|

وقتِ اشاعت :   November 5 – 2020

پاکستانی جمہوریت پر بات کی جائے تو جمہوریت کی تاریخ انتہائی مختصر ہے برخلاف اسکے کہ جمہوریت اس ملک میں کبھی اپنی جڑیں گاڑ سکے گا بھی یا نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت کی کشتی ہچکولے کھاتے کھاتے 1973 میں سمندر کی طغیانیوں سے ایک امید بن کر نکل تو آئی۔ مگر جسے خالص جمہوریت کہا جاتا ہے وہ پھر بھی خالص نہ رہی اور نہ کبھی اسے کسی نے خالص بننے بھی دیا۔ جس کی وجہ سے آج ہمارا ملک ایک ایسی نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ہر فرد کی زبان پر یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ گو کہ ہم آمریت کو پسند نہیں کرتے مگر جو جمہوریت ہم نے دیکھی ہے یا ہمیں ورثہ میں ملی ہے کیا وہ ہمارے مسائل کے حل اور ملکی ترقی کی ضامن ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو ہر شخص کی زبان پر ہے۔ شاید یہ وہ مایوسی ہے جو لوگوں کے سوالات میں نظر آتی ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ عوام کونسا نظام حکومت
چاہتے ہیں اور کونسا نظام حکومت ہمارے معاشرے کو سوٹ کرتا ہے۔

بھٹو کے سیاسی کیریئر پر بات کریں تو بھٹو نے 1958 سے پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا۔ پہلے آمر جنرل ایوب خان کے دور اقتدار/ دور آمریت میں بھٹو صاحب وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور،

وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور انتہائی اہم وزارت خارجہ کی کرسی پر بھی براجمان رہے۔ بھٹو صاحب نے ایک آمر کی گود میں بیٹھ کر سیاست کا آغاز کیا اور ایک آمر کی آمریت کو ذریعہ بنا کر سیاست میں ایک نام بنایا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب بھٹو صاحب کے جنرل ایوب سے اختلافات ہوجاتے ہیں اور بھٹو صاحب جنرل ایوب کی آمریت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی جماعت پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھتے ہیں۔ آگے کی کہانی کیا ہے
آپ قارئین بہتر جانتے ہیں۔

نواز شریف کی بات کریں تو نواز شریف وہ واحد سیاستدان ہیں جو پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ مگر ان کی ساست کا آغاز بھی ایک آمر کی آمریت سے ہوتا ہے۔ جب بھٹو آمریت کی جنگ لڑ رہا تھا اور یہ جنگ لڑتے لڑتے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تو اس وقت نواز شریف اس وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ نظر آتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نواز شریف

جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں پنجاب کے وزیرخزانہ بھی بنے اور پنجاب کے وزیراعلیٰبھی رہے۔ وہ دور بھی بالکل ایسا ہی دور تھا جیسا کہ آج کل ملک میں نظر آرہاہے۔ آج کل نواز شریف کا بیانیہ ہے کہ ووٹ کو عزت دیں، آئین و قانون کی بالادستی ہونی چاہئے، جمہوریت کو آگے بڑھنے اور مضبوط ہونے دیا جائے۔ اس وقت یہی نواز شریف آمر جنرل ضیاء کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔تاریخ خود کو دہراتی ہے بھٹو صاحب نے بھی اپنی سیاست کا آغاز ایک آمر کی آمریت سے کیا اور اسی اصول پر چلتے ہوئے نواز شریف نے بھی اپنی سیاست کا آغاز ایک آمر کی آمریت سے ہی
کیا۔ مگر دنیا جانتی ہے بھٹو کو پھانسی بھی ایک آمر کی آمریت میں ہوئی اور نواز شریف کے اقتدار کا تختہ بھی ایک آمر نے الٹا۔ آج نواز شریف آمریت کے خلاف ہے اور اپنے ایک جمہوری بیانیہ کیساتھ سیاست کر رہے ہیں۔ آج بظاہر آمریت تو نہیں ہے نہ ہی بظاہر نواز شریف سے اقتدار کسی جنرل نے چھینا ہے مگر نواز شریف کا شکوہ آج بھی عمران خان کے بجائے وقت کے جنرل سے ہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان بھی بھٹو اور نواز شریف بنے گا یا وہ تاریخ کو ایک نیا رخ دے گا۔آپ ذرا سوچیں کہ اگر اگلی حکومت پیپلز پارٹی یا ن لیگ کی بنتی ہے تو کیا عمران خان خاموش بیٹھے گا؟

ہرگز نہیں۔ عمران خان کا پہلا اعتراض ہوگا کہ عمران خان کو ہرایا گیا ہے۔ جب بات ہرانے کی ہوگی تو سوال پیدا ہوگا کہ عمران خان کو کس نے پیچھے دھکیلا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر فرد جانتا ہے کہ عمران خان کو پیچھے دھکیلنے والے کون ہوسکتے ہیں۔ چلیں اس سے بھی پہلے کی بات کرتے ہیں ابھی عمران خان کا دور اقتدار چل رہا ہے۔

اگر عمران خان اپنے پانچ سال پورے نہیں کرسکتا اور خان صاحب کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں تو خان صاحب اپنے اقتدار کا تختہ الٹنے کا الزام کسے دیں گے؟ظاہر سی بات ہے اپوزیشن اسے آئینی انداز میں تو اتار نہیں سکتی، جلسے جلوس چاہے جتنے بھی ہوں مگر عمران خان استعفیٰ دینے والا نہیں ہے۔ پھر ایک ہی صورت بچتی ہے کہ ملک میں انتشار ہو اور عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے اور عمران خان کو مجبوراً استعفی ٰدینا پڑجائے۔ اگر صورتحال ایسی بن جاتی ہے تو عمران خان کی پوزیشن تب بالکل وہی ہوگی جو جنرل ضیاء کے دور میں بھٹو اور جنرل مشرف کی آمریت میں اور آجکل نواز شریف کی ہے۔

مگر اس ساری کہانی میں عوام کہاں ہیں اور جمہوریت کا کیا بنے گا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ یہ جنگ عوام اور جمہوریت کی بقاء کی جنگ ہے ہی نہیں۔ یہ دو طاقتوں کی جنگ ہے یہ اقتدار کی جنگ ہے، کرسی کی جنگ ہے، آج پیپلز پارٹی کے قائدین کہتے ہیں بلوچستان کے ساتھ بہت ناانصافیاں ہورہی ہیں مگر اسی بھٹو کے دور میں بلوچستان میں خونی آپریشن ہوا،نواز شریف کے دور اقتدار میں بلوچستان پر کتنے مظالم ڈھائے گئے جس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ پنجاب کیساتھ بھی وہی کچھ ہو جو بلوچستان،سندھ اور کے پی کے کیساتھ ہوتا آرہا ہے۔

عوام پہلے بھی لالی پاپ پر خوش تھے آج پی ڈی ایم ہو، یا نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو والا بیانیہ سب وقتی ہیں۔ کل ن لیگ اقتدار میں آجاتی ہے تو وہی ناانصافیاں جوں کی توں جاری رہیں گی کچھ نہیں بدلنے والا اور نہ ہی جمہوریت کی بھلائی کیلئے کچھ ہوسکتا ہے۔ کیسی جمہوریت کہاں کی جمہوریت، جن کی اپنی پارٹیوں میں آمریت ہے، ون مین آرمی ہے تو یہ لوگ ملک میں جمہوریت کو کیسے مضبوط کرینگے۔ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے
جب تک آمروں سے کچھ ملتا رہتا ہے تو مزے سے کھاتے رہتے ہیں۔ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں، جمہوریت کی ٹانگیں کھینچتے رہے ہیں اور جب کچھ نہ ملا تو مخالفت میں آگئے۔
آج عمران خان ہر بیان میں یہ بات ضرور کہتے ہیں کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں مگر کل یہی عمران خان اسی فوج اور اداروں کے خلاف بول رہا ہوگا اور یہی عوام عمران خان کو جمہوریت کا چیمپیئن قرار دے رہے ہوگا۔ اب عوام کو اٹھنا چاہیے اور اپنے بل بوتے پر اٹھنا چاہئے اور اپنی اور اپنی نسلوں کی بقاء کی جنگ اپنے زور بازو پر لڑنی چاہئے نہ کہ آمروں کی گود میں پلنے اور جنم لینی والی پارٹیوں کے سہارے پر۔