یہ دو ہزار چھ کی بات ہوگی جب میں پہلی بار گوادرائیر پورٹ پر اترا تھا۔ گوادرکے بارے میں والدہ نے کہا تھا ہماری نانی اور انکے آباؤ اجداد کا تعلق گوادر یا اسکے قرب و جوار غالباً کلانچ کے علاقے سے تھا۔ میری والدہ کا ننھیال کا تعلق گوادر سے تھا جہاز سے اترتے ہی فرش پر بیٹھ گیا اس وی آئی پی وفد میں میرے ساتھ سینیئر صحافیوں کی ایک پوری ٹیم تھی قیصر محمود صاحب مرحوم اور ضرار خان کو لگا میری طبیعت خراب ہے فوری میرے قریب آئے اور پوچھا کیا ہوا سب ٹھیک ہے میں نے مسکرا کر کہا اس سرزمین سے میری نسبت جڑی ہے، اسکا پیار سمیٹ رہا ہوں۔
ضرار خان بولے اٹھو واجہ اب یہ تمہاری نہیں ہے۔ضرار خان کا یہ جملہ میرے کانوں میں گونجتا رہا اور بعد ازاں میں یہاں زمین کے حصول اور اپنی نسبت کو قائم رکھنے کیلئے اپنی نانی کو منانے کی ہر کوشش میں ناکام رہا۔ اس بوڑھی عورت نے اپنے بھائی کے بلوچی قول پر گوادر کی زمین وار دی۔ اس قصہ پارینہ کے برعکس کچھ لوگوں نے اپنے پرکھوں کی زمینیں جنہیں وہ غیر آباد سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے تھے بغیر کسی قانونی جنگ کے سات پشتوں کا شجرہ بتا کر روایتوں کے سر پر واپس حاصل کیا۔ان زمینوں کو گوادر کی مقامی زبان میں ایکڑ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ان ایکڑوں کو لوگ غیر آباد سمجھ کر چھوڑ گئے تھے لیکن انکی نسلیں بعد میں ایکڑوں کے مالک بنے اور ایسے ہی ایکڑ مالک بننے والوں نے کراچی میں پاک کالونی کے علاقے میں ایک چوراہے کا نام ایکڑ چوک رکھا۔ گوادر کے ان ایکڑوں کی داستان میں کئی لوگ آباد تو کئی برباد ہوگئے۔ جب گوادر پورٹ پر باقاعدہ کام شروع ہوا تو اسکے بعد تاحال ہر حکمراں وقت نے نہ صرف گوادر میں زمین حاصل کی بلکہ سرکار کی زمین کو مال مفت کی طرح الاٹ بھی کیا،کسی نے سرکاری زمین الاٹ کرواکے پھر سرکار کو بھی بیچنے کی کوشش کی تو کسی نے رشتے داروں کے نام پر بے نامی جائیداد بنا کر برے وقتوں کیلئے رکھ دی تو کسی نے کمیشن لیکر کسی سرمایہ دار کو زمین الاٹ کردی۔
ہمارے ایک ڈپٹی کمشنر دوست نے قصہ سنایا کہ پچھلے ادوار میں ایک دن لینڈ ریکارڈ کی میٹنگ میں انکشاف ہوا کہ گوادر کے ماسٹر پلان میں جو جگہ فٹ پاتھ کیلئے مختص تھی ایک صوبے کی اعلٰی شخصیت نے پٹواری سے ساز باز کرکے الاٹ کروالی تھی اور گوادر کی زمینوں کیساتھ یہ جو کھلواڑ ہوا اس میں اگر کہیں وفاقی حکومت ملوث پائی گئی تو انکی سہولت کاری صوبے کی حکومت میں موجود اعلٰی شخصیات نے کی اور ان تمام افراد کا تعلق پنجاب سندھ یا خیبر پختونخواہ سے نہیں بلکہ بلوچستان سے تھا،بلکہ گوادر کے بااثر لوگ بھی اس میں شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے۔
ان تمام عوامل کے بعد نیب حرکت میں آچکی ہے،چند ایک پٹواری جیل کی سلاخوں کے پیچھے ضرور ہیں لیکن بڑے کھلاڑی اب بھی آزاد ہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل بلوچستان ہائی کورٹ نے لگ بھگ دو ہزار ایکڑ زمین جو ملک کے بڑے انویسٹر ہاشو گروپ کو الاٹ ہوئی تھی اس پر ایک کیس کے فیصلے میں اس الاٹمنٹ کو کینسل کردیا جسکے بعد کوئٹہ میں یہ تاثر ابھارا گیا کہ موجودہ وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے کمیشن اور کک بیک کے بدلے یہ زمین الاٹ کی تھی جسے ہائی کورٹ نے کینسل کیا۔چند روز قبل تربت میں ایک ناشتے کی میز پر میں خود موجود تھا جہاں یہ ایشو بلوچستان کے ایک سینیٹر نے وزیر اعلٰی بلوچستان کے سامنے اٹھا کر ان سے درخواست کی۔
کہ کیا ایسے اقدامات سے انویسٹرز کو دھچکا نہیں لگے گا وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال جن پر میری رائے میں یہ الزام تھا کہ انہوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں انہوں نے سینیٹر کو ساری صورتحال بتائی کے کیسے وہ سینئر ایم بی آر کے فیصلے کو درست نہیں سمجھتے اور انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا جسکے نتیجے میں میرا وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے حوالے سے تاثر غلط ثابت ہوا بلکہ وزیر علٰی کے اس موقف کی تصدیق میں نے ایک اور اعلٰی آفیسر سے دورہ تربت کے بعد حاصل کرلی کہ کیسے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اس معاملے میں ایم بی آر کے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔
اور وہیں ناشتے کی میز پروزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال نے سینیٹر کوبتا یا کہ جہاں تک رہی انویسٹرز کے اعتماد کی بات تو موجودہ حکومت نے ایسی تمام اسکیمات جو بغیر کسی این او سی کے شروع ہوگئی تھیں انہیں نئے ماسٹر پلان کا حصہ بنا دیا ہے تاکہ عوام اور انویسٹرز کے اعتمام کو ٹھیس نہ پہنچے اور وہ بھی گوادر کی ترقی کا حصہ بنیں اور اسکے ساتھ ساتھ گوادر اور بلوچستان کی زمینوں کے حوالے سے جو حالیہ قانون سازی کی گئی ہے وہ حقیقت میں ساحل اور و سائل کے تحفظ کی ضمانت بنے گا۔ ان کہانیوں کا لب لباب یہ ہے کہ گوادر کی زمین یا اسکے ساحل کی ریت پچھلی دو دھائیوں سے گولڈ ریٹس کی طرح اتار چڑھاؤ کا شکارہے۔
اب یہ ریت ہے یا سونا اس بحث میں جائے بغیر میری ذاتی رائے یہ ہے کہ بلوچستان میں لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائیزڈ کرنے کی اشد ضرورت ہے اور صرف گوادر اور مکران نہیں بلوچستان بھر میں قبائل اور سرکار یا پھر افراد کی زمینوں کا تعین ایک بار ہوجانا چاہئے ورنہ جہاں کہیں کسی غیر آباد زمین سے کوئی وسائل ملیں یا سڑک نکلے اسکے میرے جیسے دعویدار بہت سے آجاتے ہیں اسلئے گوادر مکران اور بلوچستان بھر میں لینڈ سیٹلمنٹ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ معاشرہ جس طرح چل رہا ہے آنے والے ادوار میں قول اور روایات کی اہمیت نہیں ہوگی اور کوئی انہیں مانے گا بھی نہیں اور گوادر کی ریت کو سونے سے تشبیہ دیتے ہوئے پھر کوئی پٹواری کوئی فٹ پاتھ کسی حکمراں کی مرضی و منشاء پر الاٹ کردیگا۔
Shoukat Ali
میں آپ سے 100 فیصد متفق ھوں ۔