|

وقتِ اشاعت :   November 28 – 2020

دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی دوسری لہر کے حوالے سے صورت حال بہت پریشان کن اور گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے اور اس کی وجہ سے ہونے والی اموات نے ایک بار پھر حکومتی اور عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔اس بار کورونا وائرس پر سیاست بھی خوب کی گئی جس کا خمیازہ شاید ہمیں بھگتنا پڑے۔سائنسی ماہرین کئی بار خبردار کرتے رہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر شدید ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم کے جلسے جلوس ہوتے رہے۔

لوگ ان جلسوں میں بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے شرکت کرتے رہے۔وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد جناح کنوینشن ہال میں ٹائیگر فورس کے بہت بڑے مجمع سے خطاب کیا،سوات میں جلسہ کیا،حافظ آباد میں بھی حکومت کا بڑا جلسہ ہوا۔ کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باجود گلگت بلتستان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں نے مل کر ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بڑے بڑے جلسے کیے اور خوب الیکشن کمپین چلائی۔جیسے ہی گلگت بلتستان کے الیکشن ہو گئے حکومت پاکستان کو کورونا بھی یاد آ گیا اور احتیاطی تدابیر بھی۔اس سے پہلے حکومت پاکستان کو نہ تو ایس او پیز کی یاد آئی اور نہ ہی جلسے، جلوسوں پر پابندی عائد کی گئی۔

پاکستان میں ہر شے پر سیاست ہوتی رہتی ہے اپوزیشن کی طرف سے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید ہوتی رہتی ہے اور حکومت کی طرف سے عوام کیلیے کچھ نہ کرنے کا ذمہ دار اپوزیشن کو قرار دیا جاتا ہے۔ہمیشہ سے یہ کھیل یہاں ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا،آج یہ کل وہ اور بیچ میں پِستی عوام ہے۔ویسے سچ پوچھیں تو تعلیمی اداروں سے چھٹیاں ہونے کے بعد پاکستانی عوام کو پتا چلا کہ کورونا دوسری بار بھی آ گئی ہے۔ 17 دسمبر 2019 میں چینی صوبہ ہوبئی کے شہر ووہان سے پھیلنے والی اس خطرناک وبا کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

یہ بیماری اس برق رفتاری سے پھیلی کہ چند مہینوں میں ہی 11 مارچ 2020 کو عالمی ادارہ صحت نے اس کو عالمی وبا قرار دے دیا۔اس خطرناک بیماری کی زد میں آ کر پوری دنیا میں جہاں بہت سی جانوں کا ضیاع ہوا وہاں اس وبا نے عالمی سطح پر معاشرتی اور معاشی طور پر بھی بہت سے ممالک کو مضطرب کیا۔دنیا بھر میں اس وبا سے اموات کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 13 لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی طور پر 58 ملین کے قریب لوگ اس مہلک مرض کا شکار ہوئے اور ان میں روزانہ کی بنیاد پراضافہ ہو رہا ہے۔

اس وبا سے 13 لاکھ لوگ اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں۔پاکستان میں اب تک 3 لاکھ 70 ہزار لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں،جن میں سے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ صحت یاب ہوئے اور اس مہلک بیماری سے چھٹکارہ حاصل کیا۔پہلی مرتبہ پاکستان میں جب کورونا وائرس کی آمد ہوئی تو عوام نے پہلے پہلے اس کو مذاق سمجھا اور بالکل بھی سنجیدہ نہیں لیا مگر جب کیسز اور اموات کی شرح میں اضافہ ہوا تو پھر حکومت بھی حرکت میں آئی ملک بھر میں لاک ڈاؤن سے پہلے 14 مارچ سے فوری طور پر تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا۔اس کے بعد ملک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا۔

اگست ستمبر کی ماہ میں پاکستان میں کورونا کیسز میں کمی آئی تو حکومت نے تعلیمی اداروں کو کھولنے کا اعلان کیا۔مرحلہ وار تعلیمی ادارے کھلنا شروع ہوئے،پہلے مرحلے میں ہائی کلاسسز کو اجازت ملی اس کے بعد مڈل کلاسسز اور آخر میں پرائمری کلاسسز کو کھولا گیا۔ابھی تعلیمی ادارے کھلے کوئی ڈیڑھ دو ماہ کا عرصہ ہوا تھا کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔کورونا کی دوسری لہر کے پیش نظر آخر کار حکومت پاکستان نے ایک بار پھر تعلیمی ادارے بند کر دئیے۔26 نومبر سے 11 جنوری تک پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے جبکہ صوبہ پنجاب کے اعلامیہ کے مطابق تمام سرکاری اور نجی دفاتر میں اب صرف 50 فیصد عملے کو کام کرنے کی اجازت ہو گی۔

ہوم لرننگ کا یہ سلسلہ 24 دسمبر تک جاری رہے گا۔25 دسمبر سے 10 جنوری تک سردیوں کی تعطیلات ہوں گی۔ان میں تمام تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند رہیں گے۔وزیرتعلیم کے مطابق 11 جنوری کو حالات کی بہتری کی صورت میں تمام ادارہ دوبارہ کھول دئیے جائیں گے۔اس کے لیے ایک نظر ثانی اجلاس ہو گا جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا۔حکومت پاکستان کے تعلیمی ادارے بند کرنے کے فیصلے پر جہاں کچھ لوگ اس سے متفق ہیں وہاں کچھ لوگوں کو اس پر تحفظات بھی ہیں۔کیا کورونا کیسز کی شرح تعلیمی اداروں میں زیادہ تھی۔

تعلیمی اداروں کو کھلا رکھ کے وہاں ایس او پیز پر عمل کروا کر کلاسسز لگائی جا سکتی تھیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔جہاں کورونا کیسز کی شرح زیادہ ہے وہاں حکومت نہ تو کوئی سختی کر رہی ہے اور نہ کوئی پابندی۔شادی ہالز میں آئے روز شادیاں ہو رہی ہیں،ہوٹلوں میں عوام کا جم غفیر ہے،سڑکوں پر انتہا کا رش ہے،لوگ سیر سپاٹے پر جا رہے ہیں،بازاروں میں عوام کی بھیڑ ہوتی ہے کیا وہاں کورونا نہیں ہوتا اگر ہوتا ہے تو پھر بند صرف تعلیمی اداروں کو کیوں کیا گیا۔