|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2020

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے کابل کے دورے کے بارے میں سب سے بڑاسوال لوگ یہ کررہے ہیں کہ کیا عمران خان کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان موجود عدم اعتماد کے فقدان کا خاتمہ ہوسکے گا؟ کیا دونوں ملکوں کے مابین سلامتی انٹیلی جنس کے معلومات کا تبادلہ، ترقی میں موجود رکاوٹ، اور تناؤ کا خاتمہ ہو گا؟ اس بارے میں خود افغانستان کے اندر سے دورے کے موضوع پریہ اطلاع ہے کہ کابل اور اسلام آباد نے افغانستان اور پاکستان کے مابین تعلقات میں بہتری لانے کے لیے انٹلی جنس شیئرنگ کرنے پر اتفاق کیا ہے اوراس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینا شروع کردی ہیں افغان حکومت اور پاکستان دونوں فریق اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔

اورنہ ہی کسی اور کو ایسا کرنے دیں گے اور امن و سلامتی کے دشمنوں کوشناخت کرنا ہوگا۔ دستاویز کے ایک وژن کے مطابق دونوں فریقین امن کے دشمنوں اور امن عمل میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف 5 دسمبر تک مشترکہ انٹیلی جنس آپریشن شروع کرنے اوران کا جائزہ لینے اوران کی شناخت کرنے پر اتفاق کیاہے۔ پاکستان اورافغانستان کے مابین ہونے والے معاہدے میں دونوں ممالک کے رہنماوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ باہمی تعاون کے عمل کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں دارالحکومتوں میں تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔

اس سلسلے میں افغان صدر ڈاکٹر محمد اشرف غنی اگلے سال اسلام آباد کا دورہ کرنے والے ہیں عمران خان کے دورہ کابل کے بارے میں افغان میڈیا میں یہ بات آئی ہے کہ کابل میں پرتپاک استقبال کیا گیا ہے کابل کی سڑکوں پر دونوں ممالک کے پرچم آویزاں کیے گئے تھے۔ افغان میڈیا نے اسے ایک غیر معمولی اہمیت دی ہے بقول افغان میڈیا کہ افغان حکومت کی جانب سے کابل شہر کی تمام سڑکیں عوام کے لیے بند ہونے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کابل محفوظ نہیں ہے۔ موجودہ افغان حکومت جس کا ماضی میں اسلام آباد کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کا رشتہ رہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں ملکوں کے مابین عدم اعتماد کے فقدان کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ اس سلسلے میں ان دونوں ممالک میں عدم اعتماد کی فقدان کی مختلف وجوہات سامنے آئی ہیں خطے میں یہ بات بار بار دکھائی گئی ہے کہ حکومت افغانستان کے لیے نئی دہلّی اوراسلام آباد کے مابین توازن برقرار رکھنا مشکل ہے اورجب بھی کابل اسلام آباد کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے ہندوستان مایوس ہونے لگتا ہے اوراس طرح اسے اپنا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے میں امریکہ نے کابل کوامریکہ طالبان کے حوالے کرنے کے اتفاق پر کابل کے سرکاری عہدے دار امریکہ کو بے وفا سمجھتے ہیں۔

اورافغان حکومت پاکستان سے مددکے حصول کے لیے اسلام آباد کے قریب منتقل ہوجاتے ہیں یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ ہونے سے قبل اشرف غنی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا لیکن حکومت پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ جس کی کابل میں حکومت ہوگی وہ اس کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھیں گے بقول مبصرین کے شاید اس کا مقصد حکومت اور نظام میں مستقبل میں ہونے والی تبدیلی کا اشارہ تھا۔ افغان مبصرین عمران خان کے کابل کے دورے کو مبہم قرار دے رہے ہیں کہ صدرغنی کی صدارت کے بعد ہی سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات نے ایک پْر اَسرار شکل اختیار کی ہے۔

افغان حکومت اور پاکستان کے درمیان عدم اعتماد کی فقدان کی سب سی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ جوکہ انڈیا کو خطے میں چین کے خلاف چودھری کا کردار اداکرنے پر ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے امریکہ انڈیا کو صاف آنکھیں نہیں دکھاتا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا ایک اہم اسٹریٹجک دوست ہے اور پاکستان نے امریکہ کے لیے دہشت گردی کے خلاف ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی ایک فعال کردار امریکہ کے لیے لاکھوں ڈالر کے عوض اداکرتے رہیں گے۔ حکومت پاکستان نے حالیہ افغان امن عمل میں سب سے بڑا اور فعال کردار یہ ادا کیا ہے کہ قطر سے افغان طالبان کو دس دن کے لیے اسلام آباد بلایا۔ بقول مبصرین کے حکومت پاکستان نے افغان طالبان کو امریکہ سے امن مذاکرات کرانے پر آمادہ کیا۔

اسی طرح افغان مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو تین روزہ دورے پر اسلام آباد آنے کی دعوت دی گئی۔ پاکستان نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو ایک وزیراعظم کی حیثیت سے پروٹوکول دیا۔ اسلام آباد کی جانب سے عبداللہ عبداللہ کو بھرپور پروٹوکول دینے پر کابل سے یہ اطلاع آ ئی کہ موجودہ صدراشرف غنی میں ایک قسم کی ناراضگی پیدا ہوئی اس وقت اشرف غنی کو یہ ڈر پیدا ہوا ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو پروٹوکول دینے سے ایسا نہ ہو اس کے اختیارات لے کر صدارتی ہاؤس سے عبداللہ عبداللہ کے دفتر سپیدار ہاؤس منتقل نہ ہوجائے۔

بقول مبصرین کہ قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا اور حالیہ ترتیب میں پاکستان نے امریکہ اورطالبان کے مابین کئی ماہ تک جاری رہنے والی بات چیت میں مدد کرتا رہا ہے۔ جس کے اختتام پر دوحہ امن معاہدہ سامنے آیا ہے۔ فروری 2020ء میں معاہدے کے تحت دوحہ میں جاری انٹرا افغان بات چیت کی راہ ہموار ہوگئی جس کے ذریعے پاکستان نے مختلف افغان رہنماؤں کو اپنے اختلافات حل کرنے اور بات چیت کی میز پر آنے میں مدد فراہم کی۔ افغان امن مذاکرات میں پاکستان کے فعال کردار کی تعریف کابل اور واشنگٹن نے بھی کی ہے۔

میں یہ بات کررہا تھا کہ امریکہ نے آج تک انڈیا کو آنکھیں نہیں دکھائی کہ میرے اہم دوست پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کو استعمال نہیں کرے۔ سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں انڈیا پاکستان کے خلاف جو سازششیں کر رہے ہیں۔ کیا دنیا کی ایک سپر پاور کی طاقتور خفیہ ایجنسی کو کوئی پتہ نہیں؟ کیا امریکہ کو یہ پتہ نہیں کہ افغان سرزمین انڈیا پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کے ذریعے حالات خراب کررہا ہے؟ امریکہ انڈیا کو اس لیے یہ نہیں کہتے کہ پاکستان کے حالات خراب نہیں کرے کیونکہ امریکہ نے اس وقت چین کے خلاف سرد جنگ شروع کررکھی ہے۔

امریکہ کوانڈیا کے علاوہ چین کے خلاف کوئی دوسراملک نہیں مل رہا کہ وہ اسے چین کے خلاف استعمال کرسکے اورخطے میں امریکہ اس تشویش میں مبتلا ہے کہ چین کیوں ایک سپر پاورملک بن رہا ہے وہ کیوں خطے میں سی پیک بنا رہا ہے کیوں چین امریکہ کے تجارت پر قابض ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ اب جب ایک سپر پاور ملک ہمارے خطے میں امن لانے کے بہانے سے اپنی فوجیں لایا ہے وہ جب امن نہیں چاہتا تو پھر خطے میں امن کیسے قائم ہوگا؟ اور لوگ یہاں امن نہ لانے کا گلہ کس سے کریں گے،چین اور انڈیا کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے اثرات پاکستان اور افغانستان دونوں پر بھی پڑا ہے۔

پاکستان انڈیا کو کہتا ہے آپ افغانستان کی سرزمین سے ٹی ٹی پی اور دیگر مسلح گروہوں کے ذریعے پاکستان میں حالات خراب کررہے ہو اسی طرح انڈیا پاکستان پر یہ الزام بھی لگاتاہے کہ آپ اپنے مسلح گروہوں کے ذریعے کشمیر میں حالت خراب کررہے ہو۔سوال یہ ہے کہ عمران خان کے دورہ کابل کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے کیا ڈیمانڈ کی ہیں؟ اس بارے میں کابل سے یہ اطلاع ہے کہ افغان حکومت نے عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ دوحہ میں تعطل شدہ امن مذاکرات جاری ہونے سے قبل پاکستان طالبان کو جنگ بندی کرنے پر آمادہ کرے۔

طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ابھی تک ایسی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے کہ طالبان جنگ بندی پر راضی ہوجائیں گے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ طالبان جنگ بندی کے لیے کیا ڈیمانڈ کریں گے اوراگر امریکہ افغانستان میں اپنی فوجیں رکھنے کا فیصلہ کرتاہے تب تو ہمیں طالبان کی جانب سے سخت ردعمل کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدے میں اتفاق کیاہے کہ تمام امریکی اور اتحادی افواج کو نومبر تک افغانستان سے دستبردار کرانا ہوگا لیکن طالبان کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسے القاعدہ سے رابطہ بالکل منقطع کرنا ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ کیا طالبان القاعدہ کے ساتھ رابطے منقطع کریں گے؟ بقول مبصرین اگر طالبان القاعدہ سے رابطے منقطع کرتے ہیں تو افغانستان میں حالیہ دنوں غزنی میں القاعدہ کے ایک اہم رہنما کو کس نے قتل کیا؟ عمران خان کے دورہ کابل کے بارے میں افغان حکومت نے توعمران خان سے طالبان سے جنگ بندی کی مطالبہ کیا تھا تو پاکستان نے افغان حکومت سے کون سا مطالبہ کیا ہوگا میرے خیال میں پاکستان کی حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ آپ کی سرزمین سے ہمارے خلاف جو سازششیں ہورہی ہیں افغان حکومت اس کو بند کرنا چاہیے۔

دورہ کابل سے قبل عمران خان نے بار بار کہتے رہے ہیں کہ بقول ان کے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہاہے اس کے بعد گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اورفوج کے ترجمان میجرجنرل بابرافتخار نے کہا کہ ہندوستان پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کررہا ہے اوراس بات کے شواہد ملے ہیں کہ پاکستان میں متعدد بم دھماکوں اورعسکریت پسندوں کے حملوں کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ تھا۔ وزیراعظم کے دورہ کابل کے دوران اکثر لوگ یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ دونوں ممالک اورخطے میں امن اوراستحکام کے لیے مشترکہ وژن پہ اتفاق اورمعاہدہ کیا رنگ لائے گا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں نے امن و سلامتی، معاشی ترقی اور افغان مہاجرین کی واپسی اور عوام سے رابطوں کے شعبوں میں تعاون جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کی اہمیت اورسنجیدگی اس حقیقت میں مضمر ہے کہ ہر مسئلے پر کام کا ایک ٹائم ٹیبل موجود ہے افغانستان اور پاکستان کے عہدے دار اس معاہدے کو بڑے پیمانے پر خطے میں امن واستحکام کے لیے ایک قدم کے طور پر دیکھتے ہیں اورامن و سلامتی، معاشی ترقی اور عوام سے عوام کے رابطوں کے بنیادی اصولوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اس دستاویز میں پاکستان اورافغانستان کے مابین خصوصی تعلقات پر زور دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کی قومی خودمختاری کے لیے شفافیت اور احترام کی بنیاد پر ہے اس سے قبل سابق پاکستانی جنرل راحیل شریف نے اپنے دورہ کابل کے موقع پر بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی تھی جس میں کابل حکومت کے ساتھ انٹیلی جنس کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اس وقت کابل میں اس بات کی سخت مخالفت کی جارہی تھی کہ افغان قومی سلامتی سروس پاکستانی انٹیلی جنس کے ساتھ تعاون نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم پاکستان نے ایک ایسے وقت میں کابل کا دورہ کیا ہے جب ایک طرف یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ غیرملکی فوجیوں کو افغانستان چھوڑنا ہوگا اور اسی صورتحال میں کابل اوراسلام آباد کے مابین تعلقات میں بہتری لانا ضروری ہے بقول مبصرین کے عمران خان کے دورہ کابل کا مقصد دونوں ممالک کو قریب لانا اوردوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔