|

وقتِ اشاعت :   January 2 – 2015

کراچی: ٹیلی کام کمپنیوں نے حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ سیکیورٹی کے ناقص اقدامات کا ملبہ سیلولر کمپنیوں پر ڈالا گیا تو ملک میں ٹیلی کام سیکٹر کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔ واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے موبائل فون کمپنیوں کو 14کروڑ سموں کی ازسرنو تصدیق کی ہدایت دی گئی ہے، ملک بھر میں جاری شدہ ان موبائل فون سمز کی تصدیق پر ٹیلی کام کمپنیوں کو 5ارب 67کروڑ روپے کے اخراجات کا سامنا ہو گا۔ انڈسٹری ذرائع نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ موبائل فون کمپنیوں کا کہنا ہے کہ تھری جی ٹیکنالوجی میں لائسنس کی مد میں کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری کے بعد تھری جی ٹیکنالوجی کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کرنے کے لیے مزید 1ارب ڈالر سالانہ کی سرمایہ کاری کی جانی ہے۔ یہ سلسلہ 4 سال تک جاری رہ سکتا ہے، حکومت رواں سال نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی کے بچ جانے والے اسپیکٹرم کی نیلامی کی خواہش مند ہے لیکن سیلولر انڈسٹری پردبائو اور لاگت میں اضافے سے اسپیکٹرم اور ایک لائسنس کی نیلامی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے لیکن حکومت کی جانب سے سیلولر انڈسٹری پر بڑھتے ہوئے دبائو اور ہر سانحے کے بعد ایک نئے مکینزم اور طریقہ کار پر بھاری اخراجات کرانے سے ملک میں تھری جی رول آؤٹ پر کی جانے والی سرمایہ کاری مشکل میں پڑ جائے گی۔ انڈسٹری نے سموں کی بائیومیٹرک تصدیق پر اٹھنے والے اخراجات یونیورسل سروس فنڈ سے ادا کرنے، نادرا کے تصدیقی چاجرز ختم کرنے جبکہ نئی ڈیوائسز کی خریداری کے لیے کمپنیوں کو خصوصی فنڈ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ انڈسٹری ذرائع کے مطابق 14کروڑ سموں کی 28روز میں تصدیق تقریباً ناممکن ہے، اگر ملک بھر میں پھیلے موبائل فون کمپنیوں کے 15ہزار سے زائد فرنچائز اور آئوٹ لیٹس سے مسلسل 24 گھنٹے بھی بائیو میٹرک ویریفکیشن کی جائے تب بھی اس ڈیڈ لائن پر عمل نہیں ہوسکتا، کوائف کی ہر تصدیق پر نادار 23 روپے جبکہ تصدیق کرنے والے ریٹیلرز اور فرنچائز مالکان اپنی لاگت، ایکویپمنٹ، بجلی اور افرادی قوت کے اخراجات کی مد میں بھی 15سے 20روپے فی سم تصدیق کے چارجز وصول کرتے ہیں، اس طرح ہر سم پر 40سے 45 روپے کا خرچ آتا ہے، حکومت کی ہدایت پر 14کروڑ سمز کی بائیومیٹرک تصدیق پر 5 ارب 60کروڑ سے 6ارب 30 کروڑ روپے تک کا خرچ آئے گا۔ پی ٹی اے کی ہدایت پر ملک بھر میں بائیومیٹرک ویفرکیشن سسٹم کی تنصیب پر کمپنیاں مجموعی طور پر 2کروڑ 60لاکھ ڈالر خرچ کرچکی ہیں، ملک بھر میں اب تک 75 سے 80ہزار بائیومیٹرک ڈیوائسز نصب کی جاچکی ہیں، موسمی اثرات اور تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے ان ڈیوائسز میں سے 10سے 15 فیصد مرمت کی متقاضی ہیں، حکومت کی ہدایت کے مطابق 14کروڑ سمز کی تصدیق کے لیے موجوہ ڈیوائسز کی تعداد بھی ناکافی ہے جس کے لیے مزید میشینیں نصب کرنا ہوں گی، ملک میں یومیہ بنیادوں پر 1لاکھ نئی سمیں فروخت کی جارہی ہیں۔ تصدیق کے عمل کے دوران سمزکی فروخت بھی متاثر ہوگی اور یہ سلسلہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جائے گا، پاکستان میں استعمال ہونے والی تمام رجسٹرڈ یا غیررجسٹرڈ سمز کا مکمل ڈیٹا دستیاب ہے جس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں مستفید ہورہی ہیں حتیٰ کہ پاکستان میں انتہائی مطلوب افراد تک کو موبائل فون کمپنیوں کے فراہم کردہ ڈیٹا کی مدد سے قانون کے شکنجے میں لیا جا رہا ہے، ملکی سلامتی کے لیے موبائل فون کمپنیاں اپنی ذمہ داری پہلے ہی احسن طریقے سے ادا کررہی ہیں، حکومت موبائل فون کمپنیوں پر بے جا دبائو ڈالنے کے بجائے ان کے ساتھ اشتراک عمل کے ذریعے قومی سلامتی سے متعلق خدشات کا زیادہ بہتر حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ انڈسٹری کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے اس کے متعلقہ محکموں بشمول ہوم ڈپارٹمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بائیومیٹرک سسٹم سے متعلق مکمل اور موثر معلومات مہیا نہ کیے جانے سے متعلقہ ادارے سمز کی فروخت اور بائیومیٹرک نظام کی افادیت سے لاعلم ہیں اور وہ اب بھی ہر فروخت ہونے والی سم کو غیرقانونی تصور کررہے ہیں، ایسی صورتحال میں سیکیورٹی کی خامیوں کی تمام ذمے داری موبائل فون کمپنیوں پرڈالنا درست نہیں ہے، جی ایس ایم اے کے 15 ملکوں میں کیے گئے ایک حالیہ سروے سے بھی پاکستان میں کام کرنے والی موبائل فون کمپنیوں کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ سموں کی لازمی تصدیق سے جرائم اور دہشت گردی میں کمی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔