٹمنٹ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکے گا۔ وفاقی حکومت اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کو توڑنے، ان جماعتوں میں اختلافات کو ہوا دینے، نیب اور ایف آئی کو اپوزیشن کے خلاف مزید کیسز بنانے کے لیے سرگرم کرانے جیسے اقدامات اٹھا رہی ہے۔
جس سے اپوزیشن جماعتوں میں مزید اشتعال پیدا ہورہا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کی جارحانہ تقاریر کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا بیانیہ بھی سخت ہوتا جارہا ہے ابھی تو اپوزیشن کی تحریک شروع ہونے جارہی ہے جب یہ تحریک اپنے عروج پر ہوگی تو اندازہ لگائیں سیاسی محاذ آرائی اور انتشار کی کیا کیفیت ہوگی۔