|

وقتِ اشاعت :   November 1 – 2020

بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے مگر ہے پسماندہ، ہر حوالے سے۔سونا، چاندی، کرومائیٹ، زنک، جپسم، نمک، سنگ مرمر،قدرتی گیس،تیل،مچھلی،اور پورا خطہ زرعی اجناس کی پیداوار کے لئے انتہائی مفید،تمام پھل فروٹ سبزی اناج و دیگر اجناس کے لیے اپنی جغرافیائی اعتبار سے ثانی نہیں رکھتا۔ طویل ساحلی پٹی اس کی جغرافیائی اہمیت کو چار چاند لگا دیتا ہے وسطی ایشیاء ریاستوں کو قریب تر کرنے کیلئے آبی گزرگاہ آبنائے ہرمز جن پر بین الاقوامی طاقتوں امریکہ یورپ چائینہ اور روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی جد وجہد سے کون واقف نہیں ہے۔

بلوچستان کنفلیکٹ زون میں واقع ہے اورجغرافیائی اعتبار سے ہمیشہ زیر عتاب رہا ہے اور آج بھی بلوچستان کو مغربی قوتیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں عالمی قوتیں خصوصاً چین اور امریکہ کی رسہ کشی سی پیک کے حوالے سے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کیونکہ یہ خطہ عرض جہاں جغرافیائی حوالے سے اہمیت کا حامل ہے وہاں پر معدنی وسائل سے مالامال ہے۔مگر بد قسمتی سے انگریز کے دور سے لیکر آج تک بلوچستان کے باسیوں کو تعمیر و ترقی سے دور رکھا گیا، دبئی جسے منی یورپ کہا جاتا ہے چند دہائیوں پہلے محض ایک ریگستان تھا لیکن شیخ زاہد النہان جیسے بادشاہ نے اسے فرش سے عرش تک پہنچا دیا کیونکہ وہ اپنی سر زمین سے اپنی قوم سے مخلص تھا۔

انہوں نے متحدہ عرب امارات کے وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ریگستان کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے تعمیر و ترقی و خوشحالی عالمی معراجِ پر پہنچا دیا۔ ترقی پذیر ممالک کے لوگ روزی روٹی کی تلاش میں متحدہ عرب امارات کا رخ کرتے ہیں جو چند دہائیوں قبل محض ایک ریگستان تھا متحدہ عرب امارات کے مقابلے میں بلوچستان اس وقت زیادہ آسودہ حال تھا جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بلوچستان کے حصے بخرے کر دیئے گئے آدھا حصہ افغانستان اور آدھا حصہ ایران اور آدھا حصہ صوبہ پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔

جو آج بھی حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں محلاتی سازشوں کی وجہ سے تعمیر وترقی کے دوڑ سے کوسوں دور ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا 43 فیصد ہے اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے پاکستان کے باقی صوبوں سے مالامال ہے لیکن بلوچستان کے باسی آج بھی دو گھونٹ پانی کے لئے دربدر ہیں بلوچستان کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا یہاں کے وسائل لوٹ کر دوسرے صوبوں پر لگائے گئے۔ ستر سال گزر جانے کے بعد بھی یہاں پر نہ سڑکیں تعمیر ہوئیں نہ تعلیمی ادارے بنائے گئے، علاج معالجہ کے لیے ہسپتال ہے اور نہ ہی بجلی گیس اور تو اور یہاں پر پینے کے لئے صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔

ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا تب سے لے آج تک بلوچستان کے عوام کو انسانی بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر غیر انسانوں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس سے بڑھ کر بد قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ قیمتی معدنی دولت،وسائل سے مالا مال صوبے کے باسی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اس وقت بلوچستان اسمبلی میں 65 عوامی نمائندے موجود ہیں اسمبلی اجلاس بھی وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں بحث مباحثۃ ہوتا ہے تحریک التواء پیش کئے جاتے ہیں قراردادیں منظور ہوتے ہیں۔

مگر عملاً کچھ دکھائی نہیں دیتا بس نشستن گفتن برخاستن والا معاملہ ہوتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں منظور ہونے والے قرار داد کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں ہے منظوری کے بعد بھی ردی کی ٹوکری کے نظر ہوتی ہے حقیقتاً عملی کام کچھ نہیں ہوتا۔قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نمائندگی کیلئے تقریباً 20 اراکین ہیں جو مختلف پارٹیوں اور آزاد اراکین پر مشتمل ہیں وہاں پر شاذونادر ہی بلوچستان کے بارے میں کوئی تقریر یا کسی تحریک التواء پر بحث ہوتی ہو جو صدا بہ سحرا ثابت ہوتی ہے۔ بلوچستان آدھا پاکستان ہے مگر لہو لہان ہے زخم خوردہ ہے بلوچستان کی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔

دیکھنے کے لیے آنکھیں چاہیے، سننے کے لیے کان اور بولنے کیلئے زبان، مگر سب زبانوں پر تالے لگے پڑے ہیں کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہے اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے مصدق گوادر لسبیلہ سالار ساحل قومی اسمبلی کے رکن سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کو اظہار خیال کا موقع ملا جنہوں نے اپنے حلقہ انتخاب کے مسائل پر توجہ دلانے کیلئے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی، ایک ہی سانس میں لسبیلہ سے لے جیوانی جو بلوچستان کے مغربی بارڈر کا آخری شہر ہے کہ مسائل بیان کئے۔

بظاہر انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب کے مسائل پر حکمرانوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی مگر حقیقتاً محمد اسلم بھوتانی نے پورے بلوچستان کا نوحہ سنایا کیونکہ پورے بلوچستان کے دکھ، مسائل اور تکالیف سانجھے ہیں۔آج گوادر اخباری و ٹی وی چینل کے اشتہارات میں بہت ترقی کر گیا ہے گوادر کا شمار سنگاپور اور بینکاک سے کیا جار رہا ہے سی پیک کی وجہ سے گوادر کی شہرت پوری دنیا میں ہے اور گوادرمیں اربوں روپے سے انٹرنیشنل ائیرپورٹ بھی تعمیر ہو رہی ہے لیکن گوادر کے مکین آج بھی پتھر کے دور کی زندگی گزار رہے ہیں۔ گوادر کی شہرت سی پیک کی وجہ سے ہے۔

اگر گوادر نہ ہوتا تو سی پیک جیسے کھربوں روپے کے منصوبے نہیں آتے اور گوادر کا نام شاید دبیز پردوں میں چھپا ہوا ہوتا۔ایک طرف سی پیک کے نام پر اربوں ڈالر وصول کئے جارہے تو دوسری طرف، ہر طرف گھپ اندھیرا ہے بجلی جو بنیادی ضرورت ہے، صنعتی ترقی کیلئے بجلی گیس بہت اہمیت رکھتے ہیں سی پیک تو بنا دیا ڈیپ سی پورٹ بھی مکمل ہے بحری جہازوں کی آمد رفت بھی جاری ہے لیکن بجلی جو ایران سے آرہی ہے اور پورے مکران ڈویژن کومل رہی ہے لیکن بجلی کی کیپسٹی کم ہے اور مکران کی آبادی بہت زیادہ ہے صنعت تو اپنی جگہ یہ مقامی آبادی کو بھی پوری نہیں مل رہی بلکہ چوبیس گھنٹے میں بمشکل چار چھ گھنٹے ملتی ہے۔

پورٹ پندرہ سال سے فنکشنل ہے لیکن پاور ہاؤس کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں سوچا گیا ہے جب تک بجلی نہیں ہوگی تو صنعتیں نہیں لگیں گی جب صنعتیں نہیں لگیں گی تو ترقی نہیں ہوگی۔ضرورت اس امر کی ہے اگر سی پیک کو کامیاب بناناہے تو پاور ہاؤس پراجیکٹ پر کام جلد سے جلد شروع کیا جائے تاکہ تعمیر و ترقی ہو، صنعتیں لگیں،بے روزگاری کا خاتمہ ہو،گوادر، جیوانی، پیشکان،گنز ایرانی بارڈر سے منسلک علاقے ہیں ان علاقوں کے لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری اور بارڈر ٹریڈ پر ہے۔ دو بیست پنجاہ کے بارڈر سے ہزاروں لوگوں کا ذریعہ معاش وابستہ ہے۔

جو ایران سے خوردنی اشیاء و دیگر چیزیں لا کر گزر بسر کرتے ہیں۔ بارڈر کی بندش کی وجہ سے لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں وفاقی فورسز کی ناروا سلوک سے عوام کی تذلیل ہورہی ہے، کوسٹل ہائی وے پر جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کرکے ناکے لگا کر مسافروں کو چیکنگ و اسمگلنگ کے نام پر ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جارہا ہے، این ایل سی کو ہزاروں ایکڑ زمین الاٹ کی جارہی ہے جو وہاں کے ٹرانسپورٹرز اور کاروباری لوگوں کے لئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔چاہ بہار ایران سے لوگ صدیوں سے تجارت کرتے چلے آرہے ہیں این ایل سی کی آمد سے مقامی کاروباری لوگوں کے روزگار کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ گوادر لسبیلہ کے جزائر پر ہمارا حق ہے عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں ہم اپنے عوام اور اپنی سر زمیں کا سودا نہیں کر سکتے۔ ایک آرڈیننس کے ذریعے گوادر لسبیلہ کے جزائر کو وفاق نے اپنی تحویل لیا ہے آئین پاکستان میں درج ہے بارہ نائیکل میل صوبے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں ایک غیر آئینی آرڈینس کے ذریعے صوبائی جزائر کو وفاق کے کنٹرول و تصرف میں لانا صوبائی خود مختاری پر کاری ضرب ہے بحیثیت حلقے کے نمائندہ کے، مجھے اعتماد میں لئے بغیر جو قدم اٹھایا گیا ہے یہ عمل ناقابل برداشت ہے لسبیلہ ٹرانسمشن لائن چالیس سال پرانا ہے۔

ان کی تاریں بوسیدہ ہوچکی ہیں بار بار سسٹم ٹرپ ہوتا ہے،کے الیکٹرک اور وفاقی حکومت مل کر اس بوسیدہ پرانی لائن کو تبدیل کریں تاکہ سسٹم میں بار بار فنی خرابی پیدا نہ ہو، بجلی کی ترسیل بلا روکاوٹ جاری رہے ہم شکایت کرتے کرتے تھک چکے ہیں لیکن سننے والا کوئی نہیں ہے۔کئی دفعہ اس ایوان کے نوٹس میں لا چکا ہوں یوں تو پورا بلوچستان بنیادی انسانی ضروریات سہولیات زندگی سے محروم ہے مگر لسبیلہ گوادر کی صورت حال نہ گفتہ بہ ہے، پانی جو انسانی ضروریات زندگی کے لئے بنیادی و اہم جز سمجھا جاتا ہے۔

لیکن گوادر کے مکین آج بھی ہزاروں روپے خرچ کرکے اپنی پیاس بجھاتے ہیں شادی کور ڈیم بیلار ڈیم اور آنکاڑہ ڈیم سے ٹینکروں کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے گوادر کے مکینوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے مستقل حل نہیں ڈھونڈا گیا۔ قحط سالی کے دوران گوادر کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترستے رہے ہیں یہ کوئی پرانی بات نہیں ہے اس وقت مذکورہ ڈیموں میں کافی پانی کا ذخیرہ ہے مگر بارش نہ ہونے سے کوئی متبادل نظام نہیں ہے۔ڈسٹرکٹ گوادر کے لوگوں کو یہ فکر لاحق ہے اگر ڈیموں کا ذخیرہ ختم ہوا تو انکی زندگی محال ہو جائے گی۔ ہر سال ایک ماسٹر پلان تیار کیا جاتا ہے۔

گوادر اور پسنی کے ہزاروں ایکڑ اراضی جو وہاں کے عوام کی آباؤ اجداد کے میراث ہیں کو سرکاری قرار دیا جارہاہے جو گوادر اور پسنی کے لوگوں کی حق ملکیت پر ڈاکہ ہے۔گوادر اور پسنی کے باسیوں نے صدیوں سے اپنے ساحل و وسائل اور اراضی کے دفاع کے لیے خونی جنگیں لڑی ہیں۔ پسنی فش ہاربر کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے گزشتہ دس سال سے التواء کا شکار ہے اسد عمر سے میں نے بہ نفس نفیس گزارش کی تھی کہ پسنی فش ہاربر کے لیے فنڈز کا فوری طور پر اجراء کیا جائے میں اسد عمر صاحب کا مشکور ہوں جنہوں نے پلاننگ کمیشن سے فنڈنگ کی منظوری دی لیکن صوبائی حکومت انا پرستی کے خول سے باہر نہیں نکل سکی ہے۔

نہ جانے انھیں پسنی کے عوام سے کیا دشمنی ہے کہ فش ہاربر کے فنڈز کو بلا وجہ روکے رکھے ہوئے ہیں فش ہاربر پسنی کے ماہی گیروں کا دیرینہ مسئلہ ہے صوبائی حکومت نہ خود کام کرتی ہے اور نہ کام کرنے دیتی ہے عوام کے اہم مسائل کے حل کے سامنے روڑے اٹکا کر شاید اپنی انتخابی شکست کا بدلہ پسنی کے عوام سے لینا چاہتی ہے حب کے وسط سے گزرنے والی شاہراہ مین آر سی ڈی روڈ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ناقابل سفر تھا جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے تھے ناجائز تجاوزات قائم کرکے سڑک کو ایک پگڈنڈی بنا دیا گیاتھا جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل اور ٹریفک جام روز کا معمول بن چکا تھا۔

محمد اسلم بھوتانی کی کوششوں سے این ایچ اے نے نہ صرف تجاوزات کا خاتمہ کیا بلکہ شاہراہ کی تعمیر کرکے اسے وسیع و کشادہ بنا دیا۔ بحیثیت ایم این اے دوسال کی انتہائی مختصر مدت میں ضلع گوادر میں جو خدمات سرانجام دیئے ہیں اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی کیونکہ 1988سے 2020ء تک ان بتیس سالوں میں اس حلقے میں کسی بھی منتخب نمائندے نے عوامی مسائل پر اس قدر توجہ نہیں دی اگر ماضی کے نمائندوں نے گوادر لسبیلہ کے مسائل پر توجہ دی ہوتی تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی، پسنی، اورماڑہ میں آبنوشی، بجلی، گوادر کے مختلف علاقوں میں گیس کی فراہمی، ایرانی بارڈر 250 میں تین سو میٹر سڑک اور مسافروں کیلئے شیڈ کی تعمیر جیسے کروڑوں روپے کے منصوبے شامل ہیں۔

جبکہ حب سے جیونی تک 700کلو میٹر لمبی کوسٹل ہائی وے پر یوفونموبائل کمپنی کے ٹاورز کی تنصیب بھی محمد اسلم بھوتانی کی کوشش و کاوشوں کا نتیجہ ہے جس سے پورا کوسٹل ہائی وے اور اردگرد کے سینکڑوں دیہات مواصلاتی نظام سے منسلک ہوگئے ہیں۔حال ہی میں گوادر ایران بارڈر 250 جو کئی مہینوں سے بند تھا تجارتی سرگرمیاں مفقود ہوچکی تھیں دونوں طرف کے تجارت پیشہ افراد مایوسی کا شکار ہوگئے تھے، حکام بالا سے کامیاب مذاکرات کے بعد بارڈر ٹریڈ کو فوری بحال کروا دیا جس سے کاروباری حضرات ٹرانسپورٹرز مزدور اور ایران بلوچستان سے آنے جانے والوں کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

بارڈر کھلنے سے قرب و جوار کے لوگوں کو اپنے عزیز اقارب سے ملنے کا موقع ملے گا تو دوسری طرف چھوٹے موٹے کاروباری لوگ باڈر ٹریڈ سے استفادہ کر سکیں گے۔ بلوچستان کے طلباء کو گزشتہ دور حکومت میں اسکالرشپ دئیے گئے تھے جو پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، بلا سوچے سمجھے بیک جنبشِ قلم موجود حکومت نے تعلیم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے تمام اسکالر شپ ختم کرکے بلوچستان، گلگت اور پسماندہ علاقوں کے طالب علموں کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کروا دیا جس کی وجہ سے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے طالب علم سراپا احتجاج بن گئے۔

ملتان سے لاہور تک لانگ مارچ کرنے پر مجبور ہو گئے، تب جاکر حکمرانوں کو ہوش آگیا اور اسکلر شب کے خاتمے کا نوٹس لے کر اسکالرشپ بحال کر دئیے گئے۔یہ بات انتہائی تشویشناک ہے حکمران ہمیشہ بلوچ طالب علموں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے پر تْلے ہوئے ہوتے ہیں اس وقت بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے صوبائی کوٹے پر بائیس ہزار وفاقی ملازمین بلوچستان جعلی لوکل سرٹیفکیٹ کے ذریعے پر کی گئی ہیں بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوان حصول روزگار کے لئے در در کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔غیر صوبائی لوگ بلوچستان کے جعلی لوکل سرٹیفکیٹ بنا کر حق داروں کی حق تلفی کر رہے ہیں۔

گو کہ بلوچستان حکومت نے جعلی لوکل سرٹیفکیٹ کو منسوخ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے مگر مسئلہ صرف لوکل سرٹیفکیٹ کی منسوخی کا نہیں ہے بلکہ بائیس ہزار ملازمتوں پر ناجائز غیر صوبائی قبضے کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کے کوٹے کی جتنی ملازمتیں ہیں انہیں مشتہر کرکے بلوچستان کے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ،ہنر مندوں کوکھپایا جائے تاکہ بے روزگاری کا کا کچھ تدارک ہو سکے۔دوسری طرف موجودہ بلوچستان حکومت کو ڈھائی سال مکمل ہونے کو ہیں آج تک ایک چپڑاسی کو بھی بھرتی نہیں کیا جاسکا ہے، جوملازمتیں مشتہر کرکے ٹیسٹ و انٹرویوز کینسل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرچکی ہے۔

گینز آف ورلڈ بک میں بلوچستان حکومت کی کارکردگی کا اندراج باقی ہے۔بے روزگاری کویڈ کے بعد ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے مگر بلوچستان کی مجموعی صورتحال اس حوالے سے زیادہ گھمبیر ہے۔جب محمد اسلم بھوتانی بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر تھے انہوں نے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اپنے حلقہ انتخاب کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو میرٹ پر ہزاروں ملازمتیں دلوائیں جو ایک ٹریک ریکارڈ ہے۔ہم امید رکھتے ہیں کہ موصوف وفاق کو بلوچستان کے ملازمین کے کوٹے پرعمل در آمد کروانے اور بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو میرٹ پر وفاق کی بلوچستان کی کوٹے کے خالی آسامیوں کو پر کرنے اپنی توانائیاں صرف کریں گے۔