مکران میں ڈرگ مافیا کے خلاف چلنے والی تحریک نے منشیات کی روک تھام میں سرکاری اداروں کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منشیات فروشوں کے خلاف نئی حکمت عملی اپنانے کا عزم کرلیا۔ انسداد منشیات تحریک کے بانی رہنماؤں نے منشیات فروشوں کے رشتہ داروں پر زور دیا اگر کسی کے خاندان کا فرد منشیات فروشی میں ملوث پایاگیا تو اس کا بھائی یا رشتہ دار اس کا سوشل بائیکاٹ کریں۔ اس سے تمام سماجی رشتوں اور ناطوں کا خاتمہ کریں۔یہ سماجی تعلقات کے خاتمے کا فیصلہ انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ زامران نے کیا ہے۔
یہ مکران کا وہی علاقہ ہے جہاں گزشتہ سال ڈرگ مافیا کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تحریک پورے مکران میں پھیل گئی۔ تربت، دشت، گوادر، پسنی سمیت دیگر علاقوں میں منشیات فروشوں کے خلاف لوگ سڑکوں پر آگئے۔گزشتہ سال بلیدہ کے علاقے میں خواتین اور بچوں نے منشیات فروشوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ظاہری طورپر یہ مظاہرہ ایک معمولی نوعیت کا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے۔ لوگوں نے ریلی کی شکل میں منشیات کی لعنت کو ایک سازش قراردیا۔
عوام کے اس سیلاب نے تحریک کی شکل اختیار کرلی اور مکران کے تمام علاقوں میں انسداد منشیات کمیٹیاں بنائی گئیں جو آج بھی فعال اور سرگرم ہیں۔بلوچستان کے دیگر ڈویژنوں کی نسبت مکران ڈویژن تعلیم یافتہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ شاید 1967 میں بننے والی طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) ہے۔ بی ایس او اپنے قیام سے لیکر آج تک بلوچ قوم پرستی کی سیاست میں ایک کیڈر ساز ادارہ بن چکا ہے، بی ایس او نے ہر بلوچ نوجوان کی فکری تربیت کے ساتھ انکی کردار سازی بھی کی ہے۔
یہ بی ایس او کی مرہون منت ہے کہ آج ہر بلوچ اپنے حقوق اور بالادست قوتوں سے سوال کرنے کی جرات رکھتے ہیں، بی ایس او کے کارواں میں بے شمار فکری و نظریاتی کیڈر پیدا ہوئے ہیں۔آج مکران سیاسی طور پر بلوچستان کے دیگر علاقوں سے زیادہ باشعور ہے۔ جہاں تعلیم کی بدولت مڈل کلاس یا ورکنگ کلاس پیدا ہوگئی ہے۔ اس کلاس سے تعلق رکھنے والوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب تک بھی رسائی حاصل کرلی، یہ رسائی دراصل بی ایس او کی مرعون منت ہے۔آج منشیات کے خلاف تحریک کی کامیابی بھی تعلیم یافتہ طبقہ کی وجہ سے ہے۔ ہر علاقے میں انسداد منشیات کمیٹیاں سرگرم ہیں۔
حال ہی میں ان کمیٹیوں نے منشیات فروشوں سے سماجی احتساب کے عمل کا اظہار کیا۔ ویسے بھی دیکھا جائے بلوچ ایک کردار کا نام ہے۔ بلوچ معاشرے میں رہنے والا کسی غیر بلوچ کو بلوچوں جیسی خصوصیات (کردار) ہوں تو اس کو تقریباً بلوچ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک بلوچ کے اندر بلوچوں والے کردار نہ ہوں تو انہیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ نے یہ غلط کام کیا ہے آپ بلوچ نہیں ہوسکتے۔ ان سے بلوچ ہونے کی شناخت (لقب) واپس لی جاتی ہے۔ یعنی اس کا سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور اس سے سماجی رابطے ختم کئے جاتے ہیں۔
بلوچ معاشرے میں زندگی گزارنے کا مکمل کوڈ آف لائف ہوتا ہے۔ اگر اس کوڈ کو اپناؤگے تو آپ معاشرے کا حصہ ہوں گے ورنہ آپ کو معاشرہ قبول نہیں کریگا۔ بلوچ معاشرہ ایک احتسابی عمل کا نام ہیجو ہر بلوچ کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بلوچ طرز زندگی کے آداب کو اپناتے ہوئے معاشرے میں مثبت عمل کا مظاہرہ کرے۔ امن پرستی کا مظاہرہ کرے۔ جنگ اس صورت میں کرے جب معاشرے میں سماجی امتیازی سلوک جیسی صورتحال پیدا ہو۔ ہر طرف ناانصافی ہو۔ بلوچ کلچر اور روایات ریاستی جبر اور سماجی ناانصافی کے خلاف لڑنے کی تلقین کرتا ہے۔
اس تلقین کے سبب آج مکران کے طاقتور ڈرگ مافیا کے خلاف تحریک کامیابی اور کامرانی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ مکران دنیا میں منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کا ایک اہم روٹ ہے۔ڈرگ مافیا افغانستان سے مکران کے راستے سے منشیات دنیا میں اسمگلنگ کرتے ہیں۔ ٹنوں کے حساب سے منشیات مکران میں لائی جاتی ہے۔ پھر کارواں کی شکل میں مکران کی ساحلی پٹی پر لانچوں اور بحری جہازوں کے ذریعے یہ منشیات بیرونی ممالک بھیج دی جاتی ہے۔مکران سے جو منشیات دنیا میں اسمگل کی جاتی ہیں اس کی مالیت انٹرنیشنل مارکیٹ میں اربوں ڈالرز ہے۔ افغانستان سے مکران کوسٹل ایریا کا فاصلہ تقریباً چودہ سو کلومیٹر ہے۔
اس روٹ سے آنے والی منشیات ٹنوں کے حساب سے لائی جاتی ہے جو پوری کھیپ کی شکل میں ہوتی ہے اور کاروان کے کاروان چلتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس روٹ سے اتنی بڑی تعداد میں منشیات کو لانا آسان کام نہیں ہے۔ بلوچستان میں ہر دو کلومیٹر پر چیک پوسٹیں قائم ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کے ناک کے نیچے سب کچھ ہورہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں سرکاری اداروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ مکران سے گزرنے والی منشیات کی بھاری مقدار مکران کے مختلف علاقوں میں بھی فروخت ہوتی ہے۔
زامران، بلیدہ، تربت، مند، تمپ، دشت، اورماڑہ، کلمت، پسنی، گوادر، پشکان، جیوانی سمیت دیگر علاقوں میں منشیات فروش سرگرم عمل ہیں جس کی وجہ سے تمام علاقوں میں نشے کے عادی افراد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ نوجوان زندہ لاش کی مانند نظر آتے ہیں۔ سیاسی و سماجی حلقوں نے منشیات کی بھرمار کو ایک حکومتی سازش قراردیا۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت ایک منصوبے کے تحت بلوچ نسل کو منشیات کے ذریعے تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ تاکہ بلوچ معاشرے میں سیاسی کلچر کو تباہ کیا جائے۔ سیاسی کلچر کی تباہی سے حکومتی ادارے ایک تیر سے دو شکار کررہے ہیں۔ یعنی سیاسی تحریک کو روکنا ہے اور ساتھ ساتھ اربوں روپے بھی کمانا ہے۔ اس طرح ان کا اقتدار بھی محفوظ اور مال بھی محفوظ ہے۔
دنیا میں غیر مستحکم اور آمرانہ سوچ رکھنے والی ریاستیں منشیات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ منشیات کی لعنت کو معاشرے میں پھیلانے سے ان کی اقتدار کی مدت طویل ہوجاتی ہے۔ ان کو سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ جب معاشرے میں سیاسی کلچر کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو سیاسی مزاحمت یا تحریکوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔
ڈرگ مافیا کے خلاف چلنے والی تحریک سے قبل مکران کے عوام نے مسلح جتھوں کے خلاف کامیاب تحریک چلائی،یہ ایک خود رو تحریک تھی۔ جب گزشتہ سال تربت کے علاقے ڈنوک میں تین مسلح ڈاکو ڈکیتی کرنے کی نیت سے ایک مکان میں گھس آئے تھے۔
کم سن بچی کی والدہ ملک ناز کو مزاحمت کرنے پر گولی ماری گئی جبکہ چھوٹی بچی برامش بلوچ بری طرح زخمی ہوگئی تھی۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب پورا مکران ڈاکو راج کے لپیٹ میں تھا۔ مسلح افراد آزاد گھومتے تھے۔ سرِعام اسلحہ کی نمائش کرتے تھے۔ پرامن لوگوں کو ہراساں کیا جاتا تھا۔کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھا۔ چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہورہا تھا۔ ان مسلح افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔ ریاست کے اندر ایک ریاست قائم تھی۔ پورے مکران ڈویژن میں ایک خوف کا سماں تھا۔ ہر کوئی اپنی عزت کے ڈر سے چھپ رہتا تھا۔ کیونکہ ان مسلح افراد کو پشت پناہی حاصل تھی جس کی وجہ سے ان کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔
لیکن ڈنوک کی شہید ملک ناز نے اس خوف کی کیفیت کا خاتمہ اپنی بہادری سے کیا۔ انہوں نے اکیلی تین مسلح ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا۔آخری دم تک ایک مسلح فرد کو پکڑ ے رکھا۔ حالانکہ وہ بری طرح زخمی تھیں لیکن وہ ایک ڈاکو کو پکڑ کر عوام کے حوالے کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ لیکن اس کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ انہوں نے اپنے لہوسے معاشرے میں ایک خوف کا خاتمہ کردیا۔ اس کے خون نے عوام کو ایک نئی زندگی دی۔ ایک نیا راستہ دکھایا۔ وہ راستہ مزاحمت اور بہادری کا تھا۔