|

وقتِ اشاعت :   November 24 – 2020

لیاری میں ایک مرتبہ پھر آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں جرائم پیشہ افراد اور گینگ وار کارندوں نے لیاری کو دوبارہ اپنا مسکن بنانا شروع کردیا ہے۔انتہائی سنگین جرائم میں مطلوب سماج دشمن عناصر جو کچھ عرصہ پہلے آپریشن میں مارے جانے کے خوف سے دم دبا کر بھاگ گئے تھے آج بغیر کسی خوف اور مزاحمت کے لیاری میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے منشیات کا مکروہ دھندا عروج پر پہنچ چکا ہے۔ گلیوں،سڑکوں،چوراہوں، تعلیمی اداروں، کھیل کے میدانوں حتیٰ کے مسجدوں کے سامنے نوجوانوں کی ٹولیاں تھیلیاں اٹھائے کھلے عام منشیات بھیجتے نظر آتے ہیں۔

لیاری میں دس سال سے زیادہ عرصے تک رہنے والی خون آشام بد امنی جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ ایک طویل اور بے رحم آپریشن کے ذریعے کچھ عرصے تک ختم کرکے عارضی امن قائم کردیا گیا تھا۔ لیاری آپریشن میں درجنوں نوجوان مارے گئے تھے کئی نوجوان مبینہ طور پر ماورائے قانون و آئین قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گولیوں کا نشانہ بھی بنے تھے لیکن لیاری کے عوام اس وقت اتنے بے بس اور بے دست و پا تھے کہ احتجاج تو اپنی جگہ اپنے پیاروں کی لاشوں پر ٹھیک سے آہ و بکا سے بھی محروم رہے تھے۔

لیاری کے عوام نے اپنے سینوں پر بھاری پتھر رکھ کر صرف امن کی بحالی کی خاطر ان سب کو برداشت کیا اور زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے ایک نئے سفر کا سامان باندھ لیا تھا لیکن انھیں کیا پتہ تھا کہ لیاری میں امن اور بد امنی دونوں معروضی حالات کے پیداوار نہیں ہوتے بلکہ سیاسی اور ریاستی مفادات کی تکمیل کے لیے کبھی عارضی امن تو کبھی مکمل بد امنی لیاری کی جھولی میں ڈال دی جاتی ہے۔ محنت کشوں کی اس بستی کو ہمیشہ عدم استحکام کا شکار بنانے کے لئے گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے، لیاری کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی پنڈتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس خونی کھیل کا تعلق بڑی حد تک بلوچستان کے حالات سے ہے۔

جب کبھی بلوچستان کے حالات کروٹ لینا شروع کرتے ہیں تو عام طور پر کراچی کے تمام بلوچ علاقے اور خاص طور پر لیاری میں حالات کو دگرگوں کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا جاتا ہے اس لئے لیاری میں کبھی بھی مستقل امن قائم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی مکمل طور پر جرائم پیشہ افراد کا صفایا کیا جاتا ہے اس لیے آج پھر لیاری میں امن و امان قائم کرنے کے دعویداروں کی موجودگی میں ایک نئی بدامنی کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ ایک طرف منشیات کے کاروبار کو فری ہینڈ دیا گیا ہے تو دوسری طرف لیاری کو کنکریٹ کا جنگل بنانے والے بلڈرز مافیا کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔

جرائم پیشہ افراد اور بلڈرز مافیا کا ایک نیٹ ورک پروان چڑھ رہا ہے کیوں کہ غیر قانونی طور پر بلند و بالا عمارتیں بنانے والے بلڈرز کو اپنے تحفظ کے لئے جرائم پیشہ افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ آگرہ تاج، موسیٰ لین، بہار کالونی، لیمارکیٹ اور چاکیواڑہ کے بعد اب ان بلڈرز نے ایک مذموم سازش کے تحت گل محمد لین، سنگولین، نوا لین، کلاکوٹ اور دیگر بلوچ اکثریتی علاقوں کا رخ کرلیا ہے چونکہ ان علاقوں میں انھیں مزاحمت کا خوف ہمیشہ رہے گا اس لیے وہ سابق گینگ وار کارندوں اور جرائم پیشہ افراد کو اپنے ساتھ شامل کر رہے ہیں۔

منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور بلڈرز مافیا کی سرکوبی نہ کرکے لیاری کو ایک انتہائی خطرناک صورتحال کی طرف دھکیلا جارہا ہے سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ گینگ وار کے کچھ اہم کارندوں نے بھی لیاری میں اپنی انٹری دے دی ہے،یہ کیسے ممکن ہوا اس کا جواب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بہتر دے سکتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ لیاری کے جزوی امن کو تہہ و بالا کرکے ایک اور گینگ وار جیسی صورتحال پیدا کرنا مقصود ہے۔ فی الوقت تو لیاری کے یہ سماج دشمن عناصر منشیات کا مکروہ دھندہ اور بلڈرز مافیا کے ذریعہ پیسے کما کر طاقت ور بننے کی تگ و دو میں ہیں۔

اس کے بعد وہ اپنے تحفظ اور مخالفین کو مرعوب کرنے کے لئے مسلح دستوں کو تیار کریں گے تاکہ وہ اس طاقت کے ذریعے لوگوں کو خاموش کرکے اپنی چودھراہٹ قائم کرسکیں علاوہ ازیں بھتہ، قبضہ، ڈکیتی اور لوٹ مار کی شروعات کر سکیں اور پھر طاقت اور اختیارات کی کشمکش کے کوکھ سے ایک نئے گینگ وار کا پیدا ہونا فطری امر ہوگا۔ میرا مقصد قطعی خوف اور سنسنی پھیلانا نہیں بلکہ اس سے قبل لیاری میں جو کچھ ہوا ہے ان خونی ادوار کا تجزیہ اور موجودہ حالات پر غور و فکر کرنے کے بعد انتباہ کے طور پر اپنے قلم کو جنبش دے رہا ہوں حکومت، ریاست اور ریاستی ادارے اگر چاہیں۔

تو سنگین مسائل کی دلدل میں دھنستے لیاری کو بچا سکتے ہیں۔ ایک نئے گینگ وار کی طرف بڑھتے قدموں کو کاٹ سکتے ہیں ان کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ اس وقت لیاری میں جرائم پیشہ افراد کو نہ عوامی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ان کے پاس مسلح دستے ہیں، لیاری میں اس وقت نہ کوئی نو گو ایریا ہے۔ جہاں پولیس کو بکتر بند گاڑیوں کی ضرورت پڑے اور نہ ہی کسی بڑے آپریشن کی نوبت آئے گی جہاں پولیس کو رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمک اور تعاون کی ضرورت پڑے،اگر ضرورت ہے تو صرف اور صرف اس اعلیٰ سطح کے آرڈر کی ہے۔

جس کی تعمیل کرکے پولیس ان منشیات کے سوداگروں اور سماج دشمن عناصر کا بلا امتیاز قلع قمع کرسکے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی لیاری میں زیر تعمیر تمام غیر قانونی عمارتوں کو منہدم کرکے اس گنجان علاقے میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر پر مکمل پابندی عائد کرسکے۔ دن بدن بگڑتے لیاری کے حالات کو دیکھنے کے بعد بھی یہاں کے عوامی نمائندوں کی خاموشی نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کی شکست کی ایک بڑی وجہ لیاری کے ان سنگین حالات سے اپنے آپ کو لاتعلق کرنا تھا ورنہ پیپلزپارٹی کے اس سیاسی قلعہ کو فتح کرنا پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کے بس کی بات نہیں تھی۔

لیکن آج ان جماعتوں کو لیاری کے عوام نے ووٹ اس لیے دئیے کہ وہ انھیں منشیات کے سوداگروں اور گینگ وار سے تحفظ دے سکیں۔ ایک پائیدار امن، جو یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کو یقینی بنا سکیں، شہر کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی تعلیمی، تجارتی اور مثبت معاشرتی سرگرمیوں کو فروغ مل سکے۔ خوف، بے یقینی اور فرسٹریشن کے مہیب سائے ختم ہوسکیں لیکن افسوس لیاری کے عوام کی یہ امیدیں دم توڑتی نظر آرہی ہیں کیوں کہ یہ جماعتیں نہ لیاری کی ترقی اور تعمیر میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور نہ ہی منشیات اور بلڈرز مافیا کے خلاف کاروائی میں دلچسپی دکھا رہی ہیں۔

جبکہ دوسری طرف پیپلزپارٹی لیاری سے اپنی شکست کی ہزیمت سے اب تک نکل نہیں پارہی۔ اپنی نااہلیوں، کوتاہیوں اور سنگین غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت آج بھی اپنی اسی روایتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس خوش فہمی کے سحر میں گرفتار ہے کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں وہ اپنے مخالفین کو عبرتناک شکست دے کر اپنا بدلہ چکا لیں گے۔ معلوم نہیں یہ عقل کے اندھے زمینی حقائق سے نظر کیوں چراتے ہیں انھیں لیاری ایک اور خون خرابے کی طرف بڑھتا نظر کیوں نظر نہیں آرہا، منشیات کے ذریعہ نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کرنے والے دندناتے سوداگر انھیں دکھائی کیوں نہیں دے رہے۔

لیاری کو کنکریٹ کا جنگل بنانے والے بلڈرز مافیا کیوں ان کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ جبکہ پیپلزپارٹی کی یہی مقامی قیادت آج بھی بسوں اور دیگر گاڑیوں میں بھر کر لیاری کے عوام کو جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کرنے کے لیے لے جاتی ہے۔ لیاری میں بلاول بھٹو کی سالگرہ اور دیگر مواقع پر بڑی تقاریب کا انعقاد کرتی ہے لیکن لیاری میں منشیات، گینگ وار اور بلڈرز مافیا کے خلاف آواز اٹھانے یا کوئی اقدام کرنے سے ان کے ہاتھ پیر شل اور زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح لیاری کے نام پر سیاست کرنے والی دیگر جماعتیں جنھوں نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں یہاں کے عوام سے ووٹ لے کر اپنے نمائندوں کو اسمبلیوں تک پہنچایا ہے۔

ان کی پراسرار خاموشی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ انھیں لیاری کے ان سلگتے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ اب وقت اور حالات کا یہی تقاضہ ہے کہ لیاری کے عوام اپنے آپ کو ان عوامی نمائندوں، سیاسی جماعتوں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں بلکہ لیاری کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے اور اپنے بچوں کے بہتر اور روشن مستقبل کے لیے خود ہراول دستے کا کردار ادا کریں۔ منشیات، گینگ وار اور بلڈرز مافیا کے خلاف اگر آج آپ نے اپنی خاموشی کا گلا نہیں گھونٹا تو یہ آپ کے آنے والے کل کا گلا بے رحمی سے گھونٹ دیں گے۔