|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2020

وہی حالت اب بھی ہے جہاں انسان کو شعور نہیں تھا، جہاں انسان باقی جانوروں کی طرح ایک جانور تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کو چیزوں کی پرکھ ہوئی اور رشتوں کی پہچان ہوتی گئی اور ایک معاشرے کی تشکیل ہوتی گئی۔ اْس معاشرے میں اْس حیوان کو ایک نیا نام ملا، مثلاً سماجی جانور۔ پھر انسان ماورائیت و مابعد اطبعیات و دیومالائی دور میں داخل ہوکر ایک ایسے نکتے پر آن پہنچا جہاں اس نے سوچنا شروع کیا اور سوال کرنے لگا۔ پھر وہ مادیت کی اولیت کو تسلیم کرتے ہوے معاشرے کی حقیقتوں کو ڈھونڈنا شروع کردیا اور یوں فلسفے نے جنم لیا جہاں مایٹس شہر میں تھیلیز نامی شخص نے کہا کہ دنیا کی ہر چیز پانی سے وجود میں آئی ہے۔

اسی طرح پھر اعتقادات و فلسفہ کے مابین جنگ رہی لیکن اب وقت کے اْس اْبھرتی ہوئی تسلسل میں وہ انسان، جانور سے سماجی جانور، سماجی جانور سے سیاسی جانور اور چلتے چلتے 21ویں صدی کی ڈیجیٹل جانور میں بدل گیالیکن انسانی ارتقاء کبھی نہ رْکا۔ جہاں تاریخ میں مہذب قومیں آباد تھیں وہی اْنکو زوال نے آن گھیرا اور وہ قومیں وہی پہنچیں جہاں سے اْبھریں تھیں اور اْنکی جگہ نئی قومیں بنتی گئیں اور نئی تہذیب ابھرتی رہیں۔ لیکن یہ دائرہ(circle) انسانی تاریخ میں چلتا گیا اور یہی خطرہ آج کی اس ترقی یافتہ دنیا کو بھی لاحق ہے کہ انسانی زوال پھر سے دھیمی اندھیر کی طرح روشنی کو کھائی جارہی ہے۔

وہ nature of stateجس کی بات مغربی فلاسفرز نے کی تھی کہ جہاں “جس کی لاٹھی اسکی کی بھینس” کا محاورہ حقیقت بننے جارہی ہے۔۔بقولِ اقبال۔ آج دنیا کو پھر سے ہے معرکہ آرا، تاریخ نے پھر سے اپنے درندوں کو اْبھارا۔ وہی لاشیں، قتل و غارت، وہی خون آلود جسم، ظلم و ستم، لوٹ کھسوٹ اور ناانصافی اْمڈ رہی ہے جس سے یہ واضح پیشن گوئی کی جا سکتی ہے کہ انسانی عروج کی سوئی زوال کی طرف گامزن ہے۔ بقولء تامس ہوبز کہ انسان وحشی، ظالم اور لالچی تھا، اْس وقت کے فلاسفرز نے اْس پر کافی تنقید کی لیکن اگر اس کو موجودہ صورتحال پر قیاس کیا جائے تو موجودہ انسان درندگی کی ہر حد پار کرتا جارہا ہے۔

یہاں انسانیت بھٹ چکی ہے قومیت کے نام پر، فرقوں کے نام پر، نسل پرستی کے نام پر۔ یہاں قانون کے نام پر انسانی شرف کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ بقولِ سوفسطائی تھارسی مینس کہ،” قانون ایک ذریعہ ہے طاقتوروں کے مفادات کی نگہداشت کا، کمزوروں پر حکمرانی کا”۔ آج کا انسان تاریخ کا بدترین انسان بن چکا ہے، جہاں جہاں اْسکو مادی آسائشوں کی بھرمار ہے وہی انسانی حقوق کی استحصالی اپنی چوٹی پر ہے، جہاں لوگوں کی عزت و عفت محفوظ نہیں، عورتیں نہ گھروں میں محفوظ نہ باہر، جہاں چھوٹے بچے و بچییاں اپنے ہی رشتوں کی حوس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، جہاں حقوق کی پامالی کی جاتی ہے۔ انسانی تخیل نے اْسے چاند، مریخ تک تو پہنچا دیا لیکن وہ اخلاقیات کے اقدار سے عاری رہا۔ انسان تھا وہ لیکن انسان کب بنا۔