|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2020

اپوزیشن جماعتوں کے حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل وفاق گزیدہ دو بڑی سیاسی بلوچ قوم پرست جماعتیں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی دیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرح ملکی سیاسی اکھاڑے میں طالع آزمائی کر رہی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے قبل ایم آر ڈی اور اے آر ڈی کی تحریکیں مشروط منتخب حکومتوں اور کنٹرولڈ جمہوریتوں پر منتج ہوئی ہیں۔

جمہوریت کی بحالی کی ان تحریکوں کے بعد آنے والی حکومتوں نے بلوچستان کے ساتھ وہی نوآبادیاتی رویہ اور استعماری سلوک جاری رکھا جو آمریتوں کے دور میں روا رکھے جاتے تھے۔ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے اور اپنے پیش روؤں کی پیٹھ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرف سے گھونپے گئے نشتروں کو بھول کر ایک مرتبہ پھر نئی امید اور جوش و ولولے کے ساتھ حکومت بھگاؤ تحریک کے دنگل میں اتری ہیں کہ شاید اب کے بار موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد بلوچستان سمیت ملک بھر میں آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف بنیادوں پر انتخابات ہوں گے۔


بلوچستان کی داخلی، سیاسی اور اقتصادی سمیت تمام معاملات کے اختیارات کلی طور پر صوبائی منتخب حکومت کو منتقل کردئیے جائیں گے،اٹھارویں آئینی ترمیم کی روح کے مطابق صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا جائے گا، صوبے کے سیاسی معاملات میں ریاستی اداروں کی بے جا مداخلت صریحاً ختم کردی جائے گی، لاپتہ سیاسی کارکنوں کو بازیاب اور اس قبیح عمل کو ہر صورت روکا جائے گا۔

یہ وہ دیرینہ اور بنیادی مسائل ہیں جن کے حل کے لیے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پارلیمانی جماعتیں ملکی آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کرتی آرہی ہیں لیکن آج تک یہ مسائل جوں کے توں ہیں۔بلوچستان کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے مزید اسے کنٹرول کرنے کی کوششوں میں تیزی لائی جارہی ہے۔

اس بے طلوع شب میں کیا طالع آزمائی
خورشید لاکھ ابھرے لیکن سحر نہ آئی۔

بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی اصل میں ایک ہی فکر اور فلسفے کی پیداوار ہیں لیکن کافی عرصے سے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی سخت حریف رہی ہیں جس کی وجہ سے بلوچ سیاسی کارکنوں میں سخت گیری اور عدم برداشت کا رحجان بڑھا ہے جس کا فائدہ انتخابی معرکوں میں غیر متعلقہ جماعتیں اور شخصیات اٹھاتی رہی ہیں۔ اپنے اپنے ادوار میں کم تعداد میں نشستیں حاصل کرنے کے باوجود اسلام آباد نے دونوں جماعتوں کو ایک ایک مرتبہ اقتدار بھیک کی شکل میں ان کی جھولی میں ڈالا تھا۔ پندرہ ماہ تک اختر مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب پر فائز رہے۔

بعد میں انھیں برطرف کردیا گیا جبکہ ڈاکٹر عبدالمالک ایک معاہدے کے تحت ڈھائی سال وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہے۔ اپنے مشروط اقتدار کی تلخیاں اور بے بسیوں کا ذکر دونوں رہنماء آج بھی اپنی محفلوں میں کرتے ہیں۔ بلوچستان کے سلگتے مسائل پر دونوں جماعتیں یکساں مؤقف رکھتی ہیں چاہے وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ ہو یا پھر ساحل اور وسائل کا اختیار بلوچستان کو دینے کا مطالبہ ہو، اسی طرح طاقت کے بجائے بلوچستان کا مسئلہ سیاسی بنیادوں پر حل کرنے اور ملک سے باہر بیٹھے بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ دونوں سیاسی جماعتوں کے بنیادی ایجنڈے میں شامل ہے۔

لیکن اس کے باوجود کچھ مزاج میں فرق اور کچھ پارٹی قیادت کے حصول جیسے جزوی مسائل کی وجہ سے دونوں جماعتوں میں اختلافات بلکہ بعض حد تک مخاصمانہ اختلافات رہے ہیں لیکن اب لگ رہا ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت میں یہ ادراک اور فہم پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہمارے سیاسی اختلافات اور دوری کا فائدہ براہ راست وہ قوتیں اٹھاتی رہی ہیں جو قطعاً یہ نہیں چاہتیں کہ بلوچستان میں حقیقی جمہوری اور قوم پرست قوتیں اقتدار میں آئیں اس لیے کچھ عرصے سے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں۔

کچھ دن پہلے آزادی ڈیجیٹل نیوز کو دئیے گئے ایک انٹریو میں میرے سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبدالمالک نے آئندہ ہونے والے انتخابات میں انتخابی اتحاد اور بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا،یہ دونوں جماعتیں اس وقت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا حصہ ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔پی ڈی ایم میں شامل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بلوچستان کے عوام کئی مرتبہ آزما چکے ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد یہ جماعتیں خاص طور پر بلوچستان میں صوبائی خودمختاری کو اپنے پیروں تلے روندتی رہی ہیں اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر منتخب صوبائی حکومتوں کو وقت سے پہلے برطرف کرتی رہی ہیں۔ جمہوریت اور سویلین بالادستی کا نعرہ لگا کر جب یہ اقتدار حاصل کرتی ہیں تو بعد میں بلوچستان میں جاری اسی نو آبادیاتی پالیسی کو جاری و ساری رکھتی ہیں جس کے تحت یہاں کی منتخب صوبائی حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کرکے انھیں غیر مرعی قوتوں کے کنٹرول میں دینا جو بلوچستان کو بہتر سالوں سے بلا شرکت غیرے چلا رہی ہیں۔

ان نو آبادیاتی پالیسیوں کی وجہ سے آج بلوچستان مسائل کا ایک آتش فشاں بن چکا ہے یہ آتش فشاں تین مرتبہ پہلے بھی بڑی مقدار میں انسرجینسی کا لاوا اگلتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ لاوا اگلنے کا عمل گزشتہ پندرہ سالوں سے ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ انسرجینسی کے اس ابلتے لاوے میں اب تک ہزاروں لوگ جھلس کربھسم ہوچکے ہیں لیکن اس دہکتے آتش فشاں کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے ملکی وحدت اور سلامتی کے نام پر انہی روایتی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اسے مزید بھڑکایا جارہا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل دونوں بلوچ قوم پرست جماعتوں کو اب بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

کیوں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں اب تک اقتدار کی ہوس ختم نہیں ہوئی ہے۔ ملکی سیاسی آب و ہوا موافق نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ انقلابی نعروں کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ تاریخ کے تھپیڑے برداشت کرنے کے بعد نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ہوش ٹھکانے آگئے ہوں گے اس لیے وہ آپس میں جاری اپنی تلخیوں کو ختم کرکے قریب آنے کی کوشش کر رہی ہیں جو نہ صرف وقت و حالات کا تقاضہ ہے بلکہ ایک مرتبہ پھر کسی بند گلی میں پھنسنے کے بجائے آپس میں کم سے کم نکات پر اتحاد و یگانگت کا راستہ اپنایا جائے۔

وفاق پرست جماعتیں اپنے سیاسی مفاد کے لیے بلوچستان کے کارڈ کو استعمال کرتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے کبھی بھی بلوچستان کی حقیقی منتخب حکومتوں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔