|

وقتِ اشاعت :   December 29 – 2014

گزشتہ چھ دہائیوں سے ہرآنے والی حکومت نے ادار ے نہیں بنائے جو ادارے برطانوی راج سے ہم کو ملے ہم نے ان کو بھی تباہ وبرباد کیا۔ 34سالوں تک اس ملک میں فوجی حکمرانوں نے حکومت کی بقیہ سالوں بالواسطہ حکومت کرتے رہے اور سویلین حکومتوں کو احکامات دیتے رہے کہ یہ کرو اور یہ مت کرو۔ اس دوران صرف ایک ادارے فوج پر زیادہ تر توجہ رہی کیوں حکمرانوں نے پاکستان کو ایک دفاعی مملکت نہیں بننے دیا بلکہ اس کو جان بوجھ کر سیکورٹی ریاست میں تبدیل کردیا۔ اس وجہ سے عوام الناس کے بنیادی مفادات پس پشت ڈال دیئے گئے۔ ایک سول حکمران نے چاپلوسی میں یہ تک کہہ دیا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ایٹم بم بن گیا، کیا ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل حل ہوگئے یا زیادہ پیچیدہ ہوگئے، غربت آسمان تک پہنچ گئی، بے روزگاری عام ہے، ملک ایک زبردست معاشی اور معاشرتی بحران کا شکار ہے، امن وعامہ کی صورت حال روز بروز خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ دہشت گرد اپنے اہداف خود چنتے ہیں ا ور سماج کے کمزور ترین طبقات پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے۔ مقامی ادارے خصوصاً پولیس کا کام ہے کہ وہ ہر قیمت پر امن وامان بحال رکھے۔ چونکہ پولیس ایک سویلین ادارہ ہے عام شہریوں سے اس کا تعلق زیادہ قریبی اور مضبوط ہے۔ اس کے برعکس ایف سی اور رینجرز یا سول آرمڈ فورسز کا تعلق عام شہری زندگی سے نہیں ہوتا۔ ان کا کام ضرورت کے وقت پولیس اور مقامی انتظامیہ کی مدد کرنا ہے، خود حکمرانی نہیں کرنا بلکہ پولیس کی ہدایات پر عمل کرنا ہے۔ مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ عارضی طور پر تعینات ایف سی اور رینجرز ایسے فیصلے کررہے ہیں جس سے عوام میں زبردست بے چینی پھیل رہی ہے۔ مثلاً لیاری میں پولیس کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور سیاسی وجوہات کی بناء پر رینجرز کو کراچی بھر میں اہم رول دیا گیا ہے۔ مقامی افراد یہ الزام لگاتے ہیں کہ رینجرز نے صرف لیاری میں 100 سے زائد قتل کئے ہیں جن کو مقابلوں کے دوران ہلاکتوں سے ظاہر کیا گیا ہے۔ اب ایک آزاد کمیشن ان الزاما ت کی تحقیقات کرے کہ آیا یہ قتل زیر حراست ہوئے ہیں یا واقعی مقابلوں میں یہ لوگ مارے گئے ہیں۔ بہر حال ان ہولناک واقعات نے سماج پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں، پولیس روایتی طور پر زیادہ اطلاعات رکھتی ہے اور بعض کام بغیر طاقت کے استعمال سے اور اپنے اثرورسوخ کے استعمال سے کرتی آرہی ہے۔ حالیہ سالوں تک صرف پولیس کا پیغام پہنچانا تھا تو مطلوبہ شخص پولیس کے سامنے حاضر ہوجاتا تھا۔ رینجرز کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ خصوصاً سول سوسائٹی، وہ آئے دن گھر گھر تلاشی لیتی ہے۔ عوام کے عزت النفس کو مجروح کرتی رہتی ہے اور اس کا نتیجہ زیرو نکل آتا ہے۔ ایک معروف اخبار نویس کے گھر چوتھی بار چھاپہ مارا گیا، عورتوں اور گھر کے تمام لوگوں کی تلاشی لی گئی اور تلخ ترین زبان میں پوچھا گیا کہ اسلحہ کہاں ہے؟ بتایا گیا کہ یہ پاکستان کے ایک معروف ترین اخبار نویس کا گھر ہے یہاں صرف کتابیں ملیں گی اسلحہ نہیں ملے گا۔ اس کے باوجود تمام گھر والوں کو بشمول چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھ گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا گیا۔ یہ کام صرف عارضی ڈیوٹی دینے والے ایف سی اور رینجرز کے اہلکار ہی کرسکتے ہیں۔ پولیس سیدھے جرائم پیشہ افراد کے گھر اور اڈوں پر چھاپہ مارتی ہے۔ بے گناہ اور ملک کے اہم شہریوں کوہراساں کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتی۔ اب پوری کی پوری آبادی کو گھر گھر تلاشی کے نام پر یرغمال بنایا جارہا ہے بلکہ بار بار یرغمال بناکر لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے جبکہ جرائم پیشہ افراد آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں اور اسلحہ کی نمائش کررہے ہیں۔ ان کے ہیروئن، چرس، شراب اور جوئے کے اڈے چل رہے ہیں۔ جب رینجرز کا چھاپہ پڑتا ہے وہ پہلے ہی اپنے ٹھکانوں سے ہٹ جاتے ہیں اور ایک گھنٹہ بعد دوبارہ اپنا کاروبار شروع کردیتے ہیں۔ پولیس جرائم پیشہ افراد کے حرکات پر پورا دن اور پوری رات نگاہ رکھتی ہے، وہ الگ بات ہے کہ کرپٹ پولیس افسر رشوت لے کر ان جرائم کی سرپرستی کررہا ہو۔ پولیس کی مرضی کے بغیر کوئی جرائم پیشہ فرد لیاری میں نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ رینجرز کو پولیس کے تابع کیا جائے۔ رینجرز سے پولیس کے تمام اختیارات واپس لئے جائیں اور رینجرز کو پولیس کے ماتحت کردیا جائے تاکہ جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ ہوسکے۔