دہشت گردی کے خلاف مکمل اعلان جنگ کے دوران وزیر اعظم پاکستان نے یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ بلوچستان حکومت کو مکمل اختیارات دے دیئے گئے تاکہ ہ بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کرے۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان خوش آئند ہے اور اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت پاکستان بلوچستان کے سیاسی مسئلے کا پرامن حل چاہتا ہے جس کے لئے صوبائی حکومت کو مکمل اختیارات دیئے جارہے ہیں۔ اب یہ صوبائی حکومت کا کام ہے کہ وہ اس بات کی جانچ پڑتال کرے کہ اس کے پاس کیا کیا اختیارات ہیں۔ اولین اقدام کے طور بعض معروف قیدیوں کی رہائی کا اعلان کرے خصوصاً ان قیدیوں کا جن کا تعلق ان کی اپنی پارٹی نیشنل پارٹی سے ہے۔ ان میں سابق قائد حزب اختلاف کچکول علی کا صاحبزادہ بھی شامل ہے جن کو کراچی کے علاقے لیاری سے اغواء کیا گیا۔ غالباً ان کو یرغمال بنایا گیا ہے ان کے والد بلوچستان کی سیاست میں سرگرم کردار ادا کررہے ہیں۔ بہرحال یہ ٹیسٹ حکومت بلوچستان پر منحصر ہے کہ ملک کے حالات کو بہتر اور مناسب بنائے جس سے مزاحمت کار اس بات پر راغب ہوجائیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں اور بات چیت کی ابتداء کریں۔ ان کے شرائط یہ ہیں کہ تمام وفاقی افواج کو میدان عمل سے نکال کر بیرکوں اور افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر مامور کیا جائے۔ ان میں ایف سی سرفہرست ہے اور اس کو فوری طور پر بیرکوں میں واپس بھیجا جائے یا اس کو سو فیصد صوبائی حکومت کے احکامات کے تابع کیا جائے۔ وہ کسی دوسرے ادارے کے ماتحت نہ ہو، امن عامہ کا معاملہ دوبارہ شہری انتظامیہ، پولیس اور لیویز کے حوالے کیا جائے جو لوگوں کے تعاون سے بلوچستان بھر میں امن بحال کریں۔ اس کے ساتھ ہی تمام گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے اور غائب نوجوان جو سرکار ی اہلکاروں کی تحویل میں ہیں ان کو فوری طور پر رہا کیا جائے تاکہ مذاکرات کے لئے سازگار ماحول تیار ہو۔ اگر صوبائی حکومت واقعی مقتدر ہے اور اس کے پاس اتنے اختیارات ہیں تو ان تینوں چیزوں پر فوری طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ صوبے میں مسلح افواج خصوصاً ایف سی کی بیرکوں میں واپسی، سول انتظامیہ کو امن عامہ کی ذمہ داری، تمام گرفتار شدگان کی رہائی اور غائب نوجوانوں کو بازیاب کرلیا جائے۔ اس سے حالات سازگار ہوں گے اور مزاحمت کاروں پر عوام الناس کا دباؤ بڑھ جائے گا کہ نہ صرف وہ اپنی کارروائیاں بند کردیں بلکہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا ابتداء بھی کریں تاکہ بلوچستان میں دیر پا امن قائم ہو۔ اکثر مبصرین وزیر اعظم کے اعلان کا یہی مطلب نکالتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کو فوری طور پر راحتیں پہنچائی جائیں تاکہ صوبے میں امن بحال ہو اور سیاسی مسائل کا فوری حل تلاش کیا جائے۔ ایران کی جانب سے بڑے پیمانے پر فوجی جنگی مشقیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خطے کی صورت حال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ یہاں پر جنگ کے بادل منڈلاتے نظر آرہے ہیں، ایران 22 لاکھ مربع کلو میٹر پر جنگی مشقیں کررہی ہے اس میں ساحل مکران سے لے کر افغانستان کی سرحد تک ایران اپنے قوت کا مظاہرہ کررہا ہے کہ ہنگامی صورت حال میں وہ پورے ایرانی بلوچستان اور آبنائے ہرمز کے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل کہ بلوچستان میں بڑے پیمانے کی مداخلت کے امکانات پیدا ہوجائیں یہ حکومت پر لازم ہے کہ بلوچستان کے حالات کو بہتر بنائے اور دائمی امن قائم کرے تاکہ ملک بیرونی خطرات کا مقابلہ کرسکے۔ ایران کی بڑے پیمانے پر جنگی مشقوں کا مقصد یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایران اتنی قوت رکھتا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر تک اپنے مفادات کی حفاظت کرسکے۔ یہ پاکستان کو ایک پیغام ہے کہ غیر مستحکم پاکستا ن ایران کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ کسی ناگہانی حکومت میں ایران پاکستان کے اندر گھس کر بڑی کارروائی کرسکتا ہے۔ ایک مرتبہ ایران ہمارے ملک کے اندر داخل ہوگیا اور وہ بھی سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر تو دنیا کی کوئی طاقت ایران کو اس سرزمین سے نہیں نکال سکتی۔ اس لئے صوبائی حکومت کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کے لئے سازگار ماحول بنائے اور ملک کی سلامتی اور یک جہتی کو یقینی بنائے جو وزیراعظم پاکستان کی دیرینہ خواہش ہے۔