یہ کہنا تو نہایت مشکل ہے کہ مستقبل کا مورخ ہمارے عہد رواں کے بارے میں کیا رائے اور نظریہ ترتیب دے گا لیکن یہ بات درست ہے کہ وہ ہمارے زمانے کے جن انسانیت سوز واقعات کو اپنے تجزیے اور تبصرے میں شامل کرے گا ان میں مسئلہ کشمیر یقینی طور پر نمایاں اور اوّلین درجے پر ہوگا۔اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ سائنسی اور فنی اعتبار سے ہماری موجودہ نسل نے بے پناہ ترقی کی ہے اور گاہے اس ترقی کو حیرت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اخلاقی طور پر اور انسانی اقدار کے فروغ اور استحکام کے حوالے سے ہم لوگ ایک دوسرے کے سامنے شرمندہ ہی نہیں بلکہ بے بس دکھائی دیتے ہیں۔
اگرچہ عالمی برادری اور ادارے امن کا پرچار کرتے ہیں اوراس حوالے سے جمہوریت یعنی اکثریت کی رائے کو معتبر سمجھا جاتا ہے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ترقی پذیر ممالک جو دراصل غریب ممالک کی فہرست میں ہی شمار ہوتے ہیں‘ مذکورہ ممالک میں آمریت اور غیر جمہوری عناصرکو فروغ دینے کیلئے درپردہ اور خفیہ لائحہ عمل کے تحت ایک ایسی آنکھ مچولی کھیلی جاتی ہے جس میں سب کچھ دکھائی دینے کے باوجود کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس تناظر میں مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر ایک نہایت قابل ذکر مثال ہے۔
عالمی سیاسی اور سفارتی حالات کے مطالعہ سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ 1947ئمیں جب برصغیر پاک وہند سے برطانوی قابض حکمرانوں نے رخصت ہونے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اپنے ماضی کی روایت کے مطابق یہاں پر بھی بعض ایسے مسائل چھوڑ دیئے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع اور تصادم کا باعث ثابت ہوئے۔یہ نفرت اوردشمنی کے ایسے بیج تھے جن کے نتیجے میں امن اور ترقی کے پودے نمودار نہیں ہوسکتے تھے بلکہ اس کی بجائے تصادم اور محاذ آرائی ہی منظر عام پر آسکتی تھی۔ یہ بات کسی تفصیل کی محتاج نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع مسائل میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔
طے شدہ برطانوی ایجنڈے کے مطابق برصغیر کی دیگر ریاستوں کی طرح مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں بھی اس امر بارے رائے شماری لازمی تھی کہ یہاں کے عوام بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ اپنا سیاسی مستقبل وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی نوشتہ دیوار تھی کہ مقبوضہ ریاست میں بلاشبہ مسلمانوں کی آبادی اکثریت پر مشتمل تھی اور ان کا یقینی اور کھلافیصلہ پاکستان کے حق میں تھا۔جب وادی کے عوام کو ان کے اس سیاسی حق سے محروم کیا گیا تو وہ اپنی تاریخ اور روایت کے عین مطابق احتجاج اور مزاحمت کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے۔
ایسی صورتحال میں 27اکتوبر 1947ئکو بھارت نے اپنی توسیع پسندانہ‘ جارحانہ اور اسلام دشمن ذہنیت کا ناقابل تردید ثبوت دیتے ہوئے اپنی فوجوں کو مقبوضہ وادی پر اپنا غیر قانونی قبضہ جمانے کیلئے جموں اور سری نگر روانہ کردیا۔نئی دہلی کے پالیسی ساز ادارے اور شخصیات خوب جانتے تھے کہ اگر مقبوضہ وادی کے عوام کو اپنے مستقبل کی سیاسی وابستگی کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا گیا تو بھارت اس جنت نظیر وادی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہوجائے گا اور یہ بات بھارتی ہندو ذہنیت کے لئے ناقابل قبول تھی ایسے میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک طرف تو عوام کو ان کے سیاسی حق یعنی رائے شماری سے محروم رکھا جائے۔
اور دوسری طرف تاخیری حربے استعمال کرکے عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کو اصلاح احوال سے باز رکھا جائے۔ خوب اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ گذشتہ سات عشروں سے زائد عرصے کے دوران بھارت نے مقبوضہ وادی پر عسکری یلغار جاری رکھی لیکن وادی کے عوام بھی نو لاکھ درندوں کے سامنے احتجاج اور مزاحمت کے بھرپور مظاہرے سمیت ہر سال دنیا بھر میں کشمیری 27اکتوبرکو یوم سیاہ مناتے ہیں۔ موجودہ مودی سرکار نے مقبوضہ وادی میں کئی ایسے خودساختہ اور من گھڑت قوانین نافذ کئے ہیں جوناصرف اقوام متحدہ جیسے عالمی اور معتبر ادارے کی منظور کی گئی۔
قراردادوں سے متصادم ہیں بلکہ جو عالمی رائے عامہ کو بھی ناقابل قبول ہیں۔ایسے قوانین میں سے ایک تو یہ اقدام رہا کہ گزشتہ برس یعنی 5اگست 2019ئکو نئی دہلی کے ارباب بست و کشاد نے اثرات اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر آئین کے آرٹیکل 370کومنسوخ کردیا۔اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ غیرقانونی فیصلہ اس وقت کیا گیا جب مقبوضہ وادی کے عوام قابض بھارتی فوج کے ساتھ نہتے ہوکر بھی مصروف جدوجہد تھے۔ ایسے میں بھارتی فوج کے جرائم کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ گذشتہ دنوں ایک جواں سال وکیل۔
بابرقادری کو محض اس بنائپر اس کے گھر کے اندر گولی مار کر شہید کردیا گیاکہ وہ وادی پر بھارتی قبضے کے خلاف اور انسانی حقوق کے حق میں پرامن جدوجہد کررہا تھا۔ اسی طرح ایک مقامی اخبار کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کو بھی شہید کیا گیاجس کے نتیجے میں یہ حقیقت مزید نمایاں ہوگئی کہ مودی سرکارمقامی مسلم آبادی کو کم ثابت کرنے کیلئے جارحانہ اور سفاکانہ حکمت عملی اختیار کرنے پر تیار ہے لیکن اس کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کسی آبادی کو طاقت کے بل بوتے پر کم کرنے کی کوشش قانونی اور سیاسی طور پر جنگی جرم یعنی War Crime میں شمار ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ مقبوضہ وادی کی کل آبادی 80 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن کا مقابلہ کرنے کیلئے مودی سرکاری 9لاکھ افراد کی ایسی فوج متعین کی ہے جو جدید اسلحے اور ہتھیاروں سے پوری طرح لیس ہے۔بھارتی افواج نے وادی میں مسلمانوں کی آبادی کوقتل و غارت سے کم کرنے کیلئے جو جارحانہ اور سفاکانہ اقدامات کئے ان کے نتیجے میں جنوری 1989ئسے گذشتہ ماہ یعنی ستمبر 2020ئکے دوران بھارتی سکیورٹی فورسز نے کم از کم 95ہزار 686 پرامن اور نہتے کشمیری عوام کو شہید کیا جبکہ 7ہزار 147 افراد کو اس وقت تشدد کرکے شہید کیا جب وہ مذکورہ سکیورٹی فورسز کی حراست یا تحویل میں تھے۔
اسی طرح گرفتار شدہ افراد کی تعداد 1لاکھ 61ہزار سے زائد رہی جبکہ مسماراور منہدم کئے گئے مکانوں‘ دکانوں اور دیگر عمارتوں کی تعداد 1لاکھ 10ہزار 367ہے۔ اب تک ان غاصب اور جابر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 22ہزار 920 خواتین بیوہ ہوگئی ہیں جبکہ یتیم ہونے والے معصوم بچوں کی تعداد 1لاکھ 78ہزار سے زیادہ ہے۔ یہاں اس بات کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ اخلاق باختہ اور عسکری جنون میں مبتلا بھارتی درندوں نے مذکورہ عرصے میں 11ہزار 219 خواتین کو اجتماعی جسمانی اور جنسی تشدد کا ہدف بنایا۔
یہ اعداد و شمار جمع کرنے والے رضاکاروں کا بیان ہے کہ ایسی مظلوم اور متاثرہ خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی بدنامی کے خوف سے بھارتی درندوں کے ہاتھوں اپنی رسوائی کا ذکر کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ان اعداد و شمار اور انکشافات کی روشنی میں یہ امر بھی نہایت تشویشناک تصور کیا جاتا ہے کہ مقبوضہ وادی میں اچانک لاپتہ ہوجانے والے افراد کا سراغ لگانے اور ان کے عزیز واقارب کی قانونی و سماجی مدد کرنے کیلئے ایک تنظیم Association of Parents of Disappeared Persons (APDP) کے مطابق اب تک 8ہزار سے زائد افراد کو قابض بھارتی حکام نے غائب کررکھا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ستمبر 1990 میں نئی دہلی حکومت نے جموں وکشمیر آرمڈفورسز سپیشل پاور ایکٹ (AFPSA) نافذ کیاتھا جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں متعین مسلح فوج کو کشمیری عوام کی گمشدگی کے حوالے سے استثنیٰ دے دیا گیا تھا۔ مذکورہ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ نافذہونے سے پہلے ہی قابض سکیورٹی حکام اپنی سفاکانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔مہذب دنیا میں اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یوں تو ہر بھارتی حکومت نے عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنے مذموم اور غلط پراپیگنڈہ کی مددسے مقبوضہ وادی کے احوال کو پوشیدہ رکھا لیکن مودی سرکار نے اس سلسلے میں ہر حکومت کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
چنانچہ حال ہی میں اقوام متحدہ نے بھارتی حکومت سے دوبارہ اصرار کیا ہے کہ جبری طور پر لاپتہ اور گمشدہ کئے گئے افراد اور وادی میں پائی گئی اجتماعی قبروں کے معاملے کا سراغ لگایا جائے۔ اسی طرح گذشتہ دنوں نئی دہلی نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن (SHRC) کو بند کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اس پر نظرثانی کی جائے۔اس عالمی تبصرے اور تجزیے کے باوجود مودی سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایسے میں ممتاز کشمیری راہنما شیخ عبداللہ (مرحوم)کے صاحبزادے اور مقبوضہ وادی میں بھارت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے حالات کے جبر اور تلخ حقائق سے متاثر ہو کر۔
اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں دو ٹوک اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ ایک زمانے میں مقبوضہ وادی کے عوام‘ بھارتی حکومت اور عوام کو اپنا ہمدرداور دوست خیال کرتے تھے لیکن اب یہ صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔مقبوضہ وادی کے نہتے اور بے بس عوام اب مودی سرکار کی حکومت کی بجائے چین ایسی طاقت کے زیراثر رہنے کو ترجیح دیں گے۔ایسے میں اس سوال سے اب مہذب دنیااور عالمی رائے عامہ صرف نظرنہیں کرسکتی کہ ”ظلم رہے اور امن بھی ہو؟“