|

وقتِ اشاعت :   November 6 – 2020

کوئٹہ جو کہ بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کہلاتا ہے اس میں ٹریفک کی صورت حال آج اس قدر بگڑچکی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا،پھر مزے کی بات یہ ہے کہ اس بارے ہمارے صوبائی حکمران یا اس سے وابستہ سرکاری افسران کی جانب سے ایسا کوئی بیان دیکھنے کو بھی نہیں مل رہا کہ حکمرانوں نے یا ہماری بیورو کریسی نے اس نازک صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے اقدامات کرنے کی ٹھان لی ہو۔ یقین جانیے کہ آج آپ کوئٹہ سے سریاب کے راستے سبی یا نوشکی مستونگ تک کا سفر کریں ان شہروں کے لئے آج کل دو سے ڈھائی گھنٹے بمشکل لگتے ہیں ان گھنٹوں میں 100کلو میٹر کا سفر طے کرنا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔

لیکن دوسری طرف دو گھنٹے آپ کو کوئٹہ شہر سے سریاب تک بھی لگتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹریفک کی بے پناہ زیادتی اور ہر اہم شاہراہ مکمل طورپر جام رہنے کی وجہ سے آپ کو دو ڈھائی گھنٹے نکلنے میں لگتے ہیں۔ ائیر پورٹ روڈکو چونکہ وی آئی پی شاہراہ قرار دے کر اس کی حالت کافی حد تک بہتر کی گئی ہے ایئر پورٹ ہونے کی وجہ سے اس سڑک کے ”باگ“ کھل گئے کہ اس پر حکومتوں نے بھر پور توجہ دے کر اسے کچلاک تک ایسا بنا ڈالا کہ آپ اپنی گاڑی میں نصف گھنٹے میں کچلاک تک پہنچ سکتے ہیں لیکن سریاب سے شہر آنے کے لئے دو ڈھائی گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔

اس اکلوتے سڑک پر دو صوبوں سندھ‘ پنجاب‘سے براستہ سبی‘ حب خضدار ٹریفک آتی ہے اس وجہ سے بھی کہ ان صوبوں کے لئے کاروباری حضرات اپنا کاروبار کرنے اور دیگر افراد علاج معالجے وغیرہ کی بہتر سہولیات کے لئے ہمہ وقت سفر کرتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان دو صوبوں کے بڑے شہروں کے لئے درجنوں کوچز‘ ٹوڈی گاڑیوں سمیت ذاتی گاڑیوں پر سفر کرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ سبی جیکب آباد کے لئے گاڑیوں کے بے پناہ رش کی وجہ سے ٹریفک حادثات کافی زیادہ ہوچکی ہیں جن کی خبریں آج کل تواتر کے ساتھ اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔

گزشتہ کئی ماہ سے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ٹریفک کی بد ترین حادثات نے کئی گھرانوں میں صف ماتم بچھا دیا ہے درجنوں نوجوان جنہوں نے ابھی اپنی زندگی کی ”بہاریں“ نہیں دیکھی تھیں حادثے کا شکار ہو کر ”شہید“ ہوگئے ہیں۔گزشتہ روزبھی وڈ ھ کے قریب ٹریفک حادثے میں سابق صوبائی وزیر میر عبدالرحمن مینگل کے کم سن بھتیجے عبدالوحید مینگل کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو یقین جانئیے کہ دل دھک سے رہ گیا کہ کس قدر خوبصورت نوجوان بن کھلے موت کی آغوش میں چلا گیا، ان کے والدین نے یہ خبر کس عالم میں سنی ہوگی اور ان کیا بیتی ہوگی اوراب تک ان کی حالت کیا ہوئی ہوگی۔

ایک والد کی حیثیت سے اور ایک انسان کی حیثیت سے بھی اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے آج کل ہم انتہائی بے حس ہو چکے ہیں انسان کم اور حیوانیت کا زیادہ شکار ہو کر مادہ پرستی میں ایسے مبتلا ہورہے ہیں جیسے کہ ہم میں ضمیر نام کی کوئی شے نہیں رہی۔ ان حادثات کے پے در پے تعدادکو دیکھ کر صرف اور صرف ”انہیں حادثہ“ جتا کر اور ”خبر پڑھ کر“ اور کچھ بھی تو نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ نوجوان ہماری اس بے حسی اور بے ضمیر ی کا نشانہ بنتے جارہے ہیں،بیشک موت اٹل ہے اس سے کسی کو مفر نہیں لیکن دیکھا جائے تو اس میں ہماری کوتاہی اور غفلت کی وجوہات بھی ان حادثات کی وجہ بنتے جارہے ہیں۔

جیسا کہ میں نے اپنے مضمون کے اولین سطروں میں کوئٹہ کی رینگتی ٹریفک بارے بتایا کہ حلفیہ کہتا ہوں کے کوئٹہ سے سریاب کا سفر کرتے ہوئے آپ کا بلڈ پریشر انتہائی بلند ہوجاتا ہے کیونکہ جناح روڈ‘ سول ہسپتال‘ سول سیکرٹریٹ چوک امداد چوک اور جوائنٹ روڈ سے نکلنے والی سڑکوں پر صبح کے اوقات میں اور سکولوں اور دفاتر کی چھٹیوں کے وقت میں جس قدر ٹریفک امڈ کر آتی ہے اللہ کی پناہ آپ کی گاڑی رینگتی ہوئی محو سفر رہتی ہے پھر ہماری بے صبری اور بے ترتیبی ہم خصوصاً کوئٹہ والے یا بلوچستانی“ جس طرح گاڑی چلاتے ہیں ایسی ٹریفک کسی صوبے میں آپ کو نہیں ملے گی۔

میں خود بھی اس شہر کا باسی ہوں لیکن میں کوئٹہ کی ٹریفک کو ”انتہائی بد تمیز“ ٹریفک قرار دے چکا ہوں یعنی آپ کی سوچ سے بڑھ کر آپ کو گاڑیوں کو چلانے والے خصوصاً ہمارے نوجوان حضرات کی ٹریفک کی خلاف ورزیاں اور زبردستی گھسنے کی عادت خصلت نے انہیں اس قدر ”بد تمیز“ بنا دیا ہے کہ لگتا نہیں کہ تعلیم ان کو چھو کر بھی گزری ہوگی۔ ٹریفک کو ”جام“ کرنے میں ان بد تمیز نوجوانوں کا ہاتھ زیادہ ہوتا ہے اب تک درجنوں نوجوان اپنی ان حرکتوں اور تیز رفتار ڈڑائیونگ کے سبب موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں لیکن ان اموات کے باوجود ”طوفان بد تمیزی“ کے رکنے کا نام نہیں لے رہی۔

میں خود انتہائی خوفزدہ ہو کر گاڑی ڈرائیو کررہا ہوتا ہوں گھر سے نکلتے ہی جتنی سفر کی سورتیں یاد ہیں پڑھ کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں یقین جانئیے اس کے باوجود خوفزدہ ہو کر ڈرائیونگ کررہا ہوتا ہوں آج اپنی اس نوجوان نسل کو ”بد تمیز“ دیکھ کر اپنی جوانی کے دن یاد آتے ہیں کہ یہ دن ہم نے بھی دیکھے لیکن ہم نے یا ہم سے پہلے جانے والی نسل نے ایسی ”طوفان بدتمیزی“ کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا۔ کمال کی بات یہ دیکھنے کو تسلسل کے ساتھ مل رہا ہے کہ کوئٹہ کی ٹریفک جو کہ ”رینگتی ٹریفک“ ہے اس بارے حکومتی سطح پر کوئی مثبت اقدام دیکھنے کو نہیں مل رہا ایک امداد چوک کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس سڑک کو کبھی بند کردیا جاتا ہے پھر کوئی عدالتی فیصلہ آنے پر کھول دیا جاتا ہے۔چند عرصہ بعد دیکھا جاتا ہے کہ پھرسڑک بند ہے کوئٹہ پولیس یا انتظامیہ کی جانب سے اس اکلوتے سڑک کو بند اور کھلا رکھنے کے علاوہ میری گناہ گار آنکھوں نے اس کے علاوہ کوئی مثبت کام اب تک تو نہیں دیکھا کہ حکمرانوں نے یا سیکرٹری صاحبان نے کچھ کیا ہو۔امداد چوک سے ذرا آگے اکرم ہسپتال کے بالمقابل پل کے نیچے سڑک کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور میں اپنی حکومت اور اس سے وابستہ سیکرٹری صاحبان کی بے حسی پر حیران ہوتا۔

ہوں کہ اس سڑک کو محض اکرم ہسپتال کے قریب سے گزرنے والی گندے نالے سے بہنے والے پانی نے کس قدر توڑ پھوڑ کا شکار بنادیا، یہ بھی میونسپل کارپوریشن کے حکام کی دلچسپی کے سبب اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی کہ اب اس میں بڑے بڑے گڑھے بن چکے ہیں یہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی لیکن داد دینی پڑتی ہے صوبائی حکومت کو اور اپنے وزراء صاحبان اور انکے سیکرٹری صاحبان کو جن کی گزر بھی یقیناً اس سڑک سے متعدد بار ہوچکی ہوگی لیکن اس کی مرمت آج تک نہیں ہورہی ہے۔اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ جب صوبائی دارالحکومت کی ایک اہم سڑک ٹوٹ پھوٹ کر جگ ہنسائی کا باعث بن چکا ہے۔

اس سے ہم حکومتوں اور وزراء کی دلچسپی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ہم نے اپنے صوبائی دارالحکومت کو صرف اور صرف افغان مہاجرین کے علاج معالجے کیلئے چالیس سے پچاس پرائیویٹ ہسپتال دینے کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں کیا ہے۔آج اگر جناح روڈ سے ایئرپورٹ روڈ یا سریاب روڈ تک آپ کو دو رویہ سڑک نظر آتی ہے تو اس کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ اگر شہید وطن نواب بگٹی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے موقع پر ان دو سڑکوں کی دو رویہ تعمیر کا حکم نہ دیا ہوتا تو سوچئے کہ آج ہماری حالت کیا ہوتی، اس مرد مجاہد کو ہم سے بچھڑے کئی سال ہوگئے۔

لیکن آج بھی ان کی محبت کو ہم اپنے دل میں محسوس کرسکتے ہیں کہ کوئی شخص تو اس صوبے یا اس شہر کے ساتھ مخلص تھا جس نے اس شہر کو دو رویہ دو بڑی سڑکیں دینے کے ساتھ ساتھ شہر بھر کی تمام سڑکوں کی محض نو لاکھ روپے میں ”بہترین کارپیٹنگ“ کرکے دی۔ کوئٹہ شہر کی تمام سڑکیں محض نو لاکھ میں بنوانے کی خبر کو آپ کوئی لطیفہ یا مذاق سمجھ رہے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری یہ بات سو فیصد درست ہے کہ نواب بگٹی نے یہ تمام سڑکیں ”ٹھیکے داروں ’‘ کے ذریعے نہیں بلکہ سی اینڈ ڈبلیو کے افیسروں کی ڈیوٹی لگوا کر یہ حکم جاری کیا کہ وہ ٹھیکے دار کے ذریعے نہیں خود سڑکیں بنوائیں۔

جس کے لئے سرکار انہیں بھاری تنخواہیں دیتی ہے اس حکم کی کس میں حکم عدولی کی جرات ہو سکتی تھی یہ حکم‘ حکم کے طورپر محکمہ کے سیکرٹری سمیت تمام آفیسران نے اس پر من و عن عمل کرکے بتلایا کہ حکمران نیک نیت اور ایماندار ہوں تو راتوں رات ملک کی یا صوبے کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ کوئٹہ شہر کی بد ترین ٹریفک کے پیش نظر اب یہاں پر اوور ہیڈ برج اور انڈڑ پاسز کی اشد ضرورت ہے اس کے علاوہ ٹریفک کی بہتری کی کوئی صورت نہیں لیکن میں نے گزشتہ دنوں کمشنر کوئٹہ چیف سیکرٹری کی میٹنگوں کے بارے میں پڑھا۔

جس میں کوئٹہ سے متعلق فیصلے یا منصوبے بارے خبریں تھیں لیکن یقین کیجئے کہ کسی خبر میں یہ ذکرنہیں تھا کہ کوئٹہ شہر کی ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کیلئے اوورہیڈ برج یا انڈر پاسز بنانے کی بات کی ہو اگر یہ منصوبے زیر غور نہیں آرہے تو یقین کیجئے کوئٹہ کے شہری اسی طرح خوار و زار ہوتے رہیں گے۔ سریاب سے بائی پاسز کے کتنے نئی سڑکوں کی تعمیر کی باتین تو سن رہے ہیں لیکن اندرون شہر بارے حکومت مکمل خاموش ہو کے ”چلا کشی“ کرتے ہوئے نظر آرہی ہے یہاں پر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اگر احساس مر جائے تو معاشرہ زندہ لاشوں کا قبرستان لگتا ہے۔

اگر ہم ٹھنڈے د ل سے اپنے ارد گرد رہن سہن کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم زندہ لاشوں کے قبرستان میں ”جی“ رہے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ ہم ”زبردستی زندہ“ ہیں۔ برصغیر کی نامور شخصیت مولانا ابولکلام آزاد کے بقول”اگر تم صرف اپنے لیے زندہ ہو تو اپنی قوم کے لئے زندہ لاش کی مانند ہو“ یہ باتیں ہم جیسے حساس لوگوں کے دل کو تیر کی طرح جا لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم کوئٹہ شہر کی حالت سدھارنے کی آرزو ہے جس کے لیے ہم اپنی تحریروں سے ”ضمیروں کو جگانے“ کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمارا ساتھ دے ورنہ شہر کی حالت بہتر ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔

حکمرانوں کو تو وی وی آئی پی پروٹوکول دستیاب ہے ان کے لئے سڑکوں پر ٹریفک روک کر سائرن بجاتی ہوئی گاڑیوں کی قطاریں موجود ہوتی ہیں پوچھئے ہم جیسے شہریوں سے کہ ہماری آج کل ٹریفک میں کیا درگت ہوتی ہے کس قدر پٹرول کی مد میں تیل اور وقت کی مد میں کئی گھنٹے صرف کرنا پڑتے ہیں۔وزیراعلیٰ جام کمال (عالیانی صاحب) آپ سے دست بستہ یہ کہتاہوں کہ خدارا جام صاحب کچھ کیجئے؟ہم پر ترس کھا کر شہر کی صورت حال کو بہتر بنا کر لوگوں کی دعائیں لیجئے۔۔۔۔